Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس تک وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پائو۔
ترکیب : الیہ الوسیلۃ ممکن ہے کہ ابتغوا سے متعلق ہو اور جائز ہے کہ خود الوسیلۃ سے کیونکہ یہ بمعنی المتوسل بہ ہے الذین کفروا صلہ موصول اسم ان لو ان شرط الخ جواب مجموعہ خبران۔ تفسیر : اس پہلی آیت میں ان مفسدوں اور باغیوں کی مذمت تھی جو خدا سے لڑتے تھے اور رسول اور قرآن کے حکم سے جو خدا تعالیٰ کی طرف پہنچنے کا وسیلہ اور حبل المتین ہے چھوڑ کر دائرہ اطاعت سے باہر ہوتے تھے جس کا نتیجہ دنیا اور آخرت میں رسوائی اور خواری ہے۔ اس مقام پر ان کے برخلاف اس وسیلہ الٰہی کو اختیار کرکے ہر ایک قسم کی نیکی اور بھلائی کرنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے اور اس کے برخلاف کرنے میں آخرت کا انجامِ بد بتایا جاتا ہے۔ واضح ہو کہ جمیع احکامِ الٰہی دو قسم میں منحصر ہیں : قسم اول بری باتوں کا ترک کرنا اور یہ سب سے مقدم ہے کیونکہ انسان جب تک بری باتوں کو ترک نہیں کرے گا تو اس کے لوح دل پر ضرور ایک ایسا اثر پیدا ہوگا جو اس کو نیکیوں سے روکے گا اور اپنی ہی طرف کھینچے گا۔ علاوہ اس کے جب کسی لوح پر کوئی عمدہ نقش کھینچنا چاہتے ہیں تو اول اس کو صاف کرلیتے ہیں پھر کچھ لکھتے ہیں ؎ چاہیے تجھ کو اگر وصل صنم دل کو خالی غیر سے کریک قلم اس لئے سب سے مقدم اس قسم کی طرف واتقوا اللّٰہ میں اشارہ کیا۔ دوسری قسم اچھی چیزوں کا عمل میں لانا۔ عبادت ‘ سخاوت ‘ رحم دلی ‘ بردباری ‘ صبر و شکر ‘ رضا و تسلیم وغیرہ ان سب کی طرف وابتغوا الیہ لوسیلۃ میں اشارہ فرمایا۔ پس یہ کرنا اور نہ کرنا افعال میں بھی معتبر ہے۔ نہ کرنے میں منہیات اور کرنے میں مامورات شامل ہیں اور اسی طرح اخلاق میں بھی اخلاق رذیلہ تکبر ‘ عجب ‘ ریا (خودپسندی) کو ترک کرنا چاہیے۔ بردباری ‘ رضا و تسلیم کو عمل میں لانا چاہیے اور اسی طرح افکار میں بھی ترک اور عمل معتبر ہیں۔ جن افکار کا ترک لازم ہے وہ برے خیالات ہیں جو انسان کے لئے بری باتوں کی طرف محرک ہوتے ہیں اور اچھے خیالات کو عمل میں لانا چاہیے جو حسنات کی طرف محرک ہیں اور اسی طرح یہ ترک اور فعل مقام تجلی میں بھی معتبر ہے۔ ترک التفات الی غیر اللہ کرنا چاہیے۔ فعل کیا ہے اس کی ذات پر انوار میں مستغرق رہنا ‘ اہل ریاضت ترک کو تخلیہ اور کبھی صحو اور محو اور نفی اور فنا کہتے ہیں اور ان سب میں نفی مقدم ہوا کرتی ہے۔ اس لئے کلمہ توحید لا الہ میں نفی مقدم ہے۔ اثبات الا اللہ مؤخر۔ وسیلہ ہر قسم کے اچھے کام ہیں اور قرآن مجید اور نبی کریم علیہ الصلواۃ والسلام اور بزرگان دین بھی خدا کی طرف کا وسیلہ ہیں۔ ارشاد اور فیض سے انسان خیرات کی طرف راغب ہوتا ہے اور ان ہی کی برکت سے خدا تعالیٰ کا طالب بنتا ہے اور جبکہ حسنات اور سعادات کا عمل میں لانا کوئی آسان 1 ؎ بات زبانی جمع خرچ نہ تھا۔ اس لئے اس کے بعد جاھدوا فی سبیلہ بھی فرما دیا۔ انبیاء (علیہم السلام) با ایں علو مرتبت راتوں کو رویا کرتے تھے اور آنسوئوں کے موتی اس جمال جہاں آرا کی یاد میں پرویا کرتے تھے۔ صحابہ اور بزرگان دین کی جان کا ہیاں مشہور ہیں۔ اس میں طالبان ذات کے بلند مرتبہ کی طرف اور لعلکم تفلحون میں طالبان عقبی کی طرف اشارہ ہے۔ ان الذین کفروا میں ان لوگوں کا انجام کار بیان ہوتا ہے جو اس عالم فانی کے لذائذِ حسیہ پر فریفتہ ہو کر اس عالم جاودانی کو بھول بیٹھتے ہیں اور اللہ کے وسیلہ کو چھوڑ خدا سے توڑ بیٹھتے ہیں۔
Top