Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے رستے میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ
یایہا الذین امنوا اتقوا اللہ وابتغوا الیہ الوسیلۃ اے اہل ایمان ! اللہ سے ڈرو اور اس کے تقرب کے جویاں رہو۔ الوسیلہ سے مراد تقرب الٰہی ہے۔ حاکم نے حضرت حذیفہ ؓ : کا یہی قول بیان کیا ہے۔ فریانی ‘ عبد بن حمید۔ ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی ہے میں کہتا ہوں تقرب سے مراد ہے۔ تقرب ذاتی جوہر (جسمانی مادی) کیفیت سے بالاتر ہے۔ قاموس میں ہے ‘ تقرب شاہی ‘ مرتبہ ‘ درجہ ‘ قربت ‘ وسیلہ کے یہ سب معانی ہیں۔ واسل کے معنی ہے راغب۔ صحاح میں ہے وسیلہ ‘ وصیلہ سے خاص ہے۔ وسیلہ کا معنی ہے کسی چیز تک رغبت کے ساتھ پہنچنا اور وصیلہ کا معنی ہے وابستہ ہوجانا۔ اوّل کے اندر رغبت کا مفہوم داخل ہے۔ حدیث میں آیا ہے وسیلہ اللہ کے ہاں ایک درجہ ہے جس سے اونچا کوئی درجہ نہیں۔ تم اللہ سے دعا کرو کہ اللہ وہ درجہ مجھے عنایت فرما دے۔ یہ حدیث حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ نقل کی ہے۔ مسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم مؤذن کو اذان دیتے سنو تو جو الفاظ وہ کہتا ہے ویسے ہی تم کہو پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود پڑھو جو شخص میرے لئے ایک بار دعا رحمت کرے گا اللہ اس پر دس بار رحمت نازل فرمائے گا۔ پھر میرے لئے وسیلہ ملنے کی اللہ سے دعا کرو جو میرے لئے وسیلہ عطا ہونے کی دعا کرے گا اس پر میری شفاعت حلال ہوجائے گی (یعنی اس کے لئے میری شفاعت کا دروازہ کھل جائے گا) ایک شبہ : احادیث سے ثابت ہے کہ وسیلہ ایک خاص درجہ ہے جس سے اونچا کوئی اور درجہ نہیں اور مختلف نصوص (احادیث) اور اجماع امت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ وہ درجہ رسول اللہ ﷺ کے لئے مخصوص ہے۔ پھر ہر شخص کو طلب گار وسیلہ ہونے کا حکم کس طرح دیا گیا (ناممکن الحصول چیز کو مانگنے کا حکم لاحاصل ہے) اس حکم سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرتبۂ وسیلہ پر پہنچنا دوسروں کے لئے بھی ممکن ہے۔ جواب : میں کہتا ہوں رسول اللہ ﷺ کے لئے مرتبۂ وسیلہ تو براہ راست (بغیر کسی دوسرے کے ذریعہ کے) مخصوص ہے لیکن حضور ﷺ کی وساطت سے دوسرے اولیاء امت اور کاملین کے لئے بھی وہاں تک رسائی ممکن ہے (احادیث میں حضور ﷺ : کی وساطت سے مرتبۂ وسیلہ تک کسی دوسرے کی رسائی کی نفی نہیں کی گئی صرف حضور ﷺ : کی ذاتی خصوصیت کو ظاہر کیا گیا ہے) اس مقام کی زیادہ تفصیل و توضیح کے لئے دیکھو ” مکتوبات حضرت شیخ مجدد الف ثانی “ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ وسیلہ کا اطلاق تمام مراتب قرب پر عموماً کیا گیا ہو (قرب الٰہی کا ہر درجہ وسیلہ ہو) اور رسول اللہ ﷺ نے جس وسیلہ کی اپنے لئے مخصوص طور پر طلب فرمائی ‘ وہ تمام مراتب قرب میں چوٹی کا درجہ ہو۔ واللہ اعلم۔ فائدہ : رغبت اور محبت ‘ وسیلہ کے مفہوم میں داخل ہے جوہری نے صحاح میں یہی صراحت کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مراتب کی قرب کی ترقی بغیر محبت کے ناممکن ہے اسی کی تائید حضرت مجدد قدس سرہٗ کے اس قول سے ہوتی ہے کہ (نظری) سیر مرتبۂ لا تعین (اطلاق) میں جو قرب کا سب سے بڑا درجہ ہے اس سے اونچا کوئی درجہ نہیں اور اسی مرتبہ کو بطور رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد میں ظاہر فرمایا ہے کہ میرے لئے اللہ کی معیت میں (یعنی اللہ کے قرب کے مرتبہ میں) ایک وقت ایسا بھی (آتا) ہے جس میں میرے ساتھ کسی مقرب فرشتے اور نبی مرسل کی بھی گنجائش نہیں ہوتی (یعنی تنہا میں ہی اس وقت اس چوٹی کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہوں) یہ سیر صرف محبت سے وابستہ ہے (یعنی اس سیر کا مدار صرف محبت پر ہے ترقی محبت ہی سے یہ مرتبۂ سیر حاصل ہوتا ہے) اور محبت اتباع سنت کا ثمرہ ہے اللہ نے فرمایا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمْ اللّٰہپس سنت کی پوری پیروی اور ظاہری و باطنی اتباع سے ہی حضور کی وساطت سے یہ مرتبۂ محبت حسب مشیت الٰہیہ حاصل ہوجاتا ہے۔ وجاہدوا فی سبیلہ اور (اللہ کے دشمنوں سے خواہ وہ نفس ہو یا شیطان یا کفار) اللہ (کی خوشنودی) کی راہ میں جہادکرو۔ لعلکم تفلحون تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ یعنی اللہ کی خالص عبدیت کمال تقویٰ اور طلب وسیلہ تم کو مل جائے اور تم اپنا مقصد حاصل کرلو۔
Top