Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور یہ دنیا والی زندگی نہیں ہے مگر لہو و لعب، اور بلاشبہ آخرت والا گھر ہی زندگی ہے، کاش لوگ جانتے ہوتے۔
دنیا والی زندگی لہو و لعب ہے، حقیقی زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے اس آیت کریمہ میں دنیا کی فنا اور آخرت کی بقا کو اجمالی طور پر بیان فرمایا ہے اور مشرکین و کافرین کی ناسمجھی اور نادانی اور بےعقلی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی جتنی بھی دراز ہوجائے اور اس میں جتنی بھی نعمتیں مل جائیں سب ہیچ ہیں۔ کیونکہ انسان کی اصل ضرورت آخرت کی ضرورت ہے جہاں دوام ہے اور ابدی زندگی ہے، وہاں کی دائمی زندگی اور ابدی نعمتوں کے سامنے یہ فنا ہونے والی دنیا جو وہاں کچھ بھی کام نہ کرے گی بالکل لہو و لعب ہے، جیسے بچے آپس میں کھیلتے ہیں، ہوٹل بھی کھولتے ہیں، دکاندار بن کر بھی بیٹھتے ہیں، کھانے پینے کی چیزیں بھی بیچتے ہیں، پھر جب بھوک لگتی ہے تو اپنی ماں کے پاس آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امی جان کھانا دے دیجیے، اگر والدہ ان سے پوچھے کہ تم تو ابھی ہوٹل کھولے ہوئے تھے، روٹی سالن فروخت کر رہے تھے اسی میں سے کھالیتے، اب مجھ سے کیوں مانگ رہے ہو ؟ تو بچے جواب دیں گے کہ وہ تو ایک کھیل تھا حقیقت نہیں تھی۔ اسی طرح اہل دنیا کا حال ہے کہ دنیا میں لگتے ہیں اسی کے لیے جیتے ہیں اسی کے لیے مرتے ہیں، مال بھی جمع کرتے ہیں، جائیدادیں بھی بناتے ہیں پھر موت کے وقت سب کچھ یہیں چھوڑ جاتے ہیں، اس مال و جائیداد سے جو یہاں کی تھوڑی بہت حاجت پوری ہوجاتی ہے آخرت کی حاجتوں کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں، وہاں پہنچیں گے تو یہاں کی جائیداد اور مال و اولاد کچھ بھی کام نہ آئیں گے وہاں تو ایمان اور اعمال صالحہ کی قیمت لگے گی اور یہاں وہاں کی اصل ضرورت پورا کرنے کا ذریعہ بنیں گے، وہاں کی ضرورت دوزخ سے بچنا ہے (یہ دفع مضرت ہے) اور جنت میں داخل ہونا ہے (جو جلب منفعت ہے) وہاں کی ان دونوں ضرورتوں کے لیے جب دنیاوی چیزیں کام نہ آئیں تو ساری دنیا کھیل ہی ہوئی جس سے واقعی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، اگر دوزخ کے دائمی عذاب سے بچنے کا انتظام کرکے دنیا نہ سدھارے اور خدانخواستہ وہاں عذاب میں گرفتار ہوئے تو اس وقت سمجھ میں آئے گا کہ دنیا واقعی لہو ولعب تھی، وہاں حسرت اور افسوس کے سوا کچھ نہ ہوگا جو کچھ کرنا ہے یہیں سے لے کر جانا ہے۔ دنیا کو لہو و لعب بتانے کے بعد یوں فرمایا (وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ ) (اور بلاشبہ دار آخر ہی زندگی ہے) مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو جنت کا داخلہ ملے گا، وہ ہمیشہ نعمتوں میں رہیں گے، نہ کبھی موت آئے گی نہ نعمتیں چھینی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان سے راضی رہے گا۔ درحقیقت وہی زندگی کہنے کے قابل ہے۔ کافر کی نہ دنیاوی زندگی کہنے کے قابل ہے کیونکہ فانی ہے اور مکروہات، مشکلات، مکدرات، مصائب و آلام، امراض و اسقام سے بھری ہوئی ہے، اور نہ اس کی آخرت کی زندگی زندگی ہے کیونکہ وہاں تو عذاب ہی عذاب ہے۔ سورة الاعلیٰ میں فرمایا ہے (ثُمَّ لاَ یَمُوْتُ فِیْہَا وَلاَ یَحْیٰی) (پھر وہ اس میں نہ مرے گا نہ جئے گا) دوزخ کی بھی کوئی زندگی ہے ؟ آخر میں فرمایا (لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ) اگر یہ حیات دنیویہ اور دار آخرت کو جان لیتے اور دونوں میں جو فرق ہے اسے سمجھ لیتے تو دنیا کو زندگی کا مقصد نہ بناتے۔
Top