Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hadid : 7
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ
اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاَنْفِقُوْا مِمَّا : اور خرچ کرو اس میں سے جو جَعَلَكُمْ : اس نے بنایا تم کو مُّسْتَخْلَفِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے۔ خلیفہ۔ جانشین فِيْهِ ۭ : اس میں فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تو وہ لوگ جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْفَقُوْا : اور انہوں نے خرچ کیا لَهُمْ اَجْرٌ : ان کے لیے اجر ہے كَبِيْرٌ : بڑا
(تو) خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور جس (مال) میں اس نے تم کو (اپنا) نائب بنایا ہے اس میں خرچ کرو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور (مال) خرچ کرتے رہے ان کے لئے بڑا ثواب ہے
7۔ 10۔ سورة کے شروع سے یہاں تک اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور توحید اور بندوں کے ذرا ذرا حال سے اپنے واقف ہونے کا ذکر فرما کر یہاں سے قریش کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر اور اللہ کے رسول کے سچے ہونے پر ایمان لانے اور دنیا کی الفت چھوڑنے اور خدا کی راہ میں کچھ مال خرچ کرنے کی نصیحت شروع کی ہے۔ اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ دنیا میں جس قدر مال ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اس لئے اصل مالک سب چیزوں کا اللہ تعالیٰ ہے۔ عارضی طور پر چند روز دنیا کے مال اور دنیا کی چیزوں کے لوگ مالک اور وارث بن جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ عارضی قبضہ والے لوگ سب مرجائیں گے تو اللہ کا پیدا کیا ہوا مال اللہ کے قبضہ میں چلا جائے گا اور حسن بصری وغیرہ تابعین نے لکھا ہے کہ دنیا کا مال و ملک جس طرح ہر تا پھرتا پہلے لوگوں کے قبضہ سے موجودہ لوگوں کے قبضہ میں آتا ہے۔ اسی طرح موجودہ لوگوں کے فنا ہوجانے کے بعد یہی مال و ملک پچھلے لوگوں کے قبضہ میں چلا جائے گا۔ حقیقت میں ان دونوں قولوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔ کیونکہ مال و ملک والے خاص خاص لوگوں کے مرجانے کے بعد دوسرے قول کے موافق ظہور ہوگا اور ساری دنیا کے فنا ہوجانے کے بعد اول قول کے موافق ظہور ہوگا۔ آیت انا نحن نرث الارض و من علیھا سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے اور دوسرے قول کی تائید ابوہریرہ ؓ کی صحیح 3 ؎ مسلم کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا مالدار آدمی نے جو کچھ کھایا پہنا وہ تو گیا گزرا ہوا۔ جو اللہ کے نام پر دیا وہ عقبیٰ کا ذخیرہ ہے ‘ اور جو چھوڑ مرا وہ وارثوں کے نصیب کا ہے۔ دنیا میں کوئی تجارت ایسی نہیں کہ جس میں ایک کے سات سو ہوں۔ عقبیٰ میں صدق خیرات کا اجر ایک کا سات سو تک اور کبھی اس سے بھی زیادہ ہے۔ چناچہ اس کا ذکر سورة بقر میں گزر چکا ہے۔ اس لئے عقبیٰ کے اجر کو بڑا فرمایا۔ قرآن شریف کا کلام الٰہی ہونا اور محمد ﷺ کا رسول ہونا اکثر آیتوں میں طرح طرح سے اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو سمجھا دیا۔ اس لئے صدقہ خیرات کے ذکر کے بعد پھر ایمان کا ذکر دوبارہ فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ بغیر شرک سے باز آنے اور خالص ایماندار ہوجانے کے صدقہ خیرات کا کچھ اجر عقبیٰ میں نہیں مل سکتا بنی آدم کے دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے سب بنی آدم سے توحید پر قائم رہنے کا عہد جو لیا ہے اس کا ذکر سورة اعراف میں گزر چکا ہے یہاں اس عہد کے ذکر کے ساتھ یہ فرمایا کہ تم لوگ اس عہد پر قائم ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس عہد کے یاد دلانے کے لئے اپنے رسول کو بھیجا ہے جن پر اپنا کلام نازل فرمایا ہے اور وہ اللہ کے رسول ﷺ کا کلام تم لوگوں کو ہر وقت سنا کر وہ عہد تمہیں یاد دلاتے ہیں۔ اور توحید پر قائم رہنے کا راستہ تم کو بتاتے ہیں تو پھر تم کو اب شرک سے باز آنے اور اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک مان لینے میں کیا عذر ہے۔ پھر فرمایا یہ اللہ کی تم لوگوں پر ایک مہربانی ہے کہ وہ اپنے رسول پر صاف صاف طرح طرح کی فہمایش کی آیتیں نازل فرما کر تمہیں شرک کے اندھیر سے نکالنا اور تمہارے دل کو ایمان کے نور سے روشن کرنا چاہتا ہے۔ ایمان کے دوبارہ ذکر کے ساتھ صدقہ خیرات کا ذکر تاکید کے طور پر پھر ان لفظوں میں فرمایا ‘ جن کی تفسیر اوپر گزر کی ہے فتح مکہ سے پہلے اسلام کو ہر طرح کی مدد کی زیادہ ضرورت تھی پھر فتح مکہ کے بعد غنیمت کا مال آن کر اہل اسلام غنی ہوگئے۔ اسی واسطے فتح مکہ سے پہلے عین ضرورت کے وقت جن صحابہ نے اپنا مال اسلام کی مدد میں خرچ کیا ان کو بہت بڑا اجر مل گیا۔ پھر فرمایا یوں تو فتح مکہ سے پہلے اور پیچھے جس کسی نے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کیا اس کا اجر رائیگاں نہ جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے سب کاموں کی خبر ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو کچھ خرچ کیا جائے اللہ تعالیٰ نے اس کے اجر کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے اس کو قرض سے مشابہت دی۔ قرضاً حسناً کے یہ معنی ہیں کہ اس میں دنیا کا کچھ دکھاوا نہ ہو۔ بلکہ جو کچھ خرچ کیا جائے خاص عقبیٰ کے ثواب کی نیت سے ہو جو علماء اس بات کے قائل ہیں کہ 09 ھ میں زکوٰۃ فرض ہوئی ہے اور اس بات کے قائل ہیں کہ یہ سورة مدنی ہے ان کے نزدیک اس سورة کی صدقہ خیرات کی آیتوں میں زکوٰۃ بھی شریک ہے۔ اور جو علماء اس سورة کو مکی اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے بعد کہتے ہیں ان کے نزدیک ان آیتوں میں زکوٰۃ کا حکم نہیں ہے فقط نفلی صدقہ کا حکم ہے۔ اس باب میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ رمضان کے روزے ہجرت کے بعد مدنی آیت سے فرض ہوئے ہیں اور مسند امام 1 ؎ احمد نسائی ابن ماجہ صحیح ابن حبان مستدرک حاکم میں قیس بن سعد بن عبادہ کی جو حدیث ہے اس میں ہے کہ صدقہ فطر کی تاکید زکوٰۃ کے فرض ہونے تلک تھی۔ زکوٰۃ کے فرض ہونے کے بعد حضرت ﷺ صدقہ فطر کا نہ کسی کو حکم کرتے تھے نہ کسی کو منع کرتے تھے۔ اس حدیث کے باقی کے راوی سب ثقہ ہیں فقط ایک راوی ابو عمار کوفی ہیں۔ بعض علماء نے اس میں کلام کیا ہے لیکن امام احمد اور ابن معین نے اس کو ثقہ کہا ہے اس سے زکوٰۃ کے ہجرت کے بعد فرض ہونے کا قول صحیح معلوم ہوتا ہے۔ 09 ھ میں زکوٰۃ کے وصول کا انتظام کیا گیا ہے شاید اسی سبب سے بعض علماء کو 09 ھ میں زکوٰۃ کے فرض ہونے کا شبہ پڑا ہے ورنہ ضمام بن ثعلبہ کا قصہ جو صحیح بخاری 2 ؎ وغیرہ کی روایت میں ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے ضمام کو ارکان اسلام بتائے ہیں اس میں زکوٰۃ کا ذکر ہے حالانکہ وہ قصہ 5 ھ کا ہے نماز اور روزوں کے بعد زکوٰۃ فرض ہوئی ہے۔ اس لئے زکوٰۃ کو اسلام کا تیسرا رکن کہتے ہیں۔ (3 ؎ صحیح مسلم کتاب الزھد ص 407 ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب القراءۃ والعرض علی المحدث الخ ص 15 ج 1۔ )
Top