Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی جناب میں قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو توقع ہے کہ تم کامیاب ہو جائو گے1
1 اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کے احکام کی مخالفت سے ڈرتے رہو یعنی معاصی اور گناہ ترک کرو اور اس کی جناب میں قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو یعنی اس کے احکام اور طاعات ضروریہ بجا لائو اور ان طاعات ضروریہ میں سے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا کرو توقع ہے کہ تم کامیاب ہو گے یعنی دنیا میں بھی سربلند اور ذی اقتدار ہو گے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کرو گے اور دوزخ سے بچ جائو گے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی رسول کی اطاعت میں جو نیکی کرو وہ قبول ہے اور بغیر اس کے عقل سے کرو سو قبول نہیں (موضح القرآن) وسیلہ حصول مطلوب کے ذریعہ کو کہتے ہیں یہاں تقرب کے ساتھ سلف نے تفسیر کی ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقرب طاعات ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ وسیلہ ایک درجہ اور مرتبہ ہے اس سے اونچا کوئی درجہ اور مرتبہ نہیں ہے تم اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ طلب کیا کرو۔ بخارینے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کی ہے جو شخص اذان سن کر یوں کہتا ہے ۔ اللھم رب ھذہ الدعوۃ التآمۃ والصلوۃ القآئمۃ اب محمد الوسیلۃ والفضیلتہ وابعثہ مقاماً محمود الذی وعدثہ تو ایسے شخص کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہوجاتی ہے ۔ مسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت کی ہے کہ جب تم موذن کی اذان سنو تو مئوذن جس طرح کہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو پھر مجھ پر درود پڑھو جو شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو یہ وسیلہ جنت میں ایک درجہ ہے جو اللہ کے نیک بندوں میں سوائے ایک بندے کے اور کسی کو نصیب نہ ہوگا اور مجھ کو یہ امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں تم میں سے جو شخص میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرے گا تو اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوگی۔ اس تفسیر پر اگر یہ شبہ کیا جائے کہ جب یہ درجہ جس کو وسیلہ کہا گیا ہے نبی کریم ﷺ کے ساتھ مخصوص تو اس کو عام مسلمان کس طرح طلب کرسکتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل کے اعتبار سے تو یہ درجہ حضور ﷺ ہی کے ساتھ مخصوص ہے لیکن تبعاً امت کے دوسرے افراد بھی مستفید ہوسکتے ہیں اور یہ جواب بھی ہوسکتا ہے کہ وسیلہ سے قریب کے عام درجات مراد ہوں جن میں سے خاص درجہ حضور ﷺ کے لئے مخصوص ہو باقی دوسرے کاملین کو حسب مراتب عطا کئے جائیں۔ (واللہ اعلم) سلف سے جو تفسیر منقول ہے اس کی بنا پر ہم نے تیسیر میں خلاصہ کردیا ہے اور اسی وجہ سے طاعات میں جہاد کا ذکر کرتے ہوئے خاص طور کا لفظ رکھا ہے تاکہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ جس قدر طاعت میں کلفت اور محنت ہوگی اسی قدر تقرب اور قربت حاصل ہوگی اور شاید اس موقعہ پر جہاد کا ذکر اس لئے بھی فرمایا ہو کہ اوپر قتل و لوٹ سے منع کیا تھا اور چونکہ بظاہر جہاد میں ب ھی یہی ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ جہاد رہزنی اور ڈکیتی کا نام نہیں ہے دونوں میں بڑا فرق ہے اگرچہ صورتاً یکساں معلوم ہوتے ہیں، اسی لئے شاہ صاحب نے بھی اپنے فائدے میں فرمایا کہ اللہ رسول کی اطاعت سے کسی کام کو بجا لانا مقبول ہے اور اپنی عقل سے کسی کا م کو کرنا بےسود اور مردود ہے۔ بہرحال ! مطلب ی ہے کہ جو جنگ اور لوٹ مار اللہ تعالیٰ کی بات کو اونچا کرنے اور دنیا میں امن قائم کرنے کی غرض سے کی جائے وہ موجب اجر وثواب ہے اور جو جنگ بدامنی اور رہزنی کی غرض سے کی جائیتو وہ دنیا و آخرت میں رسوائی اور عذاب کا موجب ہے بہرحال ! زیر بحث آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کے کے احکام کی مخالفت سے بچتے رہو اور تمام منہیات شرعیہ سے بچتے رہو اللہ تعالیٰ کی جناب میں تقرب کا ذریعہ تلاش کردار چونکہ حضرت حق کی جناب میں تقرب نیک اعمال سے ہی ہوسکتا ہے اس لئے نیک اعمال کرتے رہو اور منجملہ دوسرے نیک اعمال کے خاص طور پر مجاہدانہ زندگی اختیار کرو تاکہ تم دین و دنیا دونوں میں اپنے مقصد اور اپنی مراد سے ہم آغوش ہو سکو، اب آگے کفر کی مذمت ہے کیونکہ نیک اعمال میں سب سے بڑھ کر ایمان اور معاصی میں سب سے بڑھ کر کفر ہے ، لہٰذا کفر کی مذمت ایمان کی مدح کو مستلزم ہے نیز اس لئے کہ نجات کا وسیلہ اور تقرب کا ذریعہ ایمان اور اعمال صالحہ ہی ہوسکتے ہیں اگر کسی بدنصیب کے پاس ایمان نہ ہو تو پھر ساری دنیا کی دولت بھی ہیچ ہے اور تمام دنیا کی دولت بھی عذاب سے نجات کا ذریعہ نہیں ہوسکتی چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top