Asrar-ut-Tanzil - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس کا قرب پانے کا سبب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد (محنت) کرو تاکہ تم فلاح پاؤ
رکوع نمبر 6 ۔ آیات نمبر 35 تا 43 ۔ اسرار و معارف : ان لوگوں سے بات چل رہی ہے جنہیں اپنے ایمان کا دعوی ہے اور بڑا لطف آتا ہے جب قرآن حکیم بڑے پیار بھرے انداز میں فرماتا ہے اے ایمان والو ! ایک شفقت کا پہلو ، ایک محبت کا انداز ، ایک ناصحانہ رنگ لے کر یہ خطاب فرماتا ہے کہ گناہ چھوڑ دو اللہ کی نافرمانی نہ کرو اور ایمان لا کر جو تعلق اللہ سے قائم کرلیا ہے اسے کمزور نہ پڑنے دو بلکہ اس کی مزید ترقی کے لیے کوشش کرتے رہو۔ وسیلہ کی تحقیق : اس کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ وسیلہ کا معنی علماء نے محبت سے یا پیار سے جڑنا لکھا ہے اگر یہ ' س ' سے لکھا جائے جیسا کہ یہاں ہے اور اگر ' ص ' سے لکھا جائے تو مطلقا جڑنا مراد ہوگا اس میں کسی کیفیت کا ہونا مراد نہ ہوگا یعنی ایسے کام کرو جن سے محبت الہی دلوں میں بڑھے یا جن کی برکت سے اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا دے اور تم سے محبت کرنے لگے جیسے قرآن کریم میں ہی ارشاد ہے : فاتبعونی یحببکم اللہ میری پیرو کرلو ! اللہ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔ تم فرائض دا کرو اور معاصی اور گناہ سے رک جاؤ کہ یہ ہمارے نبی کا حکم ہے اللہ تم سے محبت کرنے لگیں گے تم اس پر اضافہ کرو سنتیں اور نوافل اپنا لو کہ یہ ہمارے نبی کا کردار ہے اللہ کریم تم سے زیادہ محبت کرنے لگیں گے پھر باری آجاتی ہے مباحات کی یعنی ایسے کام جن میں کوئی طریقہ مقرر نہیں ہے ہے یا جن کے کرنے کی اجازت ہے مگر آپ ﷺ نے ساری زندگی وہ کام نہیں کیا یا لباس میں مطابقت وغیرہ ذلک مثلاً ایک بار سیدنا عمر فاروق ؓ کا نیا کرتہ آیا تو بازو اتفاقاً ذرا لمبا تھا چھری منگوائی ایک طرف سے پکڑا اور بیٹے سے فرمایا یہاں سے کاٹ دو اتنا زیادہ ہے اس نے عرض کیا ٹھہرئیے ! میں قینچی لاتا ہوں فرمایا نہیں چھری سے کاٹو۔ ایک بار نبی ﷺ کا کرتے کا بازو لمبا تھا تو آپ نے چھری سے کاٹ دیا تھا۔ اب ممکن ہے اس وقت قینچی میسر ہی نہ ہو اور یہ مباح تھا کاٹتے نہ کاٹتے مگر یہاں بھی اتباع نبوت کس قدر عزیز تھا۔ حضرت ابن عمر ؓ بوڑھے ہوچکے تھے حج پر جا رہے تھے اونٹ پر بیٹھے ہوئے راستے میں ایک جگہ جھک گئے اور پالان کے ساتھ لگ گئے پھر سیدھے ہوگئے احباب نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے یہاں ایک بڑا درخت ہوتا تھا جب آپ ﷺ یہاں سے گذرے تھے تو ناقہ مبارک پر اسی طرح جھک گئے تھے کہ شاخیں لگ نہ جائیں۔ تو کہا اب تو درخت نہیں ہے۔ فرمایا درخت تو نہیں ہے مگر آپ کی ادائیں تو باقی ہیں ہمیں درخت سے کیا لینا۔ سو اس طرح مباحات میں بھی اگر غلامی اپنا لو تو اور زیادہ محبت نصیب ہوجائے گی۔ اللہ کی طرف سے اور محبت الہی کا یہ خاصہ ہے کہ جب نصیب ہوتی ہے تو بندے کو بھی جوابا اللہ سے محبت ہوجاتی ہے ویسے بھی عام زندگی میں کسی سے محبت رکھو وہ تم سے محبت سے پیش آئے گا نفرت کرو منہ سے ایک لفظ نہ کہو وہ بھی نفرت کرنا شروع کردے گا یہ ہے حقیقت وسیلہ۔ اب اس ضمن میں جو عمل معاون ہو وہ بھی وسیلہ کہلاتا ہے اور جو انسان اس راہ میں معاون ہو وہ بھی وسیلہ کہلائے گا جیسے انبیاء ، صحابہ ، اولیاء اللہ اور نیک لوگ۔ علماء حق وغیرہ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اعمال کے وسیلے سے دعا کرنا درست ہے تو اعمال بھی مخلوق ہیں سو نیک بندوں کے وسیلے سے بھی دعا کرنا درست ہے مگر آدمی وک اپنے مقصد کی اصلاح کرلینا ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ انبیاء و صلحاء کے اسمائے گرامی جمع کرکے معمولی سی دنیاوی لذت پہ بیچ کھائے بلکہ وسیلہ اللہ کے لیے تلاش کرے یعنی اس کی بدولت اللہ کا قرب اور اس کی رضا تلاش کرے اور اس کی راہ میں جہاد کرو یا مجاہدہ کرو دونوں معنی درست ہیں کہ وسیلہ موجود ہو مگر مجاہدہ نہ کیا جائے تو کماحقہ فائدہ ممکن نہیں اور میرے خیال میں یہ تجربہ ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہئے جن کو کسی صاحب حال کی مجلس نصیب تھی پھر کسی وجہ سے نہ رہی یا درمیان میں ملاقات کا عرصہ لمبا ہوگیا تو کیفیات کمزور پڑنا شروع ہوجاتی ہیں سو اس وسیلے سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے خواہ وہ عمل ہو یا کوئی نیک انسان اپنی محنت بھی تو شرط ہے کہ جہاد جو تلوار سے ہوگا اس کی ضرورت تو وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ فرض عین بھی ہوسکتا ہے فرض کفایہ بھی۔ مگر جو جہاد اپنے ساتھ اپنے نفس کے ساتھ برائی سے بچنے کے لیے یا نیکی پہ عمل کرنے کے لیے کرنا پڑتا ہے یہ جہد مسلسل ہے جس میں چھٹی کا کوئی تصور نہیں لہذا اس اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرو اور پوری پوری محنت کرو کہ تم فلاح یعنی ہر دو جہاں کی کامیابی سے ہمکنار ہوسکو۔ قرآن حکیم جب فلاح کی خوشخبری دیتا ہے تو یہ فرد کی ذات زندگی سے شروع ہو کر خاندانی اور قومی ملکی زندگی پھر زندگی موت مابعد الموت اور میدان حشر تک کی کامیابی کو محیط ہوتی ہے لہذا اس کے مقابلے میں دولت دنیا کوئی شے نہیں نہ اس کی کوئی حیثیت ہے کہ اول تو ساری دولت کے مقابلے میں دولت دنیا کوئی شے نہیں نہ اس کی کوئی حیثیت ہے کہ اول تو ساری دولت ایک شخص کو مل جائے یہ عقلاً محال ہے دوسرے نہ صرف یہ کہ جو کچھ دنیا میں ہے وہ مل جائے بلکہ اتنا ہی اور مل جائے یعنی اس قدر دولت سونا چاندی جواہرات ہر چیز اور بھی مل جائے اور کفار یہ چاہیں کہ روز حشر کو عذاب کے بدلہ میں یہ دولت دے کر جان بچا سکیں گے تو اللہ کریم قبول نہیں فرمائیں گے کہ یہ سب کچھ بھی تو انہی کا ہے پھر بدلہ کیسا ؟ کوئی ذاتی چیز تھوڑی دے رہا ہے نیز کفر پر عذاب ہونا کفر کا منطقی انجام ہے اگرچہ یہ حسرت کافروں کو ہمیشہ تڑپاتی رہے گی کہ کاش ہم دوزخ سے نکل سکیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوگا اور وہ کبھی نکلنے کا کوئی راستہ نہ پائینگے۔ بلکہ انہیں عذاب ہی ایسا دیا جائے گا جو دائمی اور ابدی ہوگا جس سے کبھی چھٹکارا پانے کی امید نہ رکھنی چاہئے اس لیے اول تو برائی سے اجتناب ضروری ہے۔ اور نہ صرف اللہ کی اطاعت بلکہ اللہ سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کو جیتو۔ اس کام پر جان لڑا دو ، یہ معمولی کام نہیں ہے دولت دنیا معمولی شے ہے کہ آخرت کی گرفت سے بچا نہ سکے گی جبکہ یہ محبت وہاں سزوار دیدار کریگی اور سرفراز مکالمہ کرے گی۔ بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تا بہ کجا۔ قانون کی نگاہ میں عورت اور مرد برابر ہیں : اور اگر مرد چوری کرے اور ثابت ہوجائے یا عورت چوری کرے اور پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو ان کے ہاتھ یعنی ایک بار میں ایک ہاتھ کاٹ دو کہ یہ ان کے کرتوت کی سزا بھی ہے اور اللہ کریم کی طرف سے عبرت بھی کہ جس سے دوسرے عبرت حاصل کریں اور معاشرہ سدھرا رہے انصاف قائم رہے یہ تب تک ہی ممکن ہے جب اللہ کا خوف رکھتے ہوئے اللہ سے محبت کرتے ہوئے اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے ، صحیح انصاف کیا جائے ورنہ اللہ خود ہر چیز پہ غالب ہے اور یہ اس کی حکمت ہے کہ انسان کو آزمائش میں ڈال دیا اور ایک پرکھ قائم کردی۔ توبہ کا دروازہ پھر بھی کھلا ہے سزا تو معاف نہ ہوگی ہاں اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اخروی رسوائی سے بچنے کے لیے اگر کسی بڑے سے بڑے گناہگار نے بھی توبہ کرلی اور اپنی اصلاح کرلی کہ توبہ کی حقیقت تو اصلاح احوال ہے اصل بات تو یہ ہے کہ اپنی اصلاح بھی کرے۔ صرف زبانی توبہ توبہ کہنے سے تو مقصد حاصل نہ ہوگا۔ تو اللہ یقیناً توبہ قبول فرماتا ہے اور وہ تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہی ہے یہی اس کی شان اور اس کی عظمت ہے۔ ورنہ اے مخاطب ! کیا تو نہیں جانتا کہ ارض و سما کی اصل حکومت تو اس کے دست قدرت میں ہے جسے چاہے عذاب کرے جب چاہے پکڑے جو چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف فرما دے مگر وہ کس قدر حلیم ہے بردبار ہے اور برداشت کرتا ہے لوگوں کو بےبس انسانوں کو جو تھوڑی تھوڑی حیثیت تھوڑے سے وقت کے لیے حاصل کرلیتے ہیں پھر اسے بھول جاتے ہیں اور اس کی زمین پر اس کے ملک میں اس کا رزق کھا کر اسی کی نافرمانی بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ ایسا قادر ہے کہ جو چاہے کرسکتا ہے جب چاہے کرسکتا ہے نہ کسی سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت ہے اسے نہ کسی کی مدد درکار ہے مگر عفو و درگذر سے کام لیتا ہے ایسے آخرت میں بھی تو اس کی رحمت کے کرشمے سے دیکھے گا ہاں ، اگر کوئی بدنصیب بالکل ہی بغیر توبہ کے گذر گیا تو یہ اس نے اپنے ساتھ خود زیادتی کی کفر پر مرا تو ہمیشہ جہنم اس کا مقدر ہے اور اگر گناہ پر موت آئی تو پھر بھی امید مغفرت ہے کہ اس کی رحمت بہت وسیع ہے۔ سبحان اللہ ! کیا انداز تخاطب ہے ایمان والوں کے ساتھ کتنا شفقت بھرا بیان تھا اور پھر یہاں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کس قدر پیار بھرا انداز ہے ! فرمایا اے رسول ! یہ بدنصیب جو ترا دامن رحمت تھامنے کی بجائے بھاگ بھاگ کر کفر میں گرتے ہیں آپ ان کا غم نہ کیا کریں۔ میری مراد منافقین سے ہے جن کی زبانیں کلمہ پڑھتی ہیں۔ مگر دل ایمان نہیں لاتے یا یہود میں سے ہوں کہ یہ لوگ بھی بدبختی میں کم نہیں تو رحمت عالم ﷺ چونکہ ساری کائنات کے لیے اللہ کی رحمت ہیں اس لیے آپ کو تو انسانیت کے ایک ایک فرد کے ضائع ہونے پر رنج کا پہنچنا قدرتی بات تھی مگر یہ بات امید افزا تو ان گناہگاروں کے لیے ہے جو لاکھ گناہگار سہی مگر ہیں تو مسلمان اور آپ کی غلامی کی ترپ رکھتے ہیں ایسے لوگوں کو نہ اللہ محروم فرماتے ہیں نہ شفقت نبوی دوسری بات کہ اصل ایمان دل کا ایمان ہے اور تمام اعمال کی اصل قلب کے خلوص پر ہے کہ وہ کس درجہ کا ہے اسی کے مطابق اجر وثواب ہوگا اسی لیے تمام سلاسل تصوف ذکر قلبی پہ زیادہ زور دیتے ہیں کہ جب دل روشن ہوجائے تو باقی کام آسان ہوجاتا ہے اور اگر دل ہی روشن نہ ہو تو باقی کیا کرایا بھی تباہ ہوجاتا ہے۔ رہے یہودی ، فرمایا یہ ایسے بدبخت ہیں کہ جھوٹ سننے کی عادت ہوچکی ہے ان کے دل اس قدر سیاہ ہوچکے ہیں کہ حق کے مقابلے میں انہیں ان کے اپنے عالم جو غلط سلط اور جھوٹ سناتے ہیں۔ وہ پسند ہے اور اچھا لگتا ہے جبھی تو آپ پر ایمان نہیں لاتے یہاں یہ تنبیہ موجود ہے کہ کوئی مولوی ہو یا پیر آپ ﷺ کے ارشادات اور سنت کے خلاف بدعات کو رواج دینے لگے تو اس کی پرواہ نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کا رد کرنا ضروری ہے وہ کم از کم خود تو علیحدہ ہوجائے دوسری بری عادت یہودیوں میں لگائی بجھائی کرنے اور جاسوسی کرنے کی ہے اور یہ دوسروں کو جا کر بتانے کے لیے حضور کی مجلس میں آ کر سنتے ہیں اور پھر ایسے بدبخت ہیں ان سے بھی سچ نہیں بولتے سنتے کچھ ہیں بیان کچھ اور جا کر کرتے ہیں مدینہ منورہ میں تو براہ راست واسطہ آگیا مکی زندگی میں بھی آپ ﷺ کے لیے رکاوٹ بننا یہ یہود کی زندگی کا مقصد رہا ہے اور اہل مکہ کو یوہد کے علماء مدینہ سے اعتراض سکھا کر بھیجا کرتے تھے کہ یہ جا کر کہو وہ جا کر کہو جن میں سے بعض کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے پھر مدینہ منورہ میں بار بار اہل مکہ کو حملہ کرنے پر اکسانے کے لیے انہوں نے بڑی محنت کی پھر قیصر و کسری کو اسلام کے مقابل لائے ان کی تباہی کے بعد مسلمانوں کے اندر خلاف اسلام کام کرنے والی تحریک شیعہ نام سے ترتیب دی جو اگرچہ اپنی تیاری میں بڑا لمبا عرصہ لے گئی اور جس کی بنیادی کتب عموماً تیسری اور چوتھی صدی کی ہیں مگر آج تک اسلام ان کے دل میں کانٹے کی طرح پیوست ہے خدا ان کے شر سے اسلام اور مسلمان دونوں کو پناہ دے۔ (آمین) تو وہاں یہود میں ایک قتل کا واقعہ ہوا جس کے بارے ان کے ہاں امیر اور غریب کیلئے جداگانہ قانون تھا کہ اگر بنو قریظہ جو یہود مدینہ کا اقیک قبیلہ تھا یہود ہی کے دوسرے قبیلے بنونضیر کا آدمی قتل کردے تو دو آدمی بدلے میں قتل کئے جائیں گے اور دگنا خون بہا بھی لیا جائے گا لیکن بنو نضیر چونکہ امیر تھے اگر ان کا آدمی بنو قریظہ کا بندہ قتل کرے تو صرف خون بہا دیا جائے گا دگنا بھی نہ ہوگا۔ ایسے ہی خیبر میں ایک شہزادے نے زنا کا ارتکاب کیا نہوں نے ملامت کرکے چھوڑ دیا غریب آدمی سے صادر ہو تو حد جاری کرتے۔ اس پر شور ہوا تو اگرچہ یہ ساری ناانصافی خود ان کی اپنی کتاب کے بھی خلاف تھی مگر انہوں نے چاہا کہ یہ مقدمے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کریں اگر تو فیصلہ اپنی پسند کا ہوا جس کے لیے کچھ منافقین کی خدمات حاصل کی گئیں کچھ یہودیوں نے حاضر ہونا چاہا اور ارادہ یہی تھا کہ باتوں باتوں میں آپ ﷺ کے ذہن عالی کو ایس ابنایا جائے کہ ہماری خواہش کے مطابق فیصلہ ہوجائے اور اگر ایسا نہ ہو تو مانیں گے یہاں ایسے ہی دو گروہوں کا ذکر ہورہا ہے اللہ کریم نے بذریعہ وحی اطلاع کردی کہ ایک گروہ ان میں سے منافق ہے دل سے مسلمان ہی نہیں اور دوسرا بظاہر بھی یہودی۔ سیاہ قلب اور برے اعمال رکھنے والے آپ ﷺ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کو جب اللہ مبتلائے فتنہ کرتا ہے تو آپ بھی ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے کہ انہوں نے خود اس قدر زہر پی لیا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کے بس سے بات نکل چکی ہوتی ہے اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کے قلوب کو پاک کرنے کا کبھی ارادہ بھی نہیں کیا جاتا یعنی اللہ کریم اس طرح کے اعمال سے اس قدر ناراض ہوتے ہیں کہ پھر ایسے قلوب کبھی اپنے لیے اپنی یاد کے لیے اپنی تجلیات کے لیے پسند ہی نہیں فرماتے کہ انہیں توبہ کی توفیق نصہب ہو ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے کہ یہ جھوٹ سننے کے اور حرام کھانے کے عادی ہوچکے ہیں جھوٹ سننے کی اصل تو یہ ہے کہ حق کو چھوڑ کر محض رسومات کو بدعات اور رواجات کو دین سمجھ لیا جائے مگر ہر جھوٹ کا سننا اپنا ایک اثر ضرور چھوڑتا ہے پہلے کا بہت زیادہ ہوتا ہے فوری ہوتا ہے اور زیادہ نقصان دہ دوسرے عام زندگی میں جو ہوتا ہے اس کا اثر اس کی نسبت ذرا کم نقصان دہ مگر فائدہ تو وہ بھی نہیں دیتا جھوٹ بولنا کس قدر نقصان دیتا ہوگا۔ اس کی نسبت جب سننے سے یہ حال ہوتا ہے اور حرام کھانا بھی دل کو سیاہ کردیتا ہے اور اعمال کی توفیق سلب کرلیتا ہے منافقانہ طور پر دکھاوے کے لیے کچھ رہ بھی جائے تو کیا ؟ در اصل کچھ نہیں بچتا۔ مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم (رح) نے لکھا ہے کہ ' سحت ' سے مراد وہ اجرت ہے جو کوئی آدمی اس کام پر لیتا ہے جس کی اسے تنخواہ دی جاتی ہے جیسے دفاتر کے کلرک آفیسرز پولیس یا مختلف محکمے جو ان کے فرائض میں داخل ہے کرکے اس پر پیسے لیتے ہیں تو یہ سحت ہے اور اگر پیسے لے کر ناجائز کرتے ہیں تو یہ رشوت ہے اس میں لینے والا اور دینے والا دونوں برابر گناہگار ہیں۔ یہ تو ہے ان کا حال ظاہر کا بھی اور ان کے دلوں کا بھی ، اب یہ نہ آپ کے زیر نگیں اسلامی ریاست میں ہیں اور نہ فی الحال کوئی معاہدہ ہے لہذا اگر آئیں تو آپ پسند فرمائیں تو فیصلہ کردیں نہ پسند فرمائیں نہ کریں کہ آپ کی ذمہ داری میں داخل نہیں ہاں ! اگر فیصلہ کریں تو پھر پورے انصاف سے کیجئے گا کہ اللہ انصاف کرنے والوں ہی کو دوست رکھتا ہے اور اسلام انصاف کے معاملہ میں دوستی دشمنی کا قائل نہیں حق و ناحق کا قائل ہے اور حق پر فیصلہ دیا جائے یہ اللہ کو پسند ہے خواہ حق کافر کا بنتا ہو اور جب خود ان کے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے تو یہ آپ سے فیصلہ کیوں چاہتے ہیں ؟ کیا وہاں فیصلہ موجود نہیں ہے اس سے کیوں بھاگتے ہیں ؟ چناچہ آپ نے دونوں کا فیصلہ حق کے مطابق کردی اتو یہودی چیخ اٹھے فرمایا اپنے سب سے بڑے عالم کو لاؤ ! چناچہ ابن صوریابہت بڑا فاضل تھا وہ لایا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تجھے تورات ہی کی قسم دی جاتی ہے۔ بتا زانی کی سزا تورات میں کیا ہے ؟ کہنے لگا اصل میں ہم میں سے ایک شہزادے سے جرم سرزد ہوا بجائے سنگسار کرنے کے ملامت کرکے چھوڑ دیا اس طرح وہ قانون بن گئے غریبوں کے لیے اور قانون ، امیروں کے لیے دوسرا قانون ، ورنہ فو فیصلہ آپ ﷺ نے دیا ہے وہی پہلے سے ہمارے ہاں تورات میں موجود ہے سو جب پہلے سے اللہ کی کتاب کو نہ مان کر کافر ہو رہے تھے پھر آپ ﷺ کے مبعوث ہونے کا انکار کردیا مزید کفر میں دھنس گئے۔ ایسے لوگ کیا مان کے مریں گے۔
Top