Kashf-ur-Rahman - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے ایمان والو کفار میں سے جو کافر تم سے قریب ہوں ان سے جنگ کرو اور کافروں کو تمہارے برتائو میں سختی محسوس ہونی چاہئے۔ اور یقین جانو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے
123 اے ایمان لانے والو ! تم پہلے ان کافروں سے جنگ کرو جو تم سے قریب اور تم سے نزدیک ہیں اور کافروں کو تمہارے برتائو میں سختی محسوس ہونی چاہئے اور یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے اور اس کی معیت اہل تقویٰ کو حاصل ہے۔ اصلاح اور ہدایت کے وہ لوگ مستحق ہیں جو اقرب ہوں۔ خواہ اپنے اہل ہوں یا اولاد ہو یا پاس پڑوسی ہوں۔ پھر جوان سے قریب ہوں اسی طرح الاقرب وفالا قرب کے اصول سے بڑھاتے جاناچاہئے۔ سختی کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کے میدان میں مضبوطی دکھانی چاہئے یا عام برتائو میں ڈھیلا پن نہ ہونا چاہئے۔ 12 حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں سختی معلوم کریں یعنی قوت جنگ یا سختی یعنی معاملات میں بےرخی پس کافر سے الفت و ملائمت نہ کرے مگر جب دیکھے کہ دین کا راغب ہے۔
Top