Mualim-ul-Irfan - Al-Ankaboot : 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور نہیں ہے یہ دنیا کی زندگی مگر دل کا بہلانا اور کھیل۔ اور بیشک آخرت کا گھر البتہ ہمیشہ زندہ رہنے کا مقام ہے اگر ان لوگوں کو سمجھ ہوتی
ربطہ آیات ابتلا اور آزمائش کے ذکر اور اس کی مثالیں بیان کرنے کے بعد اللہ نے کافروں اور مشرکوں کا شکوہ بیان کیا کہ واضح دلائل کی موجودگی میں ان کا توحید سے انکار اور کفر و شرک پر اصرار بڑی زیادتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمام جانداروں کے متعلق فرمایا کہ سب کا روزی رساں وہی ہے۔ پھر ارض و سماء کی تخلیق اور شمس و قمر کی تسخیر کے متعلق فرمایا کہ یہ سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے۔ یہ چیزیں تو محض اسباب ہیں وگرنہ حقیقی روزی رساں تو اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق کسی کی روزی کشادہ کردیتا ہے اور کسی کی تنگ کردیتا ہے۔ پھر اللہ نے بارش کے نزول کی طرف توجہ دلائی کہ آسمان کی طرف سے پانی برسا کر خشک زمین کو زندہ کرنا بھی اسی کا کام ہے فرمایا اس بات کو سب کافر اور مشرک بھی تسلیم کرتے ہیں مگر اس کے باوجود اللہ کی وحدانیت کو نہیں مانتے بلکہ اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ فرمایا یہ لوگ عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ؟ دنیا ایک کھیل تماشا اب اللہ تعالیٰ نے توحید کے انکار کے اسباب میں سے دنیا کی زندگی اس کی زینت اور چہل پہل کا ذکر کرکے فرمایا کہ اسی میں مبتلا ہو کر اکثر لوگ ایمان اور توحید کو اختیار کرنے کی بجائے کفر اور شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ فرمایا وما ھذہ الحیوۃ الدنیا الا لھو و لعب اور نہیں ہے یہ دنیا کی زندگی مگر جی کا بہلانا اور کھیل تماشا۔ انسان اس چند روزہ عارضی دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر دائمی زندگی کو بھول جاتے ہیں۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں لہو بچوں کے کھیل کو کہا جاتا ہے جب کہ لعب نوجوانوں کے کھیل پر بولا جاتا ہے۔ بہر حال دنیا کی زندگی کھیل تماشے سے زیادہ نہیں ہے۔ کھیل محض ایک بناوٹی ڈرامہ ہوتا ہے جس میں حقیقت کی کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ڈرامہ میں کام کرنے والے کردار محض وقتی طور پر اپنا اپنا کردار پیش کرتے ہیں اور جب کھیل ختم ہوتا ہے تو پھر نہ وہ بادشاہ بادشاہ ہوتا ہے اور نہ مجرم حقیقت میں مجرم ہوتا ہے کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اس کھیل تماشے کی سرپرستی خود حکومتیں کر رہی ہیں۔ ان کے لیے وزارتیں قائم کی جاتی ہیں ، فنڈز مختص کئے جاتے ہیں مگر حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ اسی طرح دنیا کا حال ہے جو نہی یہ زندگی ختم ہوتی ہے تو کھیل ختم ہوجاتا ہے ، مگر انسان ہیں کہ اسی میں مشغول ہو کر آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ دنیا کی بےثباتی اس دنیا کی بےثباتی کو حکما ، ادیبوں اور شاعروں نے اپنے اپنے انداز کے مطابق بیان کیا ہے چناچہ مولانا جامی فرماتے ہیں…؎ دلا تاکے دریں کا نے مجازی کئی مانند طفلاں خاک بازی اے دل ! تو کب تک اس مجازی عمل میں بچوں کی طرح خاک سے کھیلتا رہے گا ، بچے مٹی کے یا ریت کے گھروندے سے بنا کر کھیلتے ہیں اور پھرجاتے وقت پائوں کی ٹھوکر سے انہیں توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ دنیا کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ حافظ شیرازی صاحب بھی فرماتے ہیں…؎ مرادر منزل جاناں چرامن و عیش چوں ہر دم ۔ جرس فریاد می دارد کہ بربندیا محمل ہا اس منزل جاناں میں عیش و آرام کیسے حاصل ہوسکتا ہے جب کہ گھنٹی بج رہی ہے اور ہر وقت خبردار کیا جارہا ہے کہ کجا دے کس لو ، عنقریب کوچ کرنا ہے ، مطلب یہ کہ اس عارضی زندگی کے خاتمے کے لیے ہر آن حکم خداوندی کا انتظار رہتا ہے۔ تو ایسی دنیا کی بےثباتی پر لوگ غور کیوں نہیں کرتے ؟ تامل فی الوجود بعین فر تری الدنیا جمیلۃ کا لخیال اگر غور کی آنکھ سے دیکھو تو اس کمینی دنیا کو خیال سے زیادہ نہیں پائو گے۔ مطلب یہ کہ ذہن میں خیال پیدا ہوتا ہے تو کتنی دیر قائم رہتا ہے ؟ بس جلدی ہی زائل ہوجاتا ہے دنیا کی حقیقت بھی یہی ہے کہ اس کی ہر چیز جلد فنا ہوجانے والی ہے۔ ویبقی وجہ ربک ذوالجلل والا کرام (الرحمن۔ 72) اور خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔ اقبال نے بھی کہا ہے…؎ آیا ہے تو جہاں میں مثال شرار دیکھ دم دے نہ جائے ہستی ناپیدر دیکھ انسان ایک شعلہ یا چنگاری کی مانند ہے جو کہ ذرا سی دیر کے لیے بھڑکتا ہے اور پھر ختم ہوجاتا ہے۔ انسانی زندگی کی حیثیت اس شعلے سے زیادہ نہیں ہے۔ شیخ سعدی نے بھی بڑے پیارے انداز میں بات کی ہے…؎ جہاں بر آب نہاد ست زندگی برباد اے من غلام آں کہ دل برو نہ نہاد جہان کو تو اللہ نے پانی پر رکھا ہے اور انسانی زندگی کی بنیاد ہوا پر قائم ہے۔ جب تک سانس آتا رہتا ہے چلتی رہتی ہے اور جونہی سانس یعنی ہوا رُک گئی یہ زندگی بھی ختم ہوگئی یہ اتنی ناپائیدار ہے۔ پھر فرماتے ہیں…؎ کس را بقائے دائم وعہد مقیم نیست بقائے دائم و عہد مقسیم تست کسی ذات کے لیے بقائے دائم او عہد قائم نہیں ہے۔ سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کہ وہی قائم و دائم ہے اور اسی کا عہد مقیم ہے…؎ کم باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں بہت آگے گئے ، باقی جو میں تیار بیٹھے ہیں ہر روز مشاہدہ میں آتا ہے کہ کوئی آج جارہا ہے تو کوئی کل ، کوئی صبح گیا اور کوئی شام زندگی اتنی ناپائیدار چیز ہے کہ ایک سکینڈ بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ، بہر حال اللہ تعالیٰ نے دنیا کو کھیل تماشا قرار دیا اور اس کی بےثباتی کا ذکر فرمایا ہے۔ آخرت کا کنہ فرمایا دنیا کی بےثباتی کے مقابلہ میں وان الدار لآخرۃ لھی لحیوان آخرت کا گھر ہی مستقبل قرار گاہ حیات ہے۔ دنیا تو محض لہو و لعب ہے۔ اگر اس عارضی زندگی کی پونجی کو کسی اچھے کام میں لگائے گا تو آخرت کی ہمیشہ کی زندگی اچھی ہوجائے گی ورنہ خسارے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگی۔ سورة اعلیٰ میں اللہ کا ارشاد ہے بل توثرون الحیوۃ الدنیا (61) والآخرۃ خیر وبقی (71) تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت ہی بہتر اور دیرپا ہے لہٰذا اسی کی طرف دھیان دینا چاہئے اور اسی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اللہ نے اس دنیا کو آخرت کی کھیتی بنایا ، جو کچھ یہاں بوئو گے وہی آگے جا کر کاٹو گے لو کانو یعلمون اگر یہ بات تمہاری سمجھ میں آجائے تو پھر کامیاب ہوجائوگے۔ کاش کہ تم کفر و شرک اور معصیت کا راستہ چھوڑ کر ایمان اور توحید کا راستہ اختیار کرتے اور پھر دائمی زندگی میں بہتری حاصل کرتے۔ تری اور خشکی میں مشرک کا نظریہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کا شکوہ بیان فرمایا۔ فاذا رکبو فی الفلک جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ یعنی جب وہ کسی بحری راستے میں عازم سفر ہوتے ہیں اور ان کی کشتی یا جہاز طوفان میں گھر جاتا ہے یا کسی دوسرے حادثے کا شکار ہوجاتا ہے تو پھر دعو اللہ مخلصین لہ الدین تو پھر خالص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اعتقاد رکھ کر مدد کے لیے صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ یہاں پر دین سے مراد اطاعت ہے۔ اس وقت ان کا ایمان یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا اس مصیبت سے نجات دینے والا کوئی نہیں ہے۔ جب سمندروں میں طوفان آتے ہیں تو ایک لاکھ ٹن وزی جہاز بھی سمندروں کی لہروں پر تنکے کی طرف تیرتا پھرتا ہے۔ پندرہ بیس سال پہلے سوارا نامی جہاز ڈوبا تھا جس میں بارہ سو آدمی سوار تھے مگر صرف اڑھائی سو کے قریب بچائے جاسکے۔ بچ رہنے والوں نے جہاز کی غرقابی کا جو منظر دیکھا اس قیامت صغریٰ کو وہی جانتے ہیں۔ غرضیکہ ایسے مشکل وقت میں بعض لوگ صرف اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جیسا کہ عدی ؓ بن حاتم طائی کے واقعہ میں آتا ہے کہ جب کشتی طوفان میں پھنس گئی تو ملاحوں نے کہا اب صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ اس موقع پر کوئی دوسری ہستی کچھ نہیں کرسکتی۔ اسی بات سے عدی کے دل پر چوٹ لگی اور اس نے ارادہ کرلیا کہ اگر خشکی پر پہنچ گیا تو فوراً جا کر اپنا ہاتھ پیغمبر اسلام کے ہاتھ میں دے دوں گا۔ البتہ بعض شدید قسم کے مشرک ایسے بھی ہوتے ہیں جو بھنور میں پھنس کر بھی اللہ کی بجائے پیروں فقیروں کو پکارتے ہیں اور ان کے نام ہی کی دہائی دیتے ہیں۔ چناچہ آپ نے اس قسم کے نعرے سُنے ہوں گے یا باد الحق بیڑا دھک تاہم عام طور پر بڑے سے بڑا مشرک بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور مشکل وقت میں اسی کو پکارتا ہے۔ فرمایا فلما لجھم الی البر پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو طوفان سے بچا لیتا ہے اور خشکی کی طرف لے جاتا ہے اذاھم یشرکون تو یہ لوگ پھر شرک کرنے لگتے ہیں پھر دیکھیں چڑھتی ہیں ، نذر و نیاز ہوتی ہے ، کبھی داتا صاحب کی قبر پر حاضری دی جاتی ہے ، کبھی خواجہ صاحب کے ہاں اور کبھی کسی دوسرے قبر والے کے ہاں گویا طوفان سے بچانے والا یہی ہیں جس اللہ نے انہیں موت کی آغوش سے بچایا اس کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ انجام کار اللہ نے فرمایا ، یہ اس وجہ سے ہوتا ہے لیکفر وابما اتینھم تاکہ وہ انکار کردیں کہ اس چیز کا جو ہم نے انہیں دی ہے مطلب یہ کہ اللہ نے ان کی جا ن بچائی ان کی بحفاظت خشکی تک پہنچایا مگر وہ لوگ اللہ کے اس احسان کی ناقدری کرتے ہیں اور احسان فراموشی کا ثبوت دیتے ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے غیر اللہ کی نذر و نیاز دیتے ہیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے ولیتسمو تاکہ وہ فائدہ اٹھالیں اس چیز سے جو اللہ نے ان کو عطا کی ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ لیکفرو اور لیستمتعو کا لام لام سببیہ ہے یعنی ان کے کفر اور فائدہ اٹھانے کا سبب یہ ہوگا کہ وہ سزا کے مستحق ٹھہریں گے بعض کہتے ہیں کہ لام امر ہے اور معنی یہ بنتا ہے کہ چاہے کہ یہ کفر کریں اور فائدہ اٹھائیں یعنی اگر یہ اسی طرف جانا چاہتے ہیں تو پھر چلے جائیں۔ اس قسم کا طرز تخاحب وعید کے لیے ہوتا ہے جیسے فرمایا اعملو ما شئتم ( حم سجدہ 4) جو تمہارا جی چاہتا ہے کرلو۔ ہم حساب لے لیں گے ، آخر ہمارے پاس ہی آنا ہے ، یہ وعید ہے بعض فرماتے ہیں کہ یہ لام عاقبت ہے یعنی یہ لوگ کفر کرتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناقدری کرتے ہیں اور شکریہ ادا نہیں کرتے تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ ہماری عطا کردہ چیزوں کے ناشکر گزار بن جائیں گے۔ اور اس دنیا کے مال و متاع سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے جو کہ بالکل عارضی چیز ہے۔ سورة … میں ہے قل تمتع بکفرک قلیلا انک من اصحب النار ( آیت 8) یہ اپنے کفر کیسا تھوڑا فائدہ اٹھا لیں ، انہیں بالآخر جہنم میں ہی جانا ہے فسوف تعلمون پس وہ عنقریب جان لیں گے پھر انہیں پتہ چلیگا کہ انہوں نے دنیا کی عارضی مہلت کو کس طرح ضائع کیا اور خدا تعالیٰ کی نعمت و شکرا دا کرنے کی بجائے کفر ، شرک اور شرکیہ رسومات ادا کرتے رہے گویا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دی۔
Top