Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے ایمان والو، تمہارے گرد و پیش جو کفار ہیں ان سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تمہارے رویہ میں سختی محسوس کریں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ۔ یہ آیت پوری سورة کے اصل مضمون کا خلاصہ ہے۔ اس سورة میں، جیسا کہ آپ نے دیکھا، کفار و مشرکین پر اتمام حجت ہوچکنے کے بعد ان سے اعلانِ براءت اور ان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ آیات 23۔ 24 کے تحت یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ منافقین اپنے پاس پڑوس کے کفار و مشرکین سے عزیزانہ و دوستانہ روابط اور دوسرے کاروباری مفادات وابستہ رکھنے کے سبب سے، اس بات کے لیے تیار نہیں تھے کہ ان سے جنگ کریں یا اپنے تعلقات ان سے یک قلم ختم کرلیں۔ ان کی اس منافقت کی اچھی طرح قلعی کھولنے اور ایمان، تقوی اور صداقت کے حقیقی مقتضیات تفصیل سے واضح کردینے کے بعد اب یہ دین کا اصل مطالبہ ان کے سامنے پھر رکھ دیا گیا ہے۔ خطاب اگرچہ عام ہے لیکن قرینہ پتہ دے رہا ہے کہ روئے سخن ان ہی کی طرف ہے۔ فرمایا کہ قاتلوا الذین یلونکم من الکفار یعنی جو کفار تمہارے پاس پڑوس اور گردوپیش میں ہیں ان سے جنگ کرو۔ گرد و پیش کے کفار جس طرح تمہاری دعوت ایمان و ہدایت کے سب سے زیادہ حق دار تھے اسی طرح اب، اللہ اور رسول کی طرف سے اتمام حجت اور اعلانِ جنگ کے بعد، تمہاری تلواروں کے بھی سب سے زیادہ سزاوار یہی ہیں، جو لوگ قرابت داری، دوستی اور اپنے دنیوی مفاد کی خاطر ان کے معاملے میں مداہنت برتیں گے، وہ جیسا کہ آیت 23 میں فرمایا ہے، اپنی جانوں پر سب سے زیادہ ظلم ڈھانے والے ٹھہریں گے اور انہی کے لیے آیت 24 میں یہ وعید ہے کہ تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے باب میں اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ یہ حقیقت ایک سے زیادہ مقامات میں واضح کی جا چکی ہے کہ ایمان و اخلاص کی اصل روح اس وقت بیدار ہوتی ہے جب اس کی خاطر اپنوں سے جنگ کرنی پڑے۔ یلونکم، کی قید اسی پہلو کو نمایاں کر رہی ہے۔ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ، یعنی اب وہ تمہارے طرز عمل سے یہ محسوس کرلیں کہ تمہارے اندر ان کے لیے موالات، دوستی اور محبت کی کوئی جگہ باقی نہیں رہ گئی ہے بلکہ جس طرح وہ من حیث القوم تمہارے اور تمہارے دین کے دشمن ہیں اسی طرح تم بھی من حیث الجماعت ان کے اور ان کے دین کے دشمن بنو۔ اب تک وہ تمہارے دل میں اپنے لیے بڑا نرم گوشہ پاتے تھے، اس وجہ سے ان کو توقع تھی کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے تم کو برابر استعمال کرتے رہیں گے۔ اب یہ حالت یک قلم ختم ہوجانی چاہیے۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ، کے یہاں دو پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اہل ایمان کی حوصلہ افزائی ہو۔ یعنی تم ان سے جنگ کرنے میں کوئی کمزوری و پست ہمتی نہ دکھاؤ۔ اللہ کی معیت و نصرت اس کے متقی بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ اگر تم تقوی پر قائم رہے تو فتح و نصرت تمہاری ہی ہے، یہ لوگ ذلیل و خوار ہوں گے۔ یہ بات ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ خدا کی معیت اس کی نصرت کو بھی مستلزم ہے۔ اس وجہ سے خدا کے ساتھ ہونے کے معنی اس کی مدد و نصرت کے ساتھ ہونے کے ہیں۔ دوسرا یہ کہ مسلمانوں کو تنبیہ ہو کہ تمہیں ان سے جنگ اور ان کے معاملے میں شدت اختیار کرنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے تو اس میں بھی تم خدا کے مقرر کردہ حدود وقیود کی پوری پابندی کرنا، کسی مرحلے میں بھی حدود الٰہی سے تجاوز نہ کرنا، اللہ صرف اپنے متقی بندوں ہی کا ساتھی ہے۔ پیچھے یہ ہدایات گزر چکی ہیں کہ جو کفار و مشرکین اپنے معاہدات پر قائم ہیں ان کے معاہدات کی مدت پوری کی جائے نیز محترم مہینوں کا احترام ملحوظ رکھا جائے۔ یہ انہی باتوں کی تاکید مزید ہے۔
Top