Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ڈرو اللہ تعالیٰ سے اور تلاش کرو اس کی طرف وسیلہ اور جہاد کرو اس کے راستے میں تاکہ تم فلاح پاجائو
ربط آیات بنی اسرائیل کے نقض عہد کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا ذکر کیا۔ ایک بیٹے نے ظلم وتعدی کی اور دوسرے کو ناحق قتل کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حفاظت جان کی تعلیم دی اور فرمایا کہ ایک انسانی جان کا قتل پوری نسل انسانی کے قتل کے برابر ہے اور ایک جان کی حفاظت تمام انسانی سوسائٹی کی حفاظت کے مترادف ہے ۔ پھر اللہ نے فساد فی الارض کی مذمت بیان فرمائی اور اس کی ایک قسم ڈکیتی کی سزا کا ذکر کیا۔ اس دورس کے بعد فساد فی الارض کی دوسری قسم سرقہ کا بیان ہوگا تاہم درمیان میں اہل ایمان سے خطاب کرکے بعض چیزوں کا مطالبہ کیا گیا ہے کیونکہ بنی اسرائیل میں پائی جانے والی خرابیوں سے بچنے کے لیے مطلوبہ چیزوں کی پابندی ضروری ہے۔ بنی اسرائیل چونکہ جہاد سے گریز کرتے تھے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو جہاد کا حکم دیا ہے۔ وہ قوم فسق و فجور میں مبتلاتھی ‘ اہل ایمان کو اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بنی اسرائیل ظلم و زیادتی کے مرتکب ہوتے تھے۔ قتل ناحق اور ڈکیتی جیسی قبیح حرکات کرتے تھے ‘ اللہ نے اہل ایمان کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ آج کے درس میں کفار کے برے انجام سے بھی خبردار کیا گیا ہے۔ پھر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ قیامت کے دن کفار کی طرف سے زمین بھر مال و دولت بھی فدیہ میں قبول نہیں کیا جائے گا ‘ بلکہ وہ سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ آخرت میں کام آنے والی چیزیں تقوی ‘ اطاعت عدل و انصاف اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ ہیں۔ خوف خدا ارشاد ہوتا ہے۔ یا یھا الذین امنوا اتقوا اللہ یعنی اے ایمان ولو ! اللہ سے ڈرتے رہو۔ تقوے یا خوف خدا کی اولین علامت یہ ہے کہ انسان بد عقیدگی سے بچ جائے ‘ شرک اور کفر کو قریب نہ آنے دے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر معاصی ہیں ‘ انہیں ترک کرنا ہوگا ‘ کافر ‘ مشرک اور منافق متقی نہیں ہوسکتا۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں ۔ کہ تقویٰ کا مفہوم ہے ” حفاظت بر حدود شرعیہ “ یعنی شریعت کی قائم کردہ حدوں کی حفاظت کرنا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے۔ کہ متقی وہ لوگ ہیں جو کفر ‘ شرک ‘ نفاق اور معاصی سے بچتے ہیں اور نیکی پر عمل کرتے ہیں ‘ عدل و انصاف ان کا خاصہ اور لازمہ ہوتا ہے۔ خوف خدا سے مراد ایسا ڈر نہیں جیسا کہ سانپ یا بچھو سے آتا ہے۔ بلکہ اس خوف سے مراد یہ ہے کہ انسان کہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی خوشنودی سے دور نہ جا پڑے۔ انسان کے دل میں یہ خوف ہمیشہ موجود رہنا چاہیے کہ کوئی کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہ ہوجائے۔ وسیلہ کی تلاش فرمایا اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو وابتغوآ الیہ الوسیلۃ اور اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔ لفظ وسیلہ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ وسیلہ کا معنی قرب ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا معنی مرتبہ اور پھر حاجت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ تاہم مفسرین قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ حسن بصری (رح) اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں پر وسیلہ تلاش کرنے کا مطلب ہے تقربوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ یعنی اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرو۔ اس کی اطاعت کے ساتھ اور اس چیز کے ساتھ جو اللہ کو راضی کرتی ہے۔ لفظ وسیلہ س اور ص دونوں کے ساتھ آتا ہے اور اس کا معنی قرب اور اتصال ہے۔ عربی شاعر کہتا ہے ؎ اذا غفر الواشون عدنا الوصلنا وعادت التصافی بیننا والوسائل جب چغل خور غافل ہوتے ہیں تو ہم اپنے قرب کی طرف لوٹ آتے ہیں اور ہماری محبت اور قرب کے تمام وسائل پلٹ آتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عربی زبان میں وسیلہ قرب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ وسیلہ جنت میں ایک اعلیٰ مقام کا نام بھی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ وسیلہ ایک بلند ترین مقام ہے اور وہ اللہ کی مخلوق میں سے صرف ایک شخص کو ملیگا۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ ہی ہوں گا ‘ لہذا اذان کے بعد مجھ پر درود پڑھا کرو اور میرے لیے وسیلے کی دعا کیا کرو 1 ؎ اللھم رب ھذہ الدعوۃ التآ مۃ والصلوۃ القآ ئمۃ ات محمد ن الوسیلۃ۔۔ الخ اس دعا سے امت کے حق میں بھی بہتری ہوگی۔ گویا اس منزلت کا نام وسیلہ ہے جسے ہم اذان کے بعد دعا میں طلب کرتے ہیں حضرت مولانا شیخ الاسلام (رح) فرماتے ہیں کہ وسیلہ حق تعالیٰ کے مقامات قرب میں سے بلند تر مقام ہے۔ عربی میں وسیلہ کا معنی حاجت بھی آتا ہے۔ زمانہ جاہلیت کا شاعر کہتا ہے ؎ ان الرجال لھم الیک وسیلۃ ان یأ خذوک تکحلی وتخضبی عورت کو مخاطب کرکے کہتا ہے ۔ کہ مردوں کو تیری ضرورت یعنی حاجت ہے۔ لہذا تم آنکھوں سر مہ لگالو۔ اور ہاتھوں کو مہندی سے رنگ لو۔ بہرحال اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس کی طرف متوجہ ہو اپنی حاجتیں اسی سے طلب کرو۔ حاصل کلام یہ کہ تقرب الی اللہ کے جتنے بھی ذرائع ہیں وہ سب وسیلہ کہلاسکتے ہیں۔ تو فرمایا اللہ تعالیٰ کی ناخوشی ‘ بعد اور ہجر سے ڈر کر اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اور یہ جبھی ہو سکتا ہے جب درمیان کے تمام راستے طے ہوجائیں جن پر چل کر اس تک پہنچ سکتے ہیں۔ 1 ؎ بخاری ص 86 ج 1 (فیاض) توسل بالذات جیسا کہ عرض کیا وسیلہ کا معنی اگرچہ تقرب ‘ اطاعت ‘ حاجت یا منزلہ و مرتبہ ہے مگر تقرب الی اللہ کے ذرائع میں ہر ایسی چیز داخل ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خوشنودی مدنظر ہو۔ چناچہ تقرب الی اللہ کے ذرائع میں انبیاء اولیاء اللہ اور صالحین کی محبت ورفاقت بھی شامل ہے۔ اسی لیے اگر دعا میں کسی نیک آدمی کا توسل پیش کیا جائے تو یہ ضروری تو نہیں مگر مباح ہے اور اس معنی یہ ہوگا کہ ہمیں جو محبت اور الفت اس بزرگ کے ساتھ ہے اس کے وسیلے سے ہم خدا کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں ۔ کہ وہ ہمارے مقصد کو پورا فرمادے۔ کسی کی ذات کے توسل کا یہی مطلب ہے ‘ نہ یہ کہ ہم اس بزرگ کو حاضر و ناظر جانتے ہیں اور یہ کہ وہ ہماری ہر بات کو جانتا ہے اور خدا خواہ راضی ہو یا ناراض وہ ہر صورت میں ہمارا کام کروا دیگا۔ تو سل کا یہ مطلب تو مشرکین کا عقیدہ ہے۔ یہ تو وہ جبری شفاعت والا مسئلہ آگیا۔ حالانکہ خداوند تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے ” من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ “ اور سورة بقرہ میں یہ بھی ہے ” ولا تنفعھا شفاعۃ “ یعنی نہ تو اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو شفاعت کی اجازت ہوگی اور نہ ایسی شفارش کوئی فائدہ دیگی۔ باطل پرست یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم جو چاہیں کرتے رہیں ہمارے بزرگ ہمیں چھڑا لیں گے ‘ یہ بالکل مشرکانہ اور جبری شفاعت کا عقیدہ ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی (رح) فرماتے ہیں کہ ہم دعا کرتے ہیں بحرمۃ النبی والہ حضور نبی کریم اور آپ کی آل کے واسطہ کے ساتھ۔ یعنی اے اللہ ! اپنے بنی کی حرمت اور عزت کے ساتھ ہماری داعا قبو فرما ‘ حرمت ‘ طفیل ‘ وسیلہ اور حق کا یہی معنی ہے ؎ خدایا بحق بنی فاطمہ کہ برقول ِ ایماں کنی خاتمہ اے خدایا ! حضرت فاطمہ کی اولاد کے طفیل ہمارا خاتمہ بالایمان فرما کہیں وجاہت کا ذکر ہے اور کہیں الفت اور محبت کا تذکرہ ہے اولیاء اللہ سے محبت رکھنا بھی نیک عمل ہے۔ ہر نیک آدمی سے اتصال اور الفت ایمان کی نشانی ہے۔ اس لیے ان کے توسل سے دعا کرنا نیک عمل ہی کا واسطہ ہے۔ اس صفت کے بغیر کسی کی ذات کا توسل مراد نہیں ہے۔ بزرگان دین انہی معنوں میں توسل کو جائز قراردیتے ہیں۔ اس کے برخلاف مشرکین جبری شفاعت کے قائل ہیں کہ خدا راضی ہو یا نہ ہو۔ ہمارے بزرگ ہر حالت میں ہماری مراد پوری کرادیں گے۔ وہ کہتے تھے ” مانعبدھم الا لیقربوا نآ الی اللہ زلفی “ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا قرب دلادیں گے۔ ہم تو براہ راست خدا کی بارگاہ میں نہیں پہنچ سکتے لہذا یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیتے ہیں ۔ چونکہ یہ عقیدہ معبود ان باطلہ کی عبادت کے مترادف ہے ‘ اس لیے شرک ہے بہر حال حاجت ہر حالت میں اللہ تعالیٰ سے ہی طلب کی جاتی ہے اور نبی یا ولی کی حیثیت محض وسیلہ کی ہوتی ہے۔ کہ دعا مانگنے والا ان سے محبت رکھتا ہے۔ وظیفہ شیئ اللہ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا مانگنا کہ اے اللہ شیخ عبدالقادر جیلانی کے وسیلے سے ہماری دعا قبول کر ‘ درست ہے مگر لوگ الٹا وظیفہ پڑھتے ہیں یا شیخ بعدالقادر جیلانی شیئا للہ اس جملے میں شیخ عبدالقادر کو مقصود بنا کر ان سے حاجت طلب کی جاتی ہے اور درمیان میں اللہ کو وسیلہ بنایاجاتا ہے۔ یعنی اے عبدالقادر ! خدا کے وسیلے سے ہمیں کوئی چیز عطا کردے۔ یہی تو شرک ہے۔ شاہ اسماعیل شہید (رح) اپنی کتاب تقویتۃ الایمان میں شرک کی تردید میں لکھتے ہیں کہ اگر اس کا یوں الٹ کردیا جائے۔ یا اللہ شیئا للشیخ عبد القادر جیلانی تو درست ہے ‘ یعنی اے مولا کریم ‘ شیخ عبدالقادر (رح) کے وسیلہ سے میری حاجت پوری کردے۔ اس میں مقصود اور حاجت روا خدا تعالیٰ کو تسلیم کیا جائے گا اور شیخ عبدالقادر (رح) کو محبت کا وسیلہ پیش ہوگا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وسیلہ ‘ طفیل یا حرمت کہنا درست نہیں ہے ‘ مگر جیسا کہ عرض کیا کہ یہ کوئی لازمی نہیں ہے بلکہ صرف مباح ہے اگر کوئی ایسا وسیلہ استعمال نہیں کرتا تو ظاہر ہے کہ دعا میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور اگر یہ چیز بزرگوں سے ثابت ہے ‘ تو اسے مباح کی حیثیت حاصل ہے ‘ بہرحال اس سے ایسا وسیلہ مراد نہیں جو مشرک سمجھتے ہیں۔ توسل بالاعمال البتہ اعمال کا تو سل سب کے نزدیک جائز ہے۔ امام ابن تیمیہ (رح) اور دیگر بزرگلن دین اس پر متفق ہیں۔ بخاری شریف میں تین آدمیوں کا ذکر آتا ہے جو پہاڑ کی ایک غار میں پھنس گئے تھے۔ انہوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کے توسل سے دعا مانگی تو اللہ نے ان کو مصیت سے نجات دے دی تھی۔ لہذا سید علی ہجویری (رح) کے توسل سے دعا کرنا۔ ان کے نیک اعمال ہی کا توسل پکڑنا ہے نہ کہ محض ان کی ذات کا ۔ آپ ایک صالح آدمی تھے۔ آپ ہزاروں آدمیوں کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ لوگ کفر اور شرک سے نکل کر ایمان اور توحید کی روشنی میں آئے ‘ ہم ان کے پیروکار ہیں ‘ ہمیں ان سے محبت ہے ۔ اے اللہ ! ان کی برکت اور طفیل سے ہماری حاجت پوری کردے اس طرح تو جائز ہے۔ اور اگر ان بزرگوں کو حاضر وناظر اور عالم الغیب سمجھے گا اور جبری شفاعت کا عقیدہ رکھے گا کہ یہ ضرور ہی ہمیں چھڑا لیں گے۔ یا خود ہماری حاجت پوری کردیں گے تو یہ سو فیصدی صریح اور جلی شرک ہے۔ جو کہ قطعی طور پر حرام ہے۔ بہرحال وسیلہ کے لفظ کی تشریح میں نے عرض کردی۔ جہاد فی سبیل اللہ فرمایا اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔ تیسری چیز فرمایا وجاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون اور جہاد کرو اس کے راستے میں ‘ تاکہ تم فلا ح پا جائو ‘ جہاد میں ہر قسم کا جہاد یعنی مالی ‘ جانی ‘ قلمی اور زبانی شامل ہے جس طرح کفر کو مٹانے اور ظلم کی بیچ کنی کے لیے جانی اور مالی جہاد کیا جاتا ہے۔ اس طرح قلمی جہاد بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جن لوگوں نے قرآن پاک کے تراجم کیے ہیں ‘ بڑی بڑی تفسیریں لکھی ہیں ‘ حدیث کی کتابیں مرتب کی ہیں۔ انہوں نے اپنے قلم سے جہاد کیا ہے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے ” جاھدوا باموالکم وانفسکم “ یعنی مال اور جان کے ذریعے جہاد کرو۔ دین کی اقامت اور اس کی تقویت کے لیے جو شخص مال خرچ کرتا ہے بلاشبہ وہ جہاد میں حصہ لیتا ہے۔ نظام اسلام کی سر بلندی کے لیے روپیہ خرچ کرنا جہاد ہے۔ اس کے برخلاف کھیل تماشے پر خرچ کرنا۔ فضول عمارات بنانا ‘ عیاشی اور فحاشی پر خرچ کرنا شیطان کے راستے پر خرچ کرنا ہے ‘ اگر مسجد یا مدرسے کی تعمیر پر خرچ کیا جائے گا ‘ کتاب کی اشاعت میں تعاون کیا جائیگا تو یہی مال تو شہ آخرت بن جائے گا۔ ابو دائود شریف کی حدیث میں موجود ہے جاھدوا الکفار و المشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم یعنی کفار و مشرکین کے ساتھ ‘ مالوں ‘ جانوں اور زبانوں کے ساتھ جہاد کرو کفر وشرک اور برائی کی تردید میں تبلیغ کرنا جہاد باللسان ہے۔ اسی طرح خدا اور رسول کا پیغام غیر مسلموں تک پہنچانا بھی زبان کے ذریعے سے جہاد ہے۔ مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ دین کا پیغام غیر مسلم اقوام تک پہنچانے کی بجائے آجکل مسلمانوں کی زبانیں آپس کی طعن وتشنیع پر ہی لگی ہوئی ہیں ایک دوسرے فرقے کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے ‘ مگر اصل کام کی طرف بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔ جہاد باللسان تو یہ ہے کہ جن لوگوں تک دین کی روشنی نہیں پہنچ پاتی انہیں اس سے روشناس کرو۔ زبان تقریر اور بیان سے دین کا پیغام گھر گھر پہنچائو۔ مگر آج کے فرصت ہے کہ وہ غیر مسلموں تک اسلام کی روشنی پھیلانے ‘ تبلیغی جماعت والے جو تھوڑے بہت کوشش کر رہے ہیں اس کا دائرہ کا ر بھی زیادہ تر مسلمانوں تک ہی محدود ہے۔ غیر مسلموں کیطرف رخ کر نیکی کسی کو ہمت ہی نہیں پڑتی۔ جب ان سے اسلام کی بات کی جاتی ہے تو وہ جواباً کہتے ہیں کہ دین کی خوبیاں گنوانے سے پہلے انہیں اپنے آپ پر نافذ کرکے تو دکھائو۔ پہلے اپنے آپ کو درست کرو پھر ہماری طرف رخ کرنا۔ مسلمان کا کردار ہمارے ایک دوست ٹریننگ کے لیے سویڈن گئے۔ واپسی پر میں نے پوچھا کہ وہاں کسی کو دین کی دعوت بھی دی ہے کہنے لگے ہاں۔ میں نے بعض لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تھی مگر انہوں نے عجیب و غریب جواب دیا۔ کہنے لگے اسلام میں داخل کرکے کیا تم ہمیں بھی اپنی طرح چور اور غلام بنانا چاہتے ہو۔ انہوں نے اپنا تجربہ بیان کیا کہ وہ جس اسلامی ملک میں گئے ہیں وہاں کے لوگوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا پایا ہے کوئی۔ دس کا غلام ہے اور کوئی امریکہ کا ۔ مسلمانوں کے ملکوں میں چوری عام ہے ‘ دھوکہ اور فریب ہے کیا تم ہمیں بھی ویسا ہی بنانا چاہتے ہو۔ ہمارے دوست کہنے لگے کہ میں ان کے اس جواب سے سخت شرمسار ہوا۔ حقیقت یہی ہے کہ مسلمانوں جیسے چوروں اور غلاموں کا دین کون اختیار کریگا ‘ دنیا بھر کے اغوا ‘ ڈاکے زنا اور فتنہ و فساد مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں۔ فرقہ واریت کی کوئی شکل و صورت شیطان نے ایجاد نہیں کی جو مسلمانوں میں نہ پائی جاتی ہو۔ مسلمانوں کا کردار دیکھ کر اسلام کی طرف لوگ کیسے رغبت کریں گے۔ جاپان کے پروفیسر ہشام کا اسلام آباد میں انٹرویو لیا گیا تھا۔ اس سے پوچھا گیا کہ تم مسلمان کیسے ہوئے۔ کہنے لگا میں مسلمانوں کو دیکھ کر مسلمان نہیں ہوا۔ بلکہ خوش قسمتی سے قرآن پاک کا جاپانی زبان میں ترجمہ مجھے میسر آگیا۔ یہ کتاب پڑھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ یہ واقعی اللہ کی سچی کتاب ہے۔ لہٰذا میں نے اسلام قبول کرلیا۔ پہلے زمانے میں لوگ مسلمانوں کا کردار اور عمل دیکھ کر اسلام لاتے تھے مگر اب وہ عملی اور اخلاقی کشش مسلمانوں میں باقی نہیں رہی۔ جہاد کے لیے جماعت کی تنظیم ضروری ہے۔ اسلامی معاشرہ میں صائب الرائے لوگوں کی ایسی جماعت ہونی چاہیے ‘ جو داخلی اور خارجی معاملات کے لیے مناسب منصوبہ بندی کرسکے۔ اندرون ملک امن وامان کا قیام اور لوگوں کے مال و جان کی حفاظت داخلی مسئلہ ہے اور کفار کے ساتھ جہاد خارجی معاملہ ہے۔ ان دونوں امور کی انجام دہی کے لیے ایک اچھی سوسائٹی کی ضرورت ہے۔ جو اچھے افراد سے معرض وجود میں آسکتی ہے۔ کفر کا انجام آگے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں کفار کی بسے بسی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ان الذین کفروا بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ لو ان لھم ما فی الارض جمیعا و مثلہ معہ ‘ جو کچھ زمین میں ہے اگر سب کا سب ان کا ہوجائے اور اس جیسا مزید بھی۔ یعنی اگر پوری زمین سونے چاندی اور مال و دولت سے بھر ی ان کی ملکیت ہو اور اس سے ڈبل کے مالک بھی وہ ہوجائیں اور پھر وہ اس پورے مال کو لیفتدوا بہ من عذاب یوم القیمۃ قیامت کے دن کے عذاب کے بدلے میں فدیہ دینا چاہیں ما تقبل منھم تو ان سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائیگا۔ اول تو قیامت کے دن اس بات کا امکان ہی نہیں کہ کوئی شخص زمین بھر مال و دولت کا مالک ہو ‘ تاہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرض کرو ایسا ہوجائے اور وہ شخص یہ سب کچھ بلکہ اس سے دگنا بھی فدیہ ادا کرکے عذاب سے بچنا چاہیے تو بچ نہیں سکے گا ایسے لوگ اپنے انجام کو لازماً پہنچیں گے ولھم عذاب الیم “ اور انہیں دائمی عذاب کا مزہ چکھنا ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ آخرت کی فلاح اس مال و دولت پر نہیں بلکہ اس کا انحصار تقویٰ ‘ جہاد ‘ تقرب الی اللہ ‘ ایفائے عہد ‘ احترام شریعت جیسے اعمال صالحہ پر ہے۔ فرمایا کفار لوگ آگ کے عذاب میں مبتلا ہونے کے بعد یریدون انیخرجوا من النار اس دوزخ سے نکلنا چاہیں گے وما ھم بخارجین منھا مگر وہ اس سے نکل نہیں سکیں گے ۔ جہنم کے شعلے ان لوگوں کو جہنم کے کنارے تک لائیں گے اور وہ کوشش کریں گے کہ چھلانگ لگا کر باہر کود جائیں مگر انہیں دوبارہ جہنم کی گہرائیوں میں پھینک دیا جائے گا۔ سورة الم سجدہ میں بھی ایسے لوگوں کے متعلق آتا ہے کلمآ ارادوا ان یخرجوا منھآ اعیدوا فیھا “ جب بھی وہ باہر نکلنے کی کوشش کریں گے انہیں دوبارہ اس میں جھونک دیا جائے گا۔ جہنم سے آزادی کا واحد ذریعہ ایمان اور تقوی ہے۔ جو لوگ ان اوصاف سے خالی ہوں گے ان کے لیے وہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ ولھم عذاب مقیم اور ان کے لیے عذاب ہوگا دائمی۔
Top