Tafseer-e-Haqqani - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے ایمان والو ! اپنے آس پاس کے کفار سے لڑو اور چاہیے کہ ان کو تم میں کر ارا پن معلوم ہو اور معلوم رہے کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے
ترکیب : من الکفار الذین کا بیان غلظہ بکسر الغین وضمھا مفعول بعدوا فمنہم خبر من مبتداء جملہ جواب اذا ما ایمانا تمیز ہے زادت سے۔ ہل یَرٰکم ای یقولون ھل یری من انفسکم۔ رسول کی صفت اول عزیز ‘ علیہ ما عنتم صفت ثانی حریص علیکم صفت ثالث بالمؤمنین رؤف رحیم صفت رابع۔ تفسیر : ان قوانینِ آسمانی کا ذکر فرما کر اور مسلمانوں کو آیندہ تخلف سے منع کرکے عام جہاد کا حکم دیتا ہے اور قریب والوں سے شروع کرتا ہے کہ پہلے پاس والوں سے پھر اوروں سے رفتہ رفتہ سب سے لڑو قاتلوا الذین یلونکم اور چونکہ اس کام کے لیے سختی اور بہادری بھی شرط ہے۔ اس لئے فرماتا ہے ولیجدوا فیکم غلظۃ کہ ذرا کر ارا پن بھی دکھائو۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت ایسے تاریک زمانہ میں ہوئی تھی کہ روئے زمین پر کفر و بدکاری کی کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اور صدہا بنی آدم کا مزاج فطرتی بگڑ گیا تھا۔ ان میں اصلاح کی قابلیت ہی نہ رہی تھی۔ ان کا وجود اس قابل تھا کہ نیست و نابود کردیا جائے۔ وہ شجر پُر زہر کشت بنی آدم سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاوے اور ایسے زمانہ کے اگلے انبیاء عیسیٰ و موسیٰ ( علیہ السلام) خبر دیتے چلے آئے تھے۔ اسی وجہ سے خدائی جہاد کا جھنڈا بلند کیا کہ حتی المقدور سمجھا جاوے اور جن میں مادہ اصلاح نہ ہو ان سے دنیا کو صاف پاک کردیا جاوے۔ اس کام کا لشکر آنحضرت ﷺ کی قوم قرار پائی اور جنگ و قتال میں کبھی شوکت و غنیمت کا بھی خیال ہوتا ہے جو منشائِ الٰہی کے برخلاف ہے۔ اس لئے فرمایا کہ اعلموا ان اللّٰہ مع المتقین اور تقویٰ ایک بڑا وسیع المعنی لفظ ہے جس میں ہر قسم کی منہیات سے بچنے کی طرف اشارہ ہے لیکن ان سب میں بڑھ کر نفاق ہے۔ خصوصاً لشکر میں شمار ہو کر اور اس دفتر میں نام لکھوا کر اس لئے واذا ما انزلت سے لے کر بانہم قوم لایفقہون تک نفاق اور منافقین کی مذمت اور ان کی بیہودہ حرکات کا ذکر فرمایا گیا کہ لوگوں کو متنبہ کردیا اور نفاق کا منشاء یہی تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو عادات خوردو نوش جملہ انسانی باتوں میں اپنے مانند دیکھ کر باوجود معجزات دیکھنے کے آپ کی نبوت اور وحی میں شک کرتے تھے جو محض حماقت تھی۔ جیسا کہ لایفقہون میں اشارہ ہے۔ اس لئے اس سورة کے خاتمہ پر آنحضرت ﷺ کے چند اوصاف حمیدہ ذکر فرمائے جن سے شک جاتا رہے : (1) من انفسکم یعنی تمہیں میں کا رسول تمہارے پاس بھیجا جس کے حالات صدق و امانت و عفاف و صیانت ابتداء کی عمر سے تمہیں معلوم ہیں۔ کوئی غیر نہیں کہ جس سے واقف نہ ہوں اور نیز یہ کہ تمہارے ملک تمہاری قوم کا شخص ہے جو تمہارے لئے فخر اور رحمت ہے۔ انفس نفیس سے بھی لیا ہے یعنی تم سب میں سے افضل و اشرف۔ (2) عزیز علیہ ماعنتم کہ تمہارا دلی دردمند ‘ خیرخواہ (3) حریص علیکم تمہاری بھلائی چاہنے کا نہایت خواہش مند کہ دنیا و آخرت کی خوبی تمہیں پہنچائے۔ (4) بالمؤمنین رؤف رحیم کہ وہ مسلمانوں پر نہایت نرم اور مہربان ہے۔ فان تولوا پس اگر اس پر بھی نہ مانیں تو کہہ دو کہ مجھے تمہاری کچھ پروا نہیں۔ حسبی اللّٰہ مجھے اللہ کافی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس پر میرا بھروسہ ہے اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔
Top