Mualim-ul-Irfan - Al-Hadid : 7
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ
اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاَنْفِقُوْا مِمَّا : اور خرچ کرو اس میں سے جو جَعَلَكُمْ : اس نے بنایا تم کو مُّسْتَخْلَفِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے۔ خلیفہ۔ جانشین فِيْهِ ۭ : اس میں فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تو وہ لوگ جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْفَقُوْا : اور انہوں نے خرچ کیا لَهُمْ اَجْرٌ : ان کے لیے اجر ہے كَبِيْرٌ : بڑا
ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر ، اور خرچ کرو اس میں سے جس میں اس نے تمہیں نائب بنایا ہے پہلے لوگوں کا۔ پس وہ لوگ جو ایمان لائے تم میں سے اور خرچ کیا انہوں نے ، ان کے لئے بڑا اجر ہے
ربط آیات : سورة کے آغاز میں ارض وسما کی ہر چیز کی تسبیح بیان کرنے کا ذکر ہوا۔ اللہ کی قدرت میں سے موت وحیات کی صفت بیان ہوئی ، پھر اس کے اول ، آخر ، ظاہر اور باطن ہونے کا ذکر ہوا اور اس کے قادر مطلق اور علیم کل ہونے کی صفت بیان ہوئی۔ اللہ نے فرمایا کہ اس نے ارض وسماکو چھ دن کے وقفہ میں تخلیق کیا اور وہ عرش پر مستوی ہے۔ نیز یہ کہ وہ ارض وسماء میں داخل ہونے والی اور نکلنے والی ، نازل ہونے والی اور اوپر چڑھنے والی ہر چیز کو جانتا ہے۔ اللہ نے ہر شخص کے ساتھ اپنی معیت کا تذکرہ فرمایا اور یہ بھی کہ وہ انسانوں کے دلوں کے رازوں سے بھی واقف ہے۔ اللہ نے پوری کائنات میں اپنی سلطنت کا دعویٰ کیا اور یہ بھی کہ تمام معاملات اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ توحید و رسالت پر ایمان : اب اللہ نے پہلے ایمان کی درستگی کا ذکر کیا اور پھر جہاد فی سبیل اللہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے ارشاد ہوتا ہے امنوا باللہ ورسولو لوگو ! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو۔ اللہ کی وحدانیت کو صحیح طریقے سے مانو۔ ایمان کے بغیر نہ انسان کی فکر پاک ہوسکتی ہے اور نہ ہی عقل اور فہم۔ ایمان کے بغیر انسان کے اعمال کی سمت بھی درست نہیں ہوسکتی۔ فلاح اور کامیابی کی منزل خطیرۃ القدس تک ایمان کے بغیر پہنچنا ممکن نہیں۔ اس بات کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مختلف مقامات پر کی ہے۔ مثلاً سور ۃ الانبیاء میں فرمایا ۔ فمن…………………لسعیہ (آیت 94) پس جس شخص نے نیکی کا کام کیا بشرطیکہ اس میں ایمان موجود ہے تو اس کی کوشش کی ناقدری نہیں کیا جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ اعمال کا دارومدار صحیح ایمان پر ہے۔ اگر ایمان میں شرک کی ملاوٹ ہے یا دل کے کسی گوشے میں کفر ، نفاق ، الحاد یا تردد نے ڈیرہ جما رکھا ہے تو ایسے آدمی کی کوئی نیکی اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہے۔ نجات حاصل کرنے کے لئے خاص ایمان کی ضرورت ہے وہاں یہود ونصاریٰ والا ایمان نہیں چلے گا۔ وہ تو نبی آخرالزمان کی رسالت کا انکار کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کا ایمان درست نہیں ہے۔ تمام رسولوں پر ایمان لانا جزو ایمان ہے ۔ انفاق فی سبیل اللہ کا حکم : ایمان کی درستگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وانفقوا مما جعلکم مستخلفین فیہ ، اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں پہلوں کا نائب بنایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس جو مال و دولت ہے وہ تمہارا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ نے پہلے لوگوں کی جگہ تمہیں عطا فرمایا ہے جن کے تم جانشین ہو جعل کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے یعنی اس نے یہ مال گزرے ہوئے لوگوں کو دیا تھا۔ پھر ان کے بعد اللہ نے اسے تمہاری مجازی ملکیت اور تصرف میں دے دیا۔ اس لئے کسی شخص کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس نے یہ مال ذاتی محنت و کاوش کے ذریعے اکٹھا کیا ہے۔ بلکہ یہ تو اللہ کا عطا کردہ ہے اور تم اس کے محض امین ہو۔ لہٰذا اس مال کو اللہ کے حکم کے مطابق جائز جگہ پر خرچ کرو ، اور جہاں اجازت نہیں وہاں اپنی مرضی سے مت خرچ کرو۔ اس مال کا بہترین مصرف جہاد فی سبیل اللہ یا نیکی کے دیگر کام ہیں۔ پھر اللہ نے اس کے راستے میں خرچ کرنے والے کو بشارت سنائی ہے۔ فالذین امنوا منکم پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے۔ انہوں نے اللہ کی وحدانیت کو صحیح طریقے پر مانا ، رسالت کو تسلیم کیا ، کتب سماویہ ، ملائکہ ، قیامت اور تقدیر پر ایمان لائے۔ اور اس کے ساتھ وانفقوا انہوں نے اللہ کی رضا کے لئے اس کے راستے میں خرچ بھی کیا تو فرمایا ، یقین جانو لھم اجر کبیر ان کے لئے اللہ کے ہاتھ بہت بڑا اجر ہے۔ اس مقام پر اللہ نے ایمان اور انفاق دونوں چیزوں کا ایک ساتھ ذکر فرما کر دونوں پر عملدرآمد کا حکم دیا ہے۔ ایمان باللہ سے انکار : پھر ارشاد ہوتا ہے ومالکم لا تومنون باللہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ایمان نہیں لاتے یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم نہیں کرتے والرسول یدعوکم لتئومنوا بربکم حالانکہ اللہ کا رسول تمہیں بلا رہا ہے کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آئو۔ رسول کی دعوت کے باوجود تم اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو۔ آخر تمہارے پاس ایمان نہ لانے کی کون سی دلیل ہے ؟ وقد اخذ میثاقکم حالانکہ تم نے عہد بھی کررکھا ہے مگر اس کو بھی پورا نہیں کر رہے ہو ان کنتم مومنین اگر تم ایمان لانے والے ہو تو بتلائو کہ تم عہد شکنی کرکے اللہ کی وحدانیت کا کیوں انکار کرتے ہو ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جس عہد کا ذکر کیا گیا ہے اس سے دو عہد مراد ہوسکتے ہیں۔ پہلا عہد تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں پوری بنی نوع انسان کی روحوں سے لیا تھا ۔ یہ عہدالست کہلاتا ہے اور اس کا ذکر سورة الاعراف میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے تمام روحوں کو نکال کر دریافت کیا تھا الست بربکم (آیت 172) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو سب کا جواب تھا۔ قالوا بلی پروردگار کیوں نہیں ؟ تو ہی ہمارا رب ہے۔ اللہ نے ہر انسان کی فطرت میں اس عہد کا بیج رکھ دیا ہے اگر دنیا میں آکر کوئی شخص اس عہد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی ربوبیت کو تسلیم نہیں کرتا تو وہ ماخوذ ہوگا۔ یہ ایسا عہد ہے کہ جس کی یاددہانی تمام انبیاء اور کتب سماویہ کراتے آئے ہیں۔ دوسرا عہد میثاق النبین کہلاتا ہے جس کا ذکر سورة آل عمران میں کیا گیا ہے واذا……… ……النبین (آیت 81) اور جب اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ جب میں نے تمہیں کتاب اور حکمت دی ، پھر تمہارے پاس وہ رسول آیا جو اس چیز کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے۔ تو تم ضرور اس پر ایمان لائو گے اور اس کی مدد کرو گے۔ پھر تم نے اقرار کیا کہ ایسا ہی کرو گے اس عہد کے تذکرہ سے تمام نبیوں کے امتیوں کو یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ جس چیز پر تمہارے انبیاء سے ایمان لانے کا عہد لیا گیا ، اس چیز پر ایمان لانا امتیوں پر طریق اولیٰ فرض ہے۔ لہٰذا اس عہد اور سابقہ کتب کی پیشین گوئیوں کے مطابق تمام امتوں اور خصوصاً یہودونصاریٰ پر لازم آتا ہے کہ وہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ اور آخری کتاب قرآن حکیم پر ایمان لے آئیں۔ مذکورہ دو عہدوں کے علاوہ جب کوئی شخص ایمان لاتا ہے تو اس کے ساتھ وہ یہ عہدوپیمان بھی کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی تعمیل میں ہر جانی اور مالی قربانی پیش کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ تو اب جب کہ اللہ تعالیٰ جہاد فی سبیل اللہ کے سلسلے میں مالی قربانی کا مطالبہ کررہا ہے تو پھر اگر تم واقعی ایماندار ہو تو یہ مطالبہ کیوں پورا نہیں کرتے۔ قرآن بطور روشنی : آگے ارشاد ہوتا ہے ھوالذی ینزل علی عبدہ آیت بینت ، اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو اپنے بندے پر کھلی کھلی آیتیں اتارتا ہے۔ یہاں بندے سے مراد حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ہے اور واضح آیات سے مراد قرآن کریم کی آیات ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول پر اپنی آخری کتاب کی آیتیں نازل فرماتا ہے ، جس کا مقصد یہ ہے لیخرجکم من الظلمت الی النور ، تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکا ل کر روشنی کی طرف لے آئے ۔ نزول قرآن کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو کفر کے اندھیرے سے نکال کر نور ایمان کی طرف لے آئے۔ نیز تم بدعات کے ظلمات سے نکل کر سنت کی روشنی میں آجائو۔ کفر ، شرک ، بدعات ، لہو و لعب اور معصیت سب اندھیرے ہیں۔ عقیدہ ، روح اور دماغ میں بھی تاریکی پائی جاتی ہے۔ قرآن چاہتا ہے کہ تمہیں ان تمام اندھیروں سے نکال باہر کیا جائے اور تمہارے دلوں میں ایمان اور توحید کی شمع روشن کردی جائے جس سے تم رسم و رواج کی تاریکیوں سے نکل کر سنت کی روشنی کی طرف آجائو ، اور تنزل کی تاریکی میں بھٹکنے کی بجائے ترقی کی منزل پر گامزن ہوجائو۔ غرضیکہ قرآن پاک زندگی کے ہر موڑ پر انشان کی راہنمائی کرتا ہے۔ اللہ کا نبی اس کی تشریح کرتا ہے اور تمام چیزوں کو کھول کر واضح کرتا ہے۔ قرآن کی اس مقصدیت کا ذکر قرآن کے مختلف مقامات پر آیا ہے۔ مثلاً سورة ابراہیم کے آغاز میں فرمایا کتب انزلنہ الیک لتخرج الناس من الظلمت الی النور ، ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف اس لئے نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ آج ہر طرف کفر ، شرک ، بدعات اور معاصی کے اندھیرے چھائے ہوئے ہیں ، جن کا آج پتہ نہیں چلتا۔ جب موت واقع ہوگی اور انسان کا یہ مادی خول اتر جائے گا۔ تو فوراًً پتہ چل جائے گا کہ ہم کس اندھیرے میں ٹکریں مارتے رہے۔ اس کی مثال کلوروفارم کی ہے جس آدمی کو سونگھا دیا جائے اس کو کچھ پتہ نہیں چلتا خواہ اس کے جسم کی کتنی بھی چیر پھاڑ کردی جائے ۔ پھر جب بےہوشی کا اثر جسم سے اترجاتا ہے تو انسان کو درد محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح اندھیروں اور روشنی کا امتیاز انسان کو ہر نے کے بعدہی ہوگا۔ بہرحال فرمایا وان اللہ بکم لرء وف رحیم بیشک اللہ تعالیٰ بہت شفقت کرنے والا نہایت مہربان ہے جس نے تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے کا انتیام کردیا ہے۔ مگر یہ انسانوں کے بدقسمتی ہے کہ وہکفر وجالت کے اندھیروں سے نکل کر علم اور ایمان کی روشنی میں نہیں آتے۔ مال بطور امانت : اس سورة مبارکہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا بہت زیادہ ذکر ہے۔ مدینے کے ابتدائی دور میں مالی قربانی کی سخت ضرورت تھی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ومالکم الا تنفقوا فی سبیل اللہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ یادرکھو ! وللہ میراث السموت والارض ، آسمانوں اور زمین کی ساری وراثت تو اللہ کے پاس ہے۔ انسان مرجاتے ہیں تو سب کچھ پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہوتا ہے اور وہی اس کا وارث ہوتا ہے۔ جب مالک حقیقی بھی وہی ہے اور تمہارے بعد وارث بھی وہی ہے۔ تو پھر اس کا مال اس کے حکم کے مطابق خرچ کیوں نہیں کرتے ؟ ایسا کرنا تم کو بوجھل کیوں معلوم ہوتا ہے ؟ تمہیں چاہیے کہ اللہ کے عطا کردہ مال کو اس کے حکم کے مطابق خوشی سے خرچ کرو تاکہ اس کی خوشنودی حاصل ہو اور دین کے مقاصد بھی پورے ہوں۔ مستخلفین فیہ کے لفظ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تمہارے پاس یہ مال دراصل اللہ کی امانت ہے۔ اللہ نے عارضی طور پر اس میں تصرف کی اجازت دی ہے کیونکہ حقیقی ملکیت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ انسان اس کو حقیقی اور ذاتی ملکیت سمجھ کر اس پر سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کو خدا تعالیٰ کا فضل ، مہربانی یا عطا نہیں سمجھتے لہٰذا اس مالک حقیقی کا شکر بھی ادا نہیں کرتے۔ جس طرح انسان کے جسم میں اللہ کا حق ہے اسی طرح مال میں بھی اس کا حق ہے۔ جس طرح انسان کے لئے جسمانی عبادت ، نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح مالی عبادت زکوٰۃ ، صدقات وغیرہ کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ حضرت لبید ؓ زمانہ جاہلیت میں بڑے اونچے درجے کے شاعر تھے آپ نے لمبی عمر پائی اور نوے سال زمانہ جاہلیت میں اور پچپن برس اسلام کے دور میں گزارے۔ وہ کہتے ہیں : ؎ وما المرء الا کا لشھاب وضوء ہ یحور رمادا بعد اذ ھو ساطع انسان تو ایک شہاب کی طرح ہے۔ اس کی روشنی تھوڑی دیر کے لئے خواب چمکتی ہے مگر بعد میں وہ جل کر خاک ہوجاتا ہے۔ ما المال والا ھلون الا ودائع ولا بدیوما ان تردا الودائع یہ مال اور اہل تو امانتیں ہیں جو کہ ایک نہ ایک دن واپس لوٹانی پڑیں گی۔ جان بھی انسان کے پاس اللہ کی طرف سے امانت ہے اور مال بھی۔ انسان ان دونوں امانتوں میں اللہ کے حکم کے بغیر تصرف نہیں کرسکتا۔ اور جب صاحب امانت اپنی امانت طلب کرے گا تو اسے لڑنا پڑیگا۔ جب ہر چیز کا مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر اس کے عطا کردہ مال کو خرچ کرنے میں بخل نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ اس کے حکم کو بخوشی تعمیل ہونی چاہیے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ انسان کی زبان مالی مالی یعنی میرا مال میرا مال کہنے سے نہیں تھکتی ، کبھی کہتا ہے میری زمین ہے ، کبھی میرا مکان ، میرا کارخانہ اور میرا خزانہ فرمایا اے انسان ! تیر مال وہ ہے جو تونیکھا لیا ، یا پہن کر بوسیدہ کردیا یا پھر ہاتھ سے صدقہ کردیا۔ جو کچھ باقی بچ گیا وہ تیر ا مال نہیں۔ دوسری روایت میں آتا ہے کہ بچ رہنے والا مال تیرے وارثوں کا ہے ، لہٰذا تو کس چیز پر فخرکررہا ہے ؟ تیری ملکیت عارضی ہے جبھی تو اس دنیا سے رخصت ہوگا تیرے وراثان اپنا اپنا حصہ لے جائیں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کے گھر والوں نے بکری ذبح کی۔ اس کا سارا گوشت محتاجوں میں تقسیم کردیا اور صرف ایک پایہ اپنے لئے رکھ لیا۔ حضور تشریف لائے تو گھر والوں نے عرض کیا ، حضور ! بکری ذبح کی تھی جس میں صرف ایک پایہ بچا ہے باقی ساری تقسیم کردی ہے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ سارا گوشت باقی رہ گیا ہے۔ اور صرف ایک پایہ جو استعمال نہیں ہوا ہے۔ اس کا اجر تمہیں نہیں ملے گا۔ تم سمجھتے ہو کہ صرف پایہ باقی ہے ، نہیں بلکہ اس کے سوا سارا گوشت باقی ہے جس کا اجر اللہ کے ہاں ملے گا۔ انفاق میں سبقت کی فضیلت : آگے اللہ نے انفاق فی سبیل اللہ کرنے والوں کی بھی درجہ بندی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل تم میں سے وہ شخص برابر نہیں ہے جس نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جنگ لڑی اولئک اعظم درجۃ یہ تو بلند مرتبت لوگ ہیں من الذین انفقوا من بعد ان لوگوں سے جنہوں نے فتح کے بعد خرچ کیا وقاتلو اور لڑائی بھی لڑی مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے کا دور بڑا سخت تھا۔ جب کہ مسلمانوں کے پائوں اچھی طرح نہیں جمنے پائے تھے۔ اس دور میں جن لوگوں نے جانی اور مالی قربانی پیش کی ان کے درجات فتح مکہ کے بعد میں خرچ کرنے اور لڑائی لڑنے والوں سے بدرجہا بلند ہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ بعد والے لوگ خواہ کتنا بھی خرچ کریں وہ اس وقت کے خرچ کو نہیں پہنچ سکتے جب مسلمان سخت مشکل میں تھے اور خرچ کی شدید ضرورت تھی۔ چناچہ صحیحین میں حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جو اخلاص فتح سے پہلے والے ایمان والوں میں تھا۔ بعد والے اس کے کروڑویں حصے کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی قدرومنزلت اسی لئے زیادہ ہے کہ وہ سب سے پہلے ایمان لائے اور انہوں نے سب سے پہلے مال خرچ کیا۔ اللہ کے نزدیک قدرومنزلت اسلام ، دین اور ان کے ساتھ خلوص کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا جس نے مالی اور جانی قربانی سے اسلام کو تقویت پہنچائی وہ بڑے درجے والا ہے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان مبارک ہے کہ بعض اوقات ایک درہم کا درجہ لاکھ درہم سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ فتح مکہ سے پہلے اور بعد میں ایمان لانے والوں میں بڑا فرق ہے۔ امیر معاویہ ؓ اور ابوسفیان ؓ بعد میں ایمان لائے اور انہوں نے جنگیں بھی لڑیں مگر وہ پہلے لوگوں کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے وکلا وعداللہ الحسنی کہ اللہ نے سبھی کے ساتھ خوبی کا وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ پہلے اور بعد والے سب کو اجر عطا فرمائے گا ۔ مگر ان کے درجات برابر نہیں ہوسکتے کیونکہ ورفع………………درجت (الانعام 164) اللہ نے بعض کے درجات کو بعض کے مقابلے میں بلند فرمایا ہے ، تاہم نیکی سے کوئی گروہ بھی خالی نہیں۔ فرمایا واللہ بما تعملون خبیر تم جو بھی کا کرتے ہو اللہ تعالیٰ ان سے خبردار ہے۔ وہ ہر ا کی کو اس کے عمل کے مطابق ہی بدلہ دے گا۔
Top