Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
ایمان والو ! لڑو تم ان کافروں سے جو تمہارے آس پاس ہیں، اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر ایک سختی (اور صلابت) پائیں، اور یقین جانو کہ اللہ ساتھ ہے پرہیزگاروں کے،3
220 کفار سے جہاد کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا " ایمان والو ! تم لڑوان کافروں سے جو تمہارے آس پاس ہیں کہ اقرب فالاقرب کے طبعی اور فطری اصول و ضابطہ کا تقاضا یہی ہے چناچہ اسی حکم وارشاد کے مطابق نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں سب سے پہلے مدینہ میں رہنے والے یہودی قبائل بنوقینقاع، بنوقریظہ، اور بنونظیر سے جہاد فرمایا اس کے بعد یہودخبیر سے۔ اور اس طرح آس پاس کے جہاد سے فراغت کے بعد آپ نے سب سے آخر میں رومیوں سے جہاد کرنے کے لیے غزوہ تبوک کا سفر فرمایا اور پھر اس کے بعد حضرات صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان جزیرہ نمائے عرب سے نکل کر مشرق ومغرب میں پھیل گئے اور انہوں نے ہر طرف اسلام کا پھریرا لہرادیاسو اس سورة کریمہ کے آخر میں یہ آیت کریمہ دراصل اس پوری سورة کریمہ کے اصل مضمون کا خلاصہ ہے۔ سو کفار و مشرکین پر اتمام حجت ہوجانے کے بعداول تو ان لوگوں سے اعلان براءت فرمایا گیا اور اب یہ اس کے آخر میں ان دشمنوں کے خلاف اعلان جنگ ہے اور یہی دین حنیف کا اصل مطالبہ ہے جو اہل ایمان کے سامنے رکھ دیا گیا تاکہ اس طرح شر و فساد کی قوتوں کا قلع قمع کیا جاس کے اور دین حق کی راہ میں موجود رکاوٹوں کا ازالہ کیا جاس کے تاکہ دین حق غالب ہو کر رہے۔ اور اس طرح خلق خدا کا بھلا اور فائدہ ہوسکے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی اور یہ عظیم الشان مقصد اور اس کا حصول اس دین حنیف کے بغیرممکن نہیں۔ 221 پرہیزگاروں کے لیے معیت خداوندی کا مژدہ جانفزا : سو ارشاد فرمایا گیا اور ادوات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ یقین جانو کہ اللہ ساتھ ہے پرہیزگاروں کے۔ یعنی وہ ان کے ساتھ ہے اپنی حمایت اور نصرت ومدد کے اعتبار سے۔ اور جب معیت خداوندی کا یہ شرف واعزاز تمہیں حاصل ہے اے ایمان والو ! تو پھر تمہیں اور کسی کی کیا کوئی پرواہ ہوسکتی ہے ؟ پس تم تقوی و پرہیزگاری کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ جانے دینا کہ یہی تمہاری اصل قوت اور وسیلہ فتح وظفر ہے ورنہ ظاہری اسباب و وسائل اور مادی قوت کے اعتبار سے تمہارے دشمن تم سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمانوں نے تقوی کے اس باطنی اسلحہ اور حقیقی قوت کو پوری طرح اور صحیح طور پر اپنایا تو فتح وظفرنے ہمیشہ ان کے قدم چومے۔ اور اس کی تازہ مثال ہمارے سامنے جہاد افغانستان کی ہے جس سے نہ صرف یہ کہ روس جیسی شیطانی سپرپ اور نے شکست کھائی بلکہ اس کا وجودہی صفحہ ہستی سے مٹ گیا اور ایسا کہ اس جہاد سے پہلے اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ پھر اس کے بعداسی ارض افغانستان میں طالبان تحریک نے تقوی و پرہیزگاری کے اسی اسلحہ کے بل بوتے پر جو بیمثال انقلاب برپا کیا اس نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ سو تقوی و پرہیزگاری کی قوت بےمثال اور لازوال قوت ہے۔ اللہ تمام اسلامیان عالم کو نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔
Top