Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 101
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآءَتْهُ الْبُشْرٰى یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب ذَهَبَ : جاتا رہا عَنْ : سے (کا) اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم الرَّوْعُ : خوف وَجَآءَتْهُ : اس کے پاس آگئی الْبُشْرٰي : خوشخبری يُجَادِلُنَا : ہم سے جھگڑنے لگا فِيْ : میں قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں قصر کرلو اگر تم کو اس بات کا خوف ہے کہ کافر لوگ تمہیں فتنہ میں ڈال دیں گے بیشک کافر تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں۔
سفر میں نماز قصر پڑھنے کا بیان جہاد اور ہجرت میں چونکہ سفر در پیش ہوتا ہے اس لیے ہجرت کے ساتھ سفر میں نماز قصر کرنے کا حکم بھی بیان فرما دیا۔ بموجب احکام کتاب و سنت مسلمان ہمیشہ نماز پڑھتے آئے ہیں۔ قصر صرف چار رکعت والی نماز میں ہے یعنی ظہر، عصر اور عشاء کی چار رکعتوں کے بجائے دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں۔ نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے ان کو سفر میں بھی پورا ہی پڑھنا فرض ہے۔ اگر مسافر کسی مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اسے بھی امام کی اقتداء میں چار رکعت والی نماز پوری پڑھنی فرض ہے۔ مقیم اگر مسافر کے پیچھے اقتداء کرلے تو جب امام دو رکعت پر سلام پھیرے تو مقیم مقتدی کھڑے ہو کر اپنی چار رکعت پوری کرنے کے لیے باقی رکعات پڑھے۔ ہر سفر میں قصر پڑھنا درست نہیں ہے اگر تین منزل کا سفر ہو تو قصر کرنا درست ہے ایک منزل سولہ میل کی لینے سے مسافت قصر 48 میل ہے اور کلومیٹر کے حساب سے 88 کلومیٹر ہے یہ مسافت قصر ہے، اتنی مسافت کے لیے جب اپنی بستی کی حدود سے نکل جائے تو نماز سفر شروع کر دے اگرچہ ذرا دور ہی پہنچا ہو اور جب تک کسی بستی یا شہر میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے۔ نماز قصر ہی پڑھتا رہے۔ اگر کسی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلی تو وہاں سے چلنے تک ہر نماز پوری پڑھے قصر نہ کرے۔ سفر میں سنتیں پڑھنے کا حکم : سنتوں میں قصر نہیں ہے البتہ اگر جلدی ہو سواری چھوٹ جانے کا ڈر ہو تو سنتیں بالکل ہی چھوڑی جاسکتی ہیں، اطمینان ہو اور جلدی کا تقاضا نہ ہو تو سنتیں بھی پڑھ لے البتہ وتر ہرگز نہ چھوڑے اور فجر کی سنتیں بھی اہتمام سے پڑھ لے، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں دو رکعت نماز ظہر پڑھی اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اور عصر کی دو رکعتیں آپ کے ساتھ پڑھیں اور اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھی اور مغرب کی سفر اور حضر میں تین رکعت نماز پڑھی ان میں سفر اور حضر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی تھی اور یہ دن کے وتر ہیں اور ان کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ (رواہ الترمذی صفحہ 105) حضرت براء بن عازب ؓ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اٹھارہ دن سفر میں رہا، میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے سورج ڈھلنے کے بعد دو رکعتیں چھوڑی ہوں۔ معلوم ہوا کہ سفر میں سنتیں پڑھنا بھی مشروع ہے۔ امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں : ثم اختلف اھل العلم بعد النبی فرای بعض اصحاب النبی ان یتطوع الرجل فی السفروبہ یقول احمد واسحق ولم یرطائفۃ من اھل العلم ان یصلی قبلھا ولا بعدھا و معنی من لم یتطوع فی السفر قبول الرخصۃ و من تطوع فلہ فی ذلک فضل کثیر وھو قول اکثر اھل العلم یختارون التطوع فی السفر۔ مسافر اگر پوری چار رکعت پڑھ لے ؟ قرآن مجید کے انداز بیان سے معلوم ہو تاکہ اگر کافروں کے فتنے میں ڈالنے یعنی تکلیف پہنچانے کا اندیشہ ہو تو نماز قصر کرنے کی اجازت ہے اسی لیے حضرت یعلی بن امیہ نے حضرت عمر ؓ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو یوں ارشاد فرمایا ہے (اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (جس سے معلوم ہو رہا ہے کہ امن وامان ہو تو قصر نہ ہو) اب تو امن وامان ہوگیا (لہٰذا پوری پڑھنی چاہیے) حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ مجھے بھی اس بات سے تعجب ہوا تھا جس سے تمہیں تعجب ہو رہا ہے (کہ اب امن وامان ہے۔ لہٰذا پوری نماز پڑھا کریں) میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہی سوال کیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ کی طرف سے تم پر صدقہ ہے لہٰذا اللہ کا صدقہ قبول کرو۔ (رواہ مسلم صفحہ 241: ج 1) اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ کافروں کی طرف سے فتنے میں ڈالنے کی شرط جو الفاظ قرآن سے مفہوم ہو رہی ہے یہ شرط ابتداء تھی بعد میں یہ شرط نہیں رہی اور نماز قصر مستقل ایک حکم بن گئی اور مسافت قصر کے سفر پر ہی قصر کا مدار رہ گیا۔ کسی قسم کا کوئی خوف اور کافروں کی فتنہ گری نہ ہو تب بھی چار رکعت والی نماز قصر ہی پڑھی جائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ سے مدینہ کا سفر فرمایا اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ تھا۔ آپ دو ، دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے۔ (مجمع الزوائد صفحہ 156: ج 2) حضرت حارثہ بن وہب ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں اور یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ لوگ خوب زیادہ امن وامان میں تھے (رواہ مسلم صفحہ 243: ج 1) دوسرے یہ کہ آنحضرت ﷺ نے بصیغہ امر ارشاد فرمایا فاقبلوا صدقتہ کہ اللہ کے صدقے کو قبول کرو، اسی لیے حضرت امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا کہ قصر کرنا واجب ہے۔ مسافر پوری نماز پڑھ لے گا تو اچھا نہ کرے گا۔ اور چونکہ اس پر دو رکعتیں فرض ہیں اسی لیے دو رکعتوں پر ہی اس کا قعدہ اخیرہ ہے اگر دوسری رکعت پر بیٹھے بغیر کھڑا ہوگیا اور اس طرح چار رکعتیں پڑھ لیں تو دوبارہ نماز پڑھے کیونکہ ترک فرض ہوگیا اور ترک فرض ہوجائے تو سجدہ سہو سے بھی اس کی تلافی نہیں ہوتی۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں رہا ہوں آپ ﷺ نے دو رکعتوں سے زیادہ (چار رکعت والی فرض) نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی اور حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ رہا ہوں انہوں نے سفر میں دو رکعتوں سے زیادہ (فرض) نماز نہیں پڑھی اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ رہا ہوں، انہوں نے بھی سفر میں دو رکعتوں سے زیادہ (فرض) نماز نہیں پڑھی۔ یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اٹھا لیا اور حضرت عثمان ؓ کے ساتھ رہا ہوں انہوں نے بھی سفر میں دو رکعت سے زیادہ (فرض) نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) (البتہ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی ذات شریفہ میں اسوہ حسنہ یعنی اچھی اقتدارء ہے) ۔ (صحیح مسلم صفحہ 242: ج 1) حضرت عثمان ؓ اپنے آخری زمانہ خلافت میں چار رکعتیں پڑھنے لگے تھے (صحیح مسلم صفحہ 243: ج 1) اس پر لوگوں کو اشکال ہوا تو جواب میں کہا گیا کہ انہوں نے تاویل کرلی ہے۔ یہ تاویل خود حضرت عثمان ؓ سے مروی ہے۔ مجمع الزوائد صفحہ 156: ج 2 میں مسند احمد سے نقل کیا ہے کہ عبدالرحمن بن ابی ذباب نے بتایا کہ حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں چار رکعت نماز پڑھائی تو لوگوں نے اس کو اچھا نہیں جانا حضرت عثمان ؓ نے جب لوگوں کی طرف سے انکار دیکھا تو فرمایا کہ میں نے مکہ میں وطن بنا لیا ہے اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو کسی شہر میں وطن بنالے تو وہاں مقیم والی نماز پڑھے، حضرت عثمان ؓ کا تاویل کرنا اور وطن بنانے کی نیت کرکے چار رکعت پڑھنا اور حاضرین کا پوری نماز پڑھنے پر تعجب کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مسافر کو قصر ہی پڑھنا لازم ہے اگر سفر میں چار رکعت والی نماز پوری پڑھنا جائز ہوتا یا افضل ہوتا تو حاضرین کو حضرت عثمان ؓ کے پوری نماز پڑھنے پر تعجب نہ ہوتا (جبکہ یہ حضرات صحابہ ؓ اور تابعین تھے) اور حضرت عثمان ؓ کو بھی تاویل نہ کرنی پڑتی۔
Top