Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور (ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے کاش یہ لوگ سمجھتے
دار دنیا کی حقارت اور دار آخرت کی فضیلت قال اللہ تعالیٰ وما ھذہ الحیوۃ الدنیا۔۔۔ الی۔۔۔ وان اللہ لمع المحسنین۔ گزشتہ آیت میں یہ فرمایا بل اکثرہم لا یعقلون یعنی اکثر لوگ عقل سے کام نہیں لیتے دنیا کی ظاہری آرائش پر مفتون ہیں اگر عقل سے کام لیں تو سمجھ جائیں کہ دنیا کا تمام کارخانہ فنا اور زوال اور ضعف اور اضمحلال پر مبنی ہے تو جان لیں کہ یہ دنیا بالکل بےحقیقت ہے اور سرائے فانی ہے جس سے ایک دن کوچ قطع ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور نہیں ہے یہ دنیاوی زندگانی جس پر یہ بےعقل فریفتہ ہیں مگر طفلان بےشعور کے دل بہلانے کا ایک مشغلہ جیسے بچے لاٹھی کو گھوڑا بنا کر اس پر سوار ہوجاتے ہیں اس کو بازی طفلاں کہتے ہیں اور محض ایک کھیل اور تماشا ہے جیسے گانا بجانا اور پتنگ بازی اور کبوتر بازی جس میں بسا اوقات جو ان بھی شریک ہوجاتے ہیں یہاں حق تعالیٰ نے دنیا کی حقارت بیان کرنے کے لئے دو لفظ اختیار فرمائے ایک لہو اور ایک لعب اور دونوں کے مفہوم میں لغت کے اعتبار سے کچھ فرق ہے لہو اس مشغلہ کو کہتے ہیں جس سے دل بہل جائے اور لعب کھیل تماشہ کو کہتے ہیں جو تھوڑی دیر رہ کر ختم ہوجائے مگر اس پر کوئی معتد یہ ثمرہ مرتب نہیں ہوتا یہی حال دنیاوی زندگی کا ہے مقصود یہ ہے کہ دنیا کی حقیقت صرف اتنی ہے جو اس قابل نہیں کہ اس سے دل لگایا جائے اور تحقیق دار آخرت وہی حقیقی زندگی ہے جو ہر قسم کے تکدر سے پاک اور منزہ ہے اور ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے جہاں موت نہیں پس جس جگہ ہر وقت کوچ کا طبل بجتا رہتا ہو وہ جگہ جی لگانے کے قابل نہیں کاش کہ لوگ دنیا اور آخرت کے فرق کو سمجھتے تو دنیا میں اس قدر محو نہ ہوتے اور سمجھ لیتے کہ قابل توجہ اور التفات دار آخرت ہے لہٰذا اگر کچھ عقل ہے تو اصل فکر آخرت کی کرو اور دنیا کو اس کا وسیلہ اور ذریعہ بناؤ پس یہ شیدا یان حیوۃ دنیا جب کبھی دریا کا سفر کرتے ہیں اور کشتی میں سوار ہوتے ہیں اور ان کو غرق ہونے کا ڈر ہوتا ہے تو اس وقت اس دنیائے لہو ولعب کو بھول جاتے ہیں اور اپنے معبودوں کو بھی بھول جاتے ہیں اور اللہ کو پکارتے ہیں درآنحالیکہ خالص اللہ کی عبادت کی نیت کرنے والے ہوتے ہیں اور اپنے معبودوں کو بھول جاتے ہیں اور خوف اور اضطراب کو دفع کرنے کے لئے اللہ کو پکارتے ہیں اور اس کی پناہ ڈھونڈتے ہیں جب اللہ کا نبی توحید کی طرف بلاتا ہے تو صاف انکار کردیتے ہیں اور جب سر پر مصیبت آپڑتی ہے تو توحید اور اخلاص کے نعرے لگانے لگتے ہیں پھر جب خدا ان کو اس مصیبت سے نجات دیتا ہے اور سلامتی کے ساتھ دریا سے خشکی کی طرف پہنچا دیتا ہے تو کشتی سے اترتے ہی حسب عادت پھر شرک کرنے لگتے ہیں جب آفت سر پر آپہنچی تو اللہ کو پکارنے لگے پھر جب وہ آفت سر سے ٹلی تو پھر وہی کفر اور شرک اور بتوں کو پکارنا شروع کردیا گویا (ف 1) کہ کفروشرک سے ان کی غرض یہ ہوئی ہماری دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتے رہیں اور دنیا کے مزے اڑاتے رہیں خیر بہتر ہے چند روز دل کے ارمان نکال لیں سو عنقریب جان لیں گے کہ ناشکری کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اب آئندہ آیت میں ان کے نا معقول حیلہ اور بہانہ کا جواب دیتے ہیں وہ یہ کہتے تھے ان نتبع الھدی معک نتخظف من ارضنا یعنی اگر ہم آپ پر ایمان سے لے آئیں اور آپ ﷺ کی ہدایت کا اتباع کریں تو لوگ ہم کو اچک لیں اور مار ڈالیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس بہانہ کی لغویت مشاہدہ سے ثابت ہے کیا ان کفار نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو ان کے لئے مقام امن بنایا اور ان کے اردگرد کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں یعنی لوٹ لئے جاتے ہیں اور مار دئیے جاتے ہیں اور حرم مکہ قتل و غارت سے بالکل مامون اور محفوظ ہے اور یہ لوگ اس میں بےخوف وخطر زندگی بسر کر رہے ہیں لہٰذا ایمان سے تخلف کے لئے تخطف کو عذر قرار دینا غیر معقول ہونے کے علاوہ مشاہدہ کے بھی خلاف ہے اور یہ نعمت حق تعالیٰ کی دی ہوئی ہے اس میں ان کے معبودوں کو ذرہ برابر دخل نہیں پس کیا یہ لوگ اس درجہ ضد اور عناد پر اتر آئے ہیں کہ باطل اور جھوٹ بات کا تو یقین کرتے ہیں اور باطل معبودوں پر ایمان لاتے ہیں اپنے ہاتھ کے تراشیدہ بت کو تو خدا ماننے کے لئے تیار ہیں مگر خدا کے برگزیدہ بندہ کو خدا کا رسول ماننے پر تیار نہیں اور اللہ کے احسان کو نہیں مانتے کہ اس کی رحمت سے حرم میں امن کے ساتھ بےخوف وخطر بیٹھے ہوئے ہیں اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا کہ اللہ نے بتوں کو اور دوسرے معبودوں کو کارخانہ کا مختار کار بنادیا ہے یا اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا کہ جس کے پاس حق پہنچا اور اس نے اس کو جھٹلا دیا کیا ان کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں یعنی ضرور ہے یہ تو ان لوگوں کا حال تھا جو اس سرائے فانی پر شیدا اور فریفتہ ہوں اور وہ لوگ جو دار آخرت کے دلدادہ اور شیدائی ہیں جنہوں نے ہماری راہ میں جان ومال سے جہاد کیا اور طرح طرح کی مشقتیں اٹھائیں اور علم کے مطابق عمل کیا اور نفسانی خواہش کو شریعت کے تابع کردیا ہم ان کو اپنے تک پہنچنے کی راہیں دکھاویں گے اور بیشک اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کے ساتھ ہے یعنی مجاہدوں کے ساتھ ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور خدا جس کے ساتھ ہوا سے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور نہ اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے مطلب یہ ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے مجاہدہ یعنی ظاہری اور باطنی جہاد اور جدو جہد ضروری ہے اور لنھدینہم سبلنا میں سبل سے خدا تعالیٰ کے قرب اور رضا کی راہیں مراد ہیں جس کا مآل بہشت ہے۔ اگر درجستجوئے من شتابی مراد خود بزودی باز یابی 1 اشارہ اس طرف ہے کہ لیکفروا کا لام، لام عاقبت ہے اس لئے کہ کفار کا یہ قصد نہ تھا بلکہ ان کے فعل کا نتیجہ تھا جیسا کہ لیکون لہم عدوا وحزنا میں لام۔ لام عاقبت ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگرچہ انہوں نے کفران نعمت کا قصد نہیں کیا تھا مگر نجات کی نعمت کا انجام یہ ہوا کہ بجائے شکر کے کفر اور شرک کرنے لگے۔ سنہ عفا اللہ عنہ۔ الحمد للہ آج بتاریخ 15 جمادی الثانیہ 1392 ھ بروز پنج شنبہ بعد از اذان عصر جامعہ اشرفیہ لاہور میں خدا تعالیٰ کی رحمت سے سورة عنکبوت کی تفسیر سے فراغت نصیب ہوئی جس کے ختم سے بفضلہ تعالیٰ تفسیر کے دو ثلث اختتام کو پہنچے وللہ الحمد والمنۃ اور اللہ کے فضل وکرم سے اور اس کی رحمت سے امید ہے کہ باقی ماندہ ایک ثلث کے اتمام اور اکمال کی توفیق عطا فرمائیں گے اور اپنے قبول سے نوازیں گے اور اپنی ہدایت اور معیت خاصہ دائمہ سے سرفراز فرمائیں گے امین یا رب العالمین واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا ومولانا محمد والہ و اصحابہ وازواجہ وذریاتہ اجمعین وعلینا معہم یا ارحم الرحمین الی یوم الدین۔
Top