Tafheem-ul-Quran - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جنگ کرو اُن منکرینِ حق سے جو تم سے قریب ہیں۔121 اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں،122 اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔123
سورة التَّوْبَة 121 آیت کے ظاہر الفاظ سے جو مطلب نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دارالاسلام کے جس حصے سے دشمنان اسلام کا جو علاقہ متصل ہو، اس کے خلاف جنگ کرنے کی اولین ذمہ داری اسی حصے کے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن اگر آگے کے سلسلہ کلام کے ساتھ ملا کر اس آیت کو پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کفار سے مراد وہ منافق لوگ ہیں جن کا انکار حق پوری طرح نمایاں ہوچکا تھا، اور جن کے اسلامی سوسائٹی میں خلط ملط رہنے سے سخت نقصانات پہنچ رہے تھے۔ رکوع 10 کی ابتداء میں بھی جہاں سے اس سلسلہ تقریر کا آغاز ہوا تھا، پہلی بات یہی کہی گئی تھی کہ اب ان آستین کے سانپوں کا استیصال کرنے کے لیے باقاعدہ جہاد شروع کردیا جائے۔ وہی بات اب تقریر کے اختتام پر تاکید کے لیے پھر دہرائی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کی اہمیت کو محسوس کریں اور ان منافقوں کے معاملہ میں ان نسلی و نسبی اور معاشرتی تعلقات کا لحاظ نہ کریں جو ان کے اور ان کے درمیان وابستگی کے موجب بنے ہوئے تھے۔ وہاں ان کے خلاف ”جہاد“ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں اس سے شدید تر لفظ ”قتال“ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ان کا پوری طرح قلع قمع کردیا جائے، کوئی کسر ان کی سرکوبی میں اٹھا نہ رکھی جائے۔ وہاں ”کفار“ اور ”منافق“ دو الگ لفظ بولے گئے تھے، یہاں ایک ہی لفظ ”کفار“ پر اکتفا کیا گیا ہے، تاکہ ان لوگوں کا انکار حق، جو صریح طور پر ثابت ہوچکا تھا، ان کے ظاہری اقرار ایمان کے پردے میں چھپ کر کسی رعایت کا مستحق نہ سمجھ لیا جائے۔ سورة التَّوْبَة 122 یعنی اب وہ نرم سلوک ختم ہوجانا چاہیے جو اب تک ان کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ یہی بات رکوع 10 کی ابتدا میں کہی گئی تھی وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔ سورة التَّوْبَة 123 اس تنبیہہ کے دو مطلب ہیں اور دونوں یکساں طور پر مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ ان منکرین حق کے معاملے میں اگر تم نے اپنے شخصی اور خاندانی اور معاشی تعلقات کا لحاظ کیا تو یہ حرکت تقوی کے خلاف ہوگی، کیونکہ متقی ہونا اور خدا کے دشمنوں سے لاگ لگائے رکھنا دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، لہٰذا خدا کی مدد اپنے شامل حال رکھنا چاہتے ہو تو اس لاگ لپٹ سے پاک رہو۔ دوسرے یہ کہ یہ سختی اور جنگ کا جو حکم دیا جا رہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ساتھ سختی کرنے میں اخلاق و انسانیت کی بھی ساری حدیں توڑ ڈالی جائیں۔ حدود اللہ کی نگہداشت تو بہرحال تمہاری ہر کارروائی میں ملحوظ رہنی ہی چاہیے۔ اس کو اگر تم نے چھوڑ دیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے۔
Top