Urwatul-Wusqaa - Al-Hadid : 7
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ
اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاَنْفِقُوْا مِمَّا : اور خرچ کرو اس میں سے جو جَعَلَكُمْ : اس نے بنایا تم کو مُّسْتَخْلَفِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے۔ خلیفہ۔ جانشین فِيْهِ ۭ : اس میں فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تو وہ لوگ جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْفَقُوْا : اور انہوں نے خرچ کیا لَهُمْ اَجْرٌ : ان کے لیے اجر ہے كَبِيْرٌ : بڑا
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور جس مال میں تم کو (اللہ نے) اپنا نائب بنایا ہے اس میں سے خرچ کرو پس جو تم میں سے ایمان لاتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ہدایت 7 ؎ ( امنوا باللہ ورسولہ) کا خطاب کن لوگوں کو ہے ؟ ظاہر ہے کہ انہیں لوگوں کو جو ایمان لانے کے دعویدار ہیں اور اسلام قبول کرنے کا وہ دعویٰ کرچکے ہیں یعنی ایمان لانے والوں میں وہ شامل ہوچکے ہیں ۔ جو ایمان لا چکے ہیں ان کو کہنا کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو چہ معنی دارد ؟ معنی اس کے یہ بھی ہیں کہ صرف ایمان کا دعویٰ کردینے اور کلام اسلام منہ سے ادا کردینے کا نام ایمان نہیں بلکہ ایمان نام ہے دعویٰ ایمان کے بعد وہ اعمال کرنے کا جن اعمال کا کرنے کا اسلام اور ایمان تقاضا کرتا ہے اور ان اعمال کو چھوڑ دینے کا نام ایمان ہے جن اعمال کو چھوڑنے کا اسلام اور ایمان تقاضا کرتا ہے ۔ اگر ان اعمال کو اسلام کے حکم کے مطابق نہ بنایا جائے یا ان میں کوتاہی کی جائے یا کوتاہی ہوجائے تو ان کو مخاطب کرتے وقت ایمان والو ! کہہ کر ہی حکم دیا جائے گا کہ اے ایمان والو ! جنہوں نے ایمان کا دعویٰ کیا ہے لیکن اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا تم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اسلام و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو اور اس کو اس طرح بھی ادا کیا جاسکتا ہے کہ ( یا ایھا الذین امنوا امنوا باللہ ورسولہ) النساء : 3 ، 136) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لائو “۔ یعنی سچے دل کے ساتھ ایمان لائو ۔ صرف دعویٰ ایمان تک ہی نہ رہو اپنے اعمال و افعال اور اقوال کو بھی اسلام کی ہدایت کے مطابق درست کرو۔ ایمان والوں کو مخاطب کر کے جو احکام دیئے گئے ہیں ان کو ہم نے غزوۃ الوثقیٰ جلد سوم سورة المائدہ کے شروع میں اکٹھا کردیا ہے جن کی تعداد غالباً 84 ہوتی ہے اگر ان آیات کریمات کو ان مقامات سے نکال کر جہاں جہاں وہ قرآن میں آئی ہیں دیکھا جائے تو ان شاء اللہ بہت نفع ہوگا اور اگر کوئی صاحب ” ایمان والوں کو خطاب “ کے نام سے شائع کرنے والے کو ان شاء اللہ بہت ہی فائدہ ہوگا ، دینی بھی اور دنیاوی بھی ۔ بہرحال زیر نظر آیت میں ایمان والوں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور ظاہر ہے کہ یہ سوچ کرنا زندگی ہی میں ہوگا ۔ ایک کے مرنے کے بعد دوسروں کو حکم نہیں دیا گیا کہ اے وہ لوگو جو زندہ ہو ! اپنے مرنے والوں کے لیے خرچ کرو۔ آپ اس طرح کا کوئی حکم یا کسی طرح کا کوئی اشارہ بھی کتاب و سنت سے پیش نہیں کرسکتے اور یہ بات ہم چیلنج کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہ زندہ کو اپنی زندگی ہی میں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور کسی بھی زندہ کو اس کے مرنے والے کے لیے مال خرچ کرنے کی ہدایت کتاب و سنت میں نہیں دی گئی ۔ لیکن افسوس کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنی زندگی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے مشکل ہی سے تیار ہوتا ہے اور اپنے مرنے والوں کے لیے ہر شخص کچھ نہ کچھ ضرور کوشش کرتا ہے خواہ وہ روٹی ، کپڑے ، جوتے اور نقدی ہی کی شکل میں ہو ۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس لیے کہ ہم نے نسلا ً بعد نسل ایسا کرتے لوگوں کو دیکھا ہے اور دین کے ٹھیکہ داروں نے قوم کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مرنے والوں سے ہمدردی کا اظہار بھی ہوگا ، دنیا میں شہرت بھی ہوگی اور مرنے والوں کو جنت بھی ملے گی حالانکہ اس سے صرف اور صرف تین باتوں میں سے درمیانی بات کہ مرنے والوں کے لواحقین کو شہرت ملے گی “ کے سوا اس خرچ کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ۔ زیر نظر آیت پر بھی ایک بار پھر غور کرو فرمایا جا رہا ہے کہ ایمان لائو اللہ اور اسکے رسول پر اور خرچ کرو ( مما جعلکم مستخلفین فیہ) ان مالوں یا ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ مال جو تمہاری اس عارضی ملکیت میں دیئے گئے ہیں ان مالوں سے اپنی زندگی میں اپنی زندگی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرو کیونکہ یہ مال دراصل اللہ تعالیٰ کا مال ہے جو اس نے تم کو اپنے خلیفہ کی حیثیت سے عطا کیا ہے تاکہ تم اس کو اپنے تصرف میں رکھ کر اصل مالک یعنی اللہ تعالیٰ کی مرضی اور رضا کے مطابق خرچ کرو اور اس کی وضاحت ہم کئی ایک مقامات پر چکے ہیں ، چناچہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نبی اعظم و آخر ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کس صدقہ کا اجر سب سے زیادہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے جوابا ً ارشاد فرمایا کہ ( ان تصدق وانت صحیح شحیح تخشی الفرو تامل الغنی ولا تمھل حتی اذا بلغت الحلقوم قلت لفلان کفار لفکان کفاو قد کان لغلان) ” تو اس وقت صدقہ کرے کہ تو صحیح اور تندرست ہو اور مال کی کمی کے باعث اس کو سنبھال کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اس مال کو کسی کام میں لگا کر زیادہ کما لینے کی تیری امید بھی برقرار ہو اور اس کے باوجود تو سب کام چھوڑ کر اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اس وقت کا انتظار نہ کرے کہ موت کا وقت قریب آجائے اور اس وقت تو کہے کہ یہ فلاں کو دیا جائے اور یہ فلاں کو کیونکہ اس وقت تو مال فلاں فلاں کو مل ہی جاتا ہے “۔ (بخاری و مسلم) غور کرو کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد کیا ہے اور آج کا مذہبی ٹھیکہ دار تم کو کیا کہتا ہے اور کس طرح تم سے تمہارا مال وصول کرتا ہے ؟ ایک بار پھر سمجھنے کی کوشش کرو کہ آج کا یہ مذہبی ٹھیکہ دار اور ثواب پہنچانے کا گر جاننے والا گرو تم کو تمہاری زندگی میں خرچ کرنے کی تلقین کیوں نہیں کرتا ؟ اس لیے کہ اگر تم صحت و تندرستی کی حالت میں خرچ کرو گے تو تم خرچ کرنے کی جگہ کو بھی دیکھو گے کہ یہ مال کس طرح خرچ کیا جائے اور کیسے خرچ کیا جائے اور پھر اگر تم کو اللہ نے توفیق دے دی تو تم خود ہی جگہ کو منتخب کر کے خرچ کرو گے لیکن اگر تم ایسا کرو گے تو اس مذہبی ٹھیکہ دار اور ثواب پہنچانے والے گروہ کو کیا ملا ؟ کچھ ابھی نہیں۔ پھر اس کا سرا پھرا ہے کہ وہ تم کو مال خرچ کرنے کی خو اہ مخواہ تلقین کرے۔ ہاں ! تم مرو گے تو تمہارے عزیز و اقارب تمہاری نیت سے مال خرچ کریں تاکہ ان کو دنیا میں شہرت ملے اور تم کو اس کا اجر وثواب تو وہ مال تمہارے عزیز و اقارب اس مذہبی ٹھیکہ دار اور ثواب پہنچانے کا گر جاننے والے کو دیں گے ، وہ ان سے بل وصول کرے گا جو اس کے اور اس کے بال بچوں کے کام آئے گا اور ثواب وہ تم کو بھیج دے گا اور بھیجے گا بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی روح کے ہاتھ ۔ پھر وہ کیوں نہ تمہارے عزیز و اقارب ہی کے ذریعہ سے مال خرچ کروائے اور کیوں نہ اس طرح مال خرچ کرنے کی تلقین کے اور خواہ مخواہ اور اپنی دکانداری کو بھی خراب کرے یہ تو ملاں ازم کی بات تھی ۔ رہا قرآن کریم تو اس کو ایک بار پھر پڑھو ، وہ کہتا ہے کہ ( فالذین امنوا منکم وانفقوا لھم اجر کبیر ) ” جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور اپنے بالوں کو خود خرچ کیں گے ان کے لیے بڑا اخر ہے “ یعنی جن لوگوں نے اس قرآن کریم کے حکم کے مطابق ایمان کو قبول کیا اور سچے دل سے ایمان لائے اور خود اپنے مالوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ان کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے اور وہ اجر بھی معمولی قسم کا اجر نہیں بلکہ بہت بڑا اجر ہے کیونکہ یہ مال تم نے مال دینے والے اللہ رب کریم کی رضا کے مطابق خرچ کیا ہے اب جب تم اپنی عمر کو پورا کر کے اس فانی دنیا سے چلے جائو گے تو یہ تمہارا خرچ کیا ہوا مال جس کی رضا کے مطابق تم نے خرچ کیا ہے وہ تو زندہ ہے اور زندہ رہے گا پھر اس کے حکم کے مطابق تمہارا اجر بڑھتا ہی رہے گا اور اس طرح تمہارے وصول کرنے کے وقت وہ بہت زیادہ ہوچکا ہوگا کہ تم اس کو دیکھ کر حیران رہ جائو گی کہ میں نے اتنا مال کب خرچ کیا تھا ؟ مزید وضاحت درکار ہو تو غزوۃ الوثقیٰ جلد ہفتم میں سورة لقمان کی آیت 33 کی تفسیر دیکھ لیں اور دونوں مقامات کو ملا کر پڑھنے اور حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ سے سمجھ کر توفیق بھی طلب کریں پھر اگر بات سمجھ میں آجائے اور دل جم جائے تو اپنی صحت و تندرستی کی حالت اور ضروریات زندگی کو روک کر یا کم کر کے مال بچا کر اللہ کی رضا کے مطابق خرچ کریں ۔ ان شاء اللہ دین و دنیا میں نفع حاصل ہوگا ، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہے۔
Top