Asrar-ut-Tanzil - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے ایمان والو ! ان کفار سے لڑو جو تمہارے نزدیکرہتے ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی (محنت اور جنگی قوت سے) پائیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہیں
آیات 123 تا 127 اسرار و معارف کسی عمل کے نیک ہونے کی شرط اور جہاں تک کفار سے معاملات کا تعلق ہے تو ان سے جہاد کرو کہ مومنین کو جس قدر محبت و خلوص سے اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس قدرشدت اور سختی سے جہاد بھی کریں کہ کسی عمل کے درست یا نیک ہونے کی شرط اس کی صورت نہیں بلکہ اس کا اللہ کے حکم کے تابع ہونا ہے ایک طرف محبت و خلوص نیکی ہے تو دوسری جانب شدت و سختی نیکی ہے لہٰذاکفار سے محبت جائز نہیں ۔ شدت اور جہاد میں پوری قوت سے ٹکرانا ضروری ہے اور جہاد اپنے قریب والوں سے شروع ہوگا بلحاظ مقام اور فاصلہ کے بھی اور رشتہ اور نسب کے اعتبار سے بھی ۔ ظاہر ا یہ جنگ کی صحیح صورت نہیں کہ کفار کو درمیان میں رکھ کر دور والوں سے لڑاجائے اور رشتہ کے لحاظ سے قریبی زیادہ مستحق ہیں کہ جہاد تو انہی کی بہتری کے لئے ہے اور مومن کے لئے نیکی کو پانے کا راستہ بھی صرف یہی ہے کہ نیکوں سے محبت اور بدکاروں سے سختی کرے کہ اللہ کی معیت جو دوعالم میں سب سے بڑا انعام ہے وہ تقوی اور نیکی پہ مرتب ہوتی ہے۔ کلام باری کی عظمت اگر مذکورہ طریق پر سے عمل ہٹ جائے اور ایسانہ کیا جائے تونفاق پیدا ہوتا ہے یعنی نیک اور صادق بندوں سے محبت نہ رہے یا کفار سے نفرت نہ رہے تو دل میں نفاق آجاتا ہے جس کا اثریہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو یہ بعض مسلمانوں سے پوچھتے ہیں کہ بھئی ! تم میں سے کس کا ایمان زیادہ ہوا ہے یا اس نے ترقی کی ہے۔ یہ اس لئے ارشاد ہوا کہ کلام باری کی اپنی ایک عظمت ہے جو دلوں میں خاص کیفیت پیدا کرتی ہے کہ ہر کلام میں کلام کرنے والے کی ذات کا اثرہوتا ہے۔ آپ کسی شعبہ زندگی سے متعلق انسان کی باتیں سنناشروع کردیں تو اس شعبے سے نہ صرف واقفیت نصیب ہوگی بلکہ ایک دلی تعلق پیدا ہوجائے گا جیسے شاعریا ادیب یاتا جرہویا پتنگ باز اسی طرح کلام باری میں بھی ایک خاص اثر ہے کہ جنت کی نعمتوں میں سب سے اعلی نعمت اللہ کا کلام ہی ہوگا اور اہل دوزخ پر سب سے بڑا عذاب یہ بھی ہوگا کہ اللہ ان سے کلام نہ فرمائیں گے۔ ایمان کا بڑھنا گھٹنا لہٰذا قرآن کا سمجھنا تو بیشک بنیادی بات ہے لیکن اگر معنی نہ بھی آتے ہوں تو بھی تلاوت اپنا اثرر کھتی ہے اور ایمان کی زیادتی کا باعث ہے ۔ ایمان کی زیادتی سے مراد میں اس قوت کا زیادہ ہونا ہے جو نیکی پر کاربند کردیتی ہے اور اس کے برعکس گھٹنے کی دلیل ہے منافق اگرچہ مذاق اڑائیں مگر حق یہ ہے کہ ہر آیہ کریمہ مومنین کے ایمان میں مزید نورانیت اور قوت کا باعث بنتی ہے جس کا اثرران کے چہروں کی تمتماہٹ میں بھی ظاہر ہونے لگتا ہے لیکن یہ تو بارش کی مثال رکھتا ہے ، کہ اگر زمین دل ہی خراب ہورہی ہو اور اس میں نفاق کی گندگی ہو تو اس بارش سے وہ اور بدپھیلا نے کا سبب بنتی ہے اور ایسے دلوں کے حامل لوگ اتنے بدنصیب ہوتے ہیں کہ اسی مرض میں گرفتار اور آگے بڑھتے ہوئے بالآخر کفر پہ ہی جان دے دیتے ہیں ۔ اعاذنا اللہ منہا۔ اے مخاطب ! کیا یہ بات سامنے اور ظاہر نہیں کہ ان پر مسلسل امتحان اور مصائب آتے ہیں کبھی ان کے دوستوں کو شکست ہوتی ہے تو کبھی ان کا نفاق ظاہر کردیا جاتا ہے مگر انھیں نہ تو توبہ نصیب ہوتی ہے اور نہ یہ سبق حاصل کرتے ہیں بلکہ جب ایسی آیات نازل ہوتی ہیں جن میں کبھی کفار کی خدمت یا ان کی منافقت کا ذکر ہو تو کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو تاڑتے ہیں اور اشاروں میں ایک دوسرے کو سمجھا کرمجلس سے نکل جاتے ہیں کہ مباداچہروں کی رنگت حال دل کی غمازی نہ کردے ۔ حق تو یہ تھا کہ یہ نصیحت حاصل کرتے اور جان لیتے کہ اللہ قادر بھی ہے اور عالم الغیب بھی کہ کفار کی تباہی کی خبر بھی دے رہا ہے اور ہمارے حال دل کو بھی بیان کررہا ہے لہٰذاتوبہ کرکے خلوص اختیار کرتے مگر یہ الٹا وہاں سے نکل بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان کے نفاق کی وجہ سے اللہ نے ان کے قلوب الٹ دئیے ہیں اور حقیقی علم اور سمجھ ہے جب وہی الٹ گیا تو ساری سمجھ الٹ گئی لہٰذا ان نادانوں کو ایسا ہی سوجھ سکتا ہے۔ شان رسالت لوگو ! تمہارے پاس میرا رسول تشریف لاچکا اب اپنی اصلاح کے لئے کسی آنیوالے کا انتظار کرو نہ کسی حادثے کا کہ دین کے معاملہ میں اللہ کی ذات کے ساتھ تعلقات کے بارہ میں وہ آخری ہستی جو سب سے آخر ہے بعث میں اور جو سب سے اول ہے مقام و مرتبہ پانے میں بھی اور اپنی شان رسالت میں بھی تشریف لاچکی جو اس کی برکات سے بھی محروم رہاوہ ہمیشہ محروم ہی رہے گا اور اللہ کا یہ احسان دیکھوں کہ اس نے اس کی ذات سے عالم بشریت کو نوازا ہے اور انسانیت کے لئے انھیں باعث صدفخربنایا ہے اگر یہ ہستی کسی اور مخلوق میں پیدا ہوتی مثلا فرشتوں میں تو انسان اشرف المخلوقات بھی نہ ہوتانہ ان سے برکات حاصل کرنا آسان ہوتا ۔ لہٰذایہ رحمت مجسم باعث سرفرازی اولاد آدم (علیہ السلام) ہے اور تمہارے لئے ان سے برکات کا حاصل کرنا بہت آسان ہے ۔ دوسری بہت بڑی بات یہ ہے کہ ساری انسانیت کا سب سے بڑا غمگسا بھی میرارسول اور یہی ہستی ہے کہ ٹھوکر انسانیت کو لگتی ہے درد یہ ہستی محسوس فرماتی ہے کافر کو کفرپہ مرتے دیکھ کر اس کا دل لرزاٹھتا ہے کہ میری بعت کے بعد بھلا کوئی انسان کیوں عذاب میں گرفتار ہو۔ تم سوتے ہو یہ تمہارے لئے جاگتا ہے ۔ تم بھاگتے ہو یہ پیچھے سے پکڑتا ہے تم پتھر پھینکتے ہو یہ دعا کرتا ہے ۔ تم کانوں میں انگلیاں ٹھونستے ہو یہ نغمہ تو حید سناتا ہے ۔ دوعالم سے بےنیاز اور صرف میری ذات کا طالب میرارسول اے انسانو ! تمہاری بخشش اور نجات کے لئے حریص ہے یعنی کبھی سیر نہیں ہوتا تم میں جس قدر لوگوں کو ہدایت نصیب ہوجائے بس نہیں کرتا کہ یہ کافی ہیں دوسروں کے لئے پھر ویسی ہی محنت جاری رکھتا ہے ۔ یہ بات تو سب انسانوں سے ہے اور جہاں تک مومنین کا تعلق ہے اسے بغیر ایمان لائے بھلا کوئی کیا جانے ۔ ہاں ! میں بتاتا ہوں کہ وہ ان سے اتنا شفیق ہے کہ اس کی شفقت کا سمندر ناپیداکنار نظر آتا ہے انسانی عقل اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور حددرجہ رحیم ہے۔ اے میرے حبیب ! تری اس ذرہ پروری سے بھی جو محروم رہے اور پیٹھ پھیر کر چل دے تو تو بھی اسکی پرواہ مت کر اور یہ فرمادے کہ میرے لئے میرا اللہ کافی ہے میرامطلوب میرا مقصود تو وہ ذات ہے یقینا اس جیسا کوئی دوسرا نہیں نہ اس کے سوا کسی کے لئے زیبا ہے کہ اس کے دروازے پہ سررکھ دیاجائے یا اسے اپنا مقصود بنایاجائے اور وہی اکیلا عرش عظیم کا سلطان ہے ۔ وہ عرش جو کائنات کو محیط ہے جہاں سے ساری کائنات کا نظام چلایا جاتا ہے وہ ہستی اور صرف وہی ہستی اس عرش کی مالک ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ دونوں آخری آیات کتاب اللہ کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیات ہیں ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے چشم عالم سے پردہ فرمایا اس میں دلیل ہے کہ برکات آپ ﷺ کے متبعین کی وساطت تقسیم ہوتی رہیں گی ۔ لہٰذاساری انسانیت کو دعوت عام دی جارہی ہے ۔ اللہ کریم ہمیشہ ہمیشہ ان برکات سے ہمارے دلوں کو منور فرماتا رہے اور اسی ذات کی پیروی کی توفیق ارزاں فرمائے آمین۔ الحمد اللہ ! سورة توبہ مکمل ہوئی ۔ حرم نبوی علیٰ صاجھا الصلوۃ والسلام میں سے شروع ہوکردار العرفان میں 25 رجب المرجب 1410 ھ 22 فروری 1990 ء کو تمام ہوئی ۔ اے رب جلیل ! اپنے خاص کرم سے یہ تفسیر مکمل کرنے کی توفیق عطافرما اور اسے عالم انسانیت کیلئے رہنمائی کا باعث بنا ، آمین دعاگوئے عالم فقیر محمد اکرم عفی عنہ
Top