Mafhoom-ul-Quran - Al-Ankaboot : 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ‘ کاش یہ لوگ سمجھتے۔
اعمال دنیا اور اس کا انجام تشریح : ” ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کو کھیل اور تماشہ اور اخروی زندگی کو ہمیشہ کی زندگی قرار دیا ہے۔ پھر مشرکین مکہ کا عقیدہ بیان کیا کہ وہ کشتی میں تو خالص اللہ کو پکارتے مگر باہر آکر اللہ کے ساتھ شریک ٹہراتے۔ آج کے نام نہاد مسلمان مشرکین مکہ سے بھی گئے گزرے ہیں کہ ایسی جگہ پر بھی غیر اللہ کو پکارتے ہیں مثلا ً معین الدین چشتی پار لگا دو میری کشتی، یا بہاو الحق، بیڑادھک وغیرہ انسان مصیبت میں تو اللہ کو پکارتا ہے مگر راحت میں شکر نہیں کرتا اور غفلت میں پڑ کر قیمتی عمر دنیا کی عزت ‘ راحت ‘ آسائش اور دنیوی کامیابی کے حصول میں ضائع کردیتا ہے۔ جب کہ معلوم ہے کہ یہ زندگی ختم ہوجانے والی ہے اور اصل زندگی اور ہمیشہ رہنے والی عزت و آسائش کی زندگی تو صرف موت کے بعد کی زندگی ہے۔ جو عنقریب آنے والی ہے۔ اس لیے بدی سے دور رہنا اور بدی کے خلاف جہاد کرتے رہنا ہی انسان کے اعلیٰ کردار اور بہترین زندگی کا نشان ہے۔ یہ جہاد ہے کہ برائی کو کسی حال میں برداشت نہ کرے بلکہ اس کو ختم کرنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجائے۔ جو شخص دوسروں کے لیے برائی کو برداشت کرتا ہے تو گویا وہ اخلاقی لحاظ سے کمزور ہے تو ایسا شخص بڑی آسانی سے اپنی نیک راہیں بدل لیتا ہے اور یوں ذلت و خواری اور اللہ کے غضب کا نشانہ بنتا ہے اور پھر اس کے اندر شرافت اور انسانیت کا کوئی جذبہ باقی نہیں رہ جاتا اور ایسے ہی لوگ اللہ کے ناپسندیدہ لوگ ہوتے ہیں۔ جبکہ مسلمان کی پوری زندگی جہاد ہے۔ چناچہ امام راغب اصفہانی (رح) نے لفظ جہاد کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ” جہاد کی تین قسمیں ہیں۔ (1) ایک کھلے دشمن کا مقابلہ (2) دوسرے شیطان اور اس کے پیدا کیے ہوئے خیالات کا مقابلہ۔ (3) تیسرے خود اپنے نفس کا ناجائز خواہشات سے مقابلہ۔ “ تو ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ فرماتا ہے۔ ” ہم ضرور ان کو اپنے رستے دکھا دیں گے اور اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔ “ (آیت :69 العنکبوت) سورت العنکبوت مکمل ہوگئی۔ الحمدللہ۔ خلاصہ سورة العنکبوت سورة العنکبوت جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ مکڑی سے منسوب ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا ہے جو انتہائی خوبصورت گھر بناتا ہے۔ مگر انتہائی نازک ہونے کی وجہ سے اسے ناپائیدار ہونے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ دنیا کو بھی اس سے تشبیہ دی جاسکتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو کفار کے عقائد سے تشبیہ دی ہے۔ بہرحال پوری سورت حضرت جعفر صادق (رح) کی اس نصیحت کے گرد گھومتی ہے فرماتے ہیں۔ ” اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کا شکر ‘ استغفار اور خوف و خطر میں لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنے کی تاکید ہے۔ یہی مسلمان کی سب سے بڑی تجارت ہے۔ تجارت دو قسم کی ہوتی ہے۔ دنیاوی تجارت اور اخروی تجارت۔ دنیاوی تجارت کے فوائد و منافع چونکہ ظاہر ہوتے ہیں اس لیے لوگ اس تجارت سے خوش ہوتے ہیں۔ اخروی تجارت کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں۔ ” اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے جنت کے بدلے میں ان کی جانیں بھی خریدلی ہیں ان کے مال بھی۔ “ ( سورة توبہ آیت :111 ) سلامتی کا راستہ قرآن و سنت کا راستہ ہے۔ جس نے ان کو سامنے رکھ کر اس دنیا میں زندگی گزاری اور تمام کاروبار حیات میں اللہ کی رضا کو سامنے رکھا تو گویا اس نے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرلی ایسے ہی بندوں کے لیے اللہ فرماتا ہے : ” اے مطمئن روح تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے خاص بندوں میں شامل ہوجا۔ اور میری جنت میں چلی جا۔ “ (سورۃ الفجر آیات 27 تا 30 ) خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزو تیری خوشا دماغ جسے تازہ رکھے بو تیری دعا ہے :” اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! آپ ہی میرے کار ساز ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ‘ مجھے پوری فرمانبرداری کی حالت میں دنیا سے اٹھا لیجئے اور مجھے خاص نیک بندوں میں شامل کر دیجئے۔ “ (سورۃ یوسف آیت :101) یہ سورت ہر زمانے کے مسلمانوں کے لیے حوصلہ مندی کے لیے بہت بڑی دلیل ہے۔ جب بندے کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اس راستے میں ہمیشہ ہر ایک کے ساتھ ایسے ہی مشکلات پیش آتی ہیں تو پھر وہ زیادہ مستعد اور مضبوط ہوجاتا ہے۔ اور پھر جب یہ بھی معلوم ہوجائے کہ کامیابی اور سلامتی کی یہی راہیں ہیں پھر تو اور بھی نڈر ‘ بہادر اور مضبوط مسلمان بن جاتا ہے۔ مسلمان کی تعریف شاعر نے یوں کی ہے ؎ جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا تو کرلیتا ہے یہ بال و پر روح الامین پیدا (اقبال) جب یہ مٹی سے بنا ہوا انسان جس میں اللہ نے اپنی قدرت سے زندگی بھر دی ہے۔ خالق اکبر پر اس کا ایمان پختہ ہوجاتا ہے تو پھر اس میں یقین و ایمان کی مضبوطی سے فرشتوں جیسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں یعنی وہ روحانیت میں اس قدر کمال حاصل کرلیتا ہے کہ قرب الٰہی حاصل کرلیتا ہے۔
Top