Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور (ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے کاش یہ لوگ سمجھتے
آیت نمبر : 64-68 اللہ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت کے احوال کی خبر دیتا ہے اور اس ضمن میں دنیا سے بےرغبتی رکھنے کی ترغیب اور آخرت کا شوق پیدا کرتا ہے ‘ اس لیے فرمایا : (وما ھذہ الحیوۃ الدنیآ) ” اور نہیں ہے یہ دنیا کی زندگی “ یعنی اس دنیاوی زندگی کی حقیقت (الا لھو و لعب) ” مگر کھیل کود۔ “ جس کی بنا پر دل غافل اور بدن کھیل میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو زیب وزینت اور ان لذات و شہوات سے لبریز کردیا ہے جو دلوں کو کھینچ لیتی ہیں ‘ آنکھوں کو خوبصورت نظر آتی ہیں اور نفوس باطلہ کو فرحت عطا کرتی ہیں۔ پھر دنیا کی یہ زینت و زیبائش جلد ہی زائل ہو کر ختم ہوجائے گی اور اس دنیا سے محبت کرنے والے کو ندامت اور خسارے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ رہا آخرت کا گھر تو وہی (الحیوان) حقیقی زندگی ہے ‘ یعنی آخرت کی زندگی درحقیقت کامل زندگی ہے جس کے لوازم میں سے ہے کہ آخرت کے لوگوں کے بدن نہایت طاقتور اور ان کے قویٰ نہایت سخت ہوں ‘ کیونکہ وہ ایسے ابدان اور قویٰ ہوں گے جو آخرت کی زندگی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس زندگی میں ہر وہ چیز موجود ہوگی جو اس زندگی کی تکمیل کے لیے ضروری ہے اور جس سے لذت پوری ہوتی ہے مثلاً دلوں کو تازگی اور فرحت بخشنے والی چیزیں اور جسموں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ماکولات ‘ مشروبات اور پاک بدن بیویاں وغیرہ ہوں گی جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے خیال میں کبھی ان کا گزر ہوا ہے۔ (لو کانو یعلمون) ” اگر وہ جانتے ہوتے “ تو وہ کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دیتے اور اگر انہیں عقل ہوتی تو آخرت کی کامل زندگی کو چھوڑ کر لہو و لعب کی زندگی کی طرف مائل نہ ہوتے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جنہیں علم ہے انہیں آخرت کو دنیا پر ترجیح دینی چاہیے کیونکہ انہیں دونوں جہانوں کی حالت معلوم ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے خلاف الزامی دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ جب وہ سمندر میں کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو موجوں کے تلاطم اور انتہائی شدت کے وقت ہلاکت کے خوف سے اپنے خود ساختہ معبودوں کو پکارنا چھوڑ دیتے ہیں اور خالص اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگتے ہیں جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ جب یہ شدت اور مصیبت ختم ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ‘ جس کو انہوں نے اخلاص کے ساتھ پکارا تھا ‘ ان کو بچا کر ساحل پر لے آتا ہے تو وہ ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیتے ہیں جنہوں نے ان کو طوفانوں کی مصیبت سے نجات دی نہ ان سے مشقت کو دور کیا۔ وہ سختی اور نرمی ‘ تنگی اور آسانی دونوں حالتوں میں خالص اللہ تعالیٰ کو کیوں نہیں پکارتے تاکہ وہ حقیقی مومنین کے زمرے میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے ثواب کے مستحق بن سکیں اور اس کے عذاب سے بچ سکیں ؟ مگر سمندر سے نجات کی نعمت کے بعد ان کا شرک کرنا ہماری عنایات کے مقابلے میں کفر اور ہماری نعمت کے مقابلے میں برائی کا ارتکاب ہے تو وہ اس دنیا سے خوب فائدہ اٹھالیں جیسے چوپائے فائدہ اٹھاتے ہیں جن کا مطمح نظر بطن و فرج کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ (فسوف یعلمون) ” عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا۔ “ جب وہ اس دنیا سے آخرت کی طرف منتقل ہوں گے اس وقت انہیں معلوم ہوگا کہ شدت غم اور دردناک عذاب کیا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے امن والے حرم کا احسان جتلایا ہے کہ اہل حرم امن اور کشادہ رزق سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ ان کے اردگرد لوگوں کو اچک لیا جاتا ہے اور وہ خوف زدہ رہتے ہیں ‘ تو یہ اس ہستی کی عبادت کیوں نہیں کرتے جس نے بھوک اور قحط میں کھانا کھلایا اور خوف اور بدامنی میں امن مہیا کیا ؟ (افبالباطل یؤمنون) ” کیا یہ لوگ باطل پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ “ اس سے مراد ان کا شرک اور دیگر باطل اقوال و افعال ہیں۔ (وبنعمۃ اللہ یکفرون) ” اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں “ ان کی عقل و دانش کہاں چلی گئی کہ وہ گمراہی کو ہدایت پر ‘ باطل کو حق پر اور بدبختی کو خوش بختی پر ترجیح دے رہے ہیں ؟ وہ مخلوق میں سب سے بڑھ کر ظالم ہیں۔ (ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا) ” اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ؟ “ اور اپنی گمراہی اور باطل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا۔ (او کذب بالحق لما جآء ہ) ” یا اس نے حق کو جھٹلا دیا جب وہ اس کے پاس آیا “ رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے۔ مگر اس ظالم اور معاند حق کے سامنے جہنم ہے (الیس فی جھنم مثوی للکفرین) ” کیا کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ہے ؟ “ اس جہنم کے ذریعے سے ان سے حق وصول کیا جائے گا ‘ انہیں رسوا کیا جائے گا اور جہنم ان کا دائمی ٹھکانا ہوگا ‘ جہاں سے وہ کبھی نہیں نکلیں گے۔ (والذین جاھدوا فینا) ” اور جن لوگوں نے ہمارے لیے کوشش کی۔ “ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی ‘ اپنے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کرنے کی بھرپور کوشش کی (لنھدینھم سبلنا) ” ہم ان کو ضرور اپنے راستے دکھا دیں گے۔ “ یعنی ہم ان کو ان راستوں پر گامزن کردیتے ہیں جو ہم تک پہنثتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیکوکار ہیں۔ (وان اللہ لمع المحسنین) اور اللہ تعالیٰ اپنی مدد ‘ نصرت اور ہدایت کے ذریعے سے نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ صحیح بات کی موافقت کرنے کے حق دار اہل جہاد ہیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی احسن طریقے سے تعمیل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور ہدایت کے اسباب کو اس کے لیے آسان کردیتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو کوئی شرعی علم کی طلب میں جدوجہد کرتا ہے اسے اپنے مطلوب و مقصود اور ان امور الٰہیہ کے حصول میں اللہ تعالیٰ کی معاونت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے جو اس کے مدارک اجتہاد سے باہر ہیں اور امور علم اس کے لیے آسان ہوجاتے ہیں کیونکہ شرعی علم طلب کرنا جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے ‘ بلکہ یہ جہاد کی دو اقسام میں سے ایک ہے جسے صرف خاص لوگ ہی قائم کرتے ہیں۔۔۔ اور وہ ہے منافقین و کفر کے خلاف قولی اور لسانی جہاد۔ امور دین کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنا اور مخالفین حق ‘ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں کے اعتراضات کا جواب دینا بھی جہاد ہے۔
Top