Al-Quran-al-Kareem - Al-Hadid : 7
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ
اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاَنْفِقُوْا مِمَّا : اور خرچ کرو اس میں سے جو جَعَلَكُمْ : اس نے بنایا تم کو مُّسْتَخْلَفِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے۔ خلیفہ۔ جانشین فِيْهِ ۭ : اس میں فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تو وہ لوگ جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْفَقُوْا : اور انہوں نے خرچ کیا لَهُمْ اَجْرٌ : ان کے لیے اجر ہے كَبِيْرٌ : بڑا
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن میں اس نے تمہیں (پہلوں کا) جا نشین بنایا ہے، پھر وہ لوگ جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے خرچ کیا ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔
1۔ اٰمِنُوْا بِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ : سورت کے شروع سے یہاں تک اس حقیقت کے اعلان کے بعد کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز نے اللہ کا (ہر عیب اور کمی سے) پاک ہونا بیان کیا ہے ، اللہ تعالیٰ کی دس سے زیادہ صفات بیان ہوئی ہیں جو یہ ہیں :”العزیز، الحکیم ، لہ ملک السموات والارض ، یحییٰ و یمیت ، وھو کل علی شئی قدیر ، ھو الاول والاخرو الظاھر والباطن ، وھو بکل شئی علیم ، یولج الیل فی النھار و یولج النھار فی الیل“ ان صفات کے بیان کے بعد اس بات کی دعوت دی ہے کہ ان صفات کے مالک اللہ تعالیٰ پر اور اس کا پیغام لے کر آنے والے پر ایمان لاؤ۔ اس کے مخاطب اگرچہ کفار بھی ہیں ، مگر بعد میں پورے سلسلہ کلام سے ظاہر ہے کہ یہاں سے خطاب ان مسلمانوں کو ہے جو ایمان لا چکے تھے ، مگر ایمان کے تقاضے پورے کرنے میں کوتاہی کر رہے تھے اور جہاد فی سبیل اللہ میں جان و مال کی قربانی سے گریز کر رہے تھے۔ یہ وہی بات ہے جو سورة ٔ نساء کی آیت (136) (یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ) (اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر) میں بیان ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ایمان میں پختگی پیدا کرو اور اس کے تقاضوں پر عمل کرو ، جن میں سے ایک بہت بڑا تقاضا اس کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ 2۔ وانفقوا : یہاں خرچ کرنے سے مراد عام بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا نہیں بلکہ جہاد فی سبیل اللہ اور مجاہدین و مہاجرین کی ضروریات کے لیے خرچ کرنا ہے۔ دلیل اس کے آگے والی آیت (10) ہے :(وَمَا لَکُمْ اَلاَّ تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ)”اور تمہیں کیا ہے تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے“۔ اور ”فی سبیل اللہ“ کا خاص اطلاق جہاد پر ہوتا ہے۔ دیکھئے سورة ٔ توبہ کی آیت (60) کی تفسیر۔ 3۔ٗمِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ط : اس میں کئی طرح سے خرچ کرنے کی ترغیب ہے ، ایک یہ کہ یہ مال تمہارا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے جو اس نے تم سے پہلے لوگوں کو دیا تھا ، اب اس نے تمہیں اس میں پہلوں کا جانشین بنادیا ہے اور دیکھنا چاہتا ہے کہ تم اس کی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہو یا نہیں۔ (دیکھئے انعام : 165) غلام کا یہ کام نہیں کہ مالک کے مال کو وہاں خرچ نہ کرے جہاں وہ اسے خرچ کرنے کے لیے کہتا ہے ، بلکہ اپنی مرضی سے خرچ کرتا پھرے یا جمع کرنے لگ جائے۔ دوسرا یہ کہ پہلے لوگوں کی طرح یہ تمہارے پاس بھی نہیں رہے گا۔ اگر تم نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرلیا تو یہ آخرت کے لیے تمہارا ذخیرہ بن جائے گا اور اگر تم نے خرچ نہ کیا تو کچھ اور لوگ اس میں تمہارے جانشین بن جائیں گے۔ پھر اگر انہوں نے اسے نیکی میں خرچ کیا تو وہ تم سے بہتر رہے کہ وہ مال جو تم نیکی میں خرچ نہ کرسکے انہوں نے کردیا ، تم محروم رہے اور اگر انہوں نے بدی میں خرچ کیا تو تمہاری دولت بھی ان کی بدی میں معاون ٹھہری۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(یقول العبد ما لی ما لی ، انما لہ ٗ من مالہ ثلاث ، ما اکل فافنی او لبس فابلی او اعطی فاقتنی ، وما سوی ذلک فھو ذاھب وتار کہ للناس) (مسلم ، کتاب الزھد والرقائق ، باب الدنیا سبحن للمؤمن وجنۃ للکافر : 2959)”بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال ، اس کے مال میں سے اس کی اپنی تو صرتین چیزیں ہیں ، جو اس نے کھایا اور فنا کردیا ، یا پہنا اور بوسیدہ کردیا ، یاد دے دیا اور ذخیرہ بنا لیا اور جو اس کے علاوہ ہے تو یہ جانے والا ہے اور اسے لوگوں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے“۔ 4۔ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا : یہ لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا ان میں سے سب سے پہلے ابوبکر ؓ ہیں جو رسول اللہ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لائے اور تبوک کے موقع پر صدقہ کے اعلان پر سارا مال لے آئے ، ان میں عمر ؓ بھی ہیں جو آدھا مال لے آئے اور عثمان ؓ تعالیٰ عنہ بھی اور وہ تمام صحابہ کرام ؓ بھی جنہوں نے خو شحالی میں بھی خرچ کیا اور تنگدرست کے باوجود محنت مشقت کر کے بھی صدقہ کیا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ توبہ (79) کی تفسیر۔ 5۔ لَہُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ :”فی سبیل اللہ“ خرچ کرنے والوں کی فضیلت کے لیے دیکھئے سورة ٔ بقرہ (274) اور سورة ٔ انفال (60)۔
Top