Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
(اے ایمان والو جنگ کرو ان کافروں سے جو تم سے قریب ہیں اور چاہیے کہ وہ تم میں سختی پائیں اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً ط وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ اْلمُتَّقِیْنَ (التوبہ : 123) (اے ایمان والو جنگ کرو ان کافروں سے جو تم سے قریب ہیں اور چاہیے کہ وہ تم میں سختی پائیں اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے۔ ) پیشِ نظر آیت کریمہ سورة التوبہ کے آخری رکوع کی پہلی آیت ہے۔ اس میں جو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ وہ سورة التوبہ کے تمام مضامین کا حاصل ہیں اور مزید بر آں یہ کہ رکوع نمبر 10 سے جو مضمون شروع ہوا تھا یہ آیت اس مضمون کا اختتام ہے۔ سورة التوبہ 9 ہجری میں اس وقت نازل ہوئی ہے جب اسلامی انقلاب اور اسلامی دعوت فتح ِمکہ کے بعد جزیرہ عرب کی حد تک اپنے اتمام کو پہنچ رہی ہے۔ جزیرہ عرب اس دعوت اور انقلاب کا بیس اور مرکز بن چکا ہے۔ اِسلامی قوت اس مرکز میں اپنی طاقت کی مضبوطی اور پائوں جمانے کی فکر میں ہے۔ پروردگار یہ چاہتا ہے کہ جزیرہ عرب میں اسلامی نظام اور اُمتِ مسلمہ کو ایسا استحکام مل جائے۔ جس کے بعد اس انقلاب کو عرب سے باہر برآمد کرنا آسان ہوجائے اور خود مرکز کے اندر کمزوری کی کوئی تشویش باقی نہ رہے۔ اس مقصد کے لیے سورة التوبہ میں ان تمام قوتوں کو یکسو ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ جو ابھی تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تدبیریں کرنے میں مصروف تھیں۔ تمام کفار اور مشرکین کو حکم دے دیا گیا کہ وہ اسلام قبول کرلیں یا جزیرہ عرب سے نکل جائیں۔ ورنہ ان کو قتل کردیا جائے گا۔ ان کے لیے یہ رعایت بھی نہیں رکھی گئی کہ وہ ذمی بن کر اسلامی حکومت کے شہری بن کر رہ سکیں۔ اہل کتاب کو اگرچہ ایک مدت تک اسلامی حکومت میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے دنیا سے جاتے ہوئے وصیت فرمائی کہ جزیرہ عرب میں دو دین جمع نہ ہونے پائیں۔ منافقین کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش کریں۔ ایک مدت تک ان کو نصیحت اور فہمائش سے راہ ِ راست پر لانے کی کوشش کی گئی۔ بالآخر رکوع نمبر 10 میں آنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا کہ اللہ کے اس فیصلے کو مکمل طور پر نا فذ کرنے کے لیے کفار اور منافقین سے جہاد کریں اور اس کے ساتھ ساتھ منافقین کے بارے میں اپنا رویہ سخت کرلیں۔ آنحضرت ﷺ پر چونکہ رحمت کا غلبہ رہتا تھا۔ اس لیے منافقین آپ کی رحمت اور شفقت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے۔ اس لیے آپ کو حکم دیا گیا کہ یہ منافق لوگ آپ کی رحمت اور شفقت کے مستحق نہیں۔ جس طرح آپ کافروں سے جہاد کرتے ہیں۔ اسی طرح منافقین سے بھی جہاد کریں اور آپ کا رویہ اور آپ کا سلوک نرمی کی بجائے سختی میں تبدیل ہوجانا چاہیے۔ اس آیت میں کافروں کا الگ ذکر فرمایا اور مو منوں کا الگ۔ نیز رویہ کو سخت کرنے کا حکم صرف آنحضرت صلی ﷺ کو دیا گیا مسلمانوں کو نہیں اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ آپ کو ان کافروں اور منافقین سے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جو قتال سے وسیع معنی کا حامل ہے۔ جس میں دعوت، نصیحت اور فہمائش سب کچھ شامل ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ قتال تک بھی نوبت پہنچے۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں چند تبدیلیاں نظر آرہی ہیں۔ 1 جہاد کی بجائے قتال کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منافقین اب مزید دعوت اور نصیحت کے قابل نہیں رہے۔ ان پر اتمامِ حجت ہوچکا۔ ان کے نفاق نے بہت حد تک گھونگھٹ الٹ دیا ہے۔ اس لیے اب جہاد کی ابتدائی کو ششوں کو چھوڑ کر اس کی آخری صورت قتال پر عمل کیا جائیگا۔ 2 اس آیت میں کفار کے ساتھ منافقین کا ذکر ختم کردیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منافق حقیقت میں تو کافر ہی ہوتے ہیں۔ لیکن انھیں چونکہ مومن کہلانے پر اصرار ہوتا ہے۔ اس لیے پر ور دگار بھی انہیں کافر نہیں کہتا لیکن اب جبکہ انھوں نے سارے نقاب اٹھا دیے ہیں۔ اس لیے انہیں صاف صاف کفار کے لفظ سے یاد فرمایا جا رہا ہے۔ 3 رکوع نمبر 10 میں آنحضرت ﷺ کو اپنا رویہ سخت کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس آیت میں تمام مسلمانوں سے فرمایا جارہا ہے کہ تم منافقین کے ساتھ ایسا رویہ رکھو جس میں وہ سختی اور غلظت محسوس کریں۔ انھیں اندازہ ہوجائے کہ اب مسلمانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ان تبدیلیوں سے صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ہدایات اسلامی انقلاب اور مرکز اسلام کو ایسی قوت اور وحدت دینے کے لیے عطا کی جا رہی ہیں۔ جس میں فکری یکسوئی بھی ہو اور سیاسی توانائی بھی۔ جس میں مسلمانوں کو اجتماعی فیصلے کرنے میں کوئی دشواری پیدا نہ ہو۔ اِسلامی معاشرہ کا ایک ایک فرد اپنی سوچ اور عمل میں ایسی ہم آہنگی رکھتا ہو کہ نہ سوچ میں پراگندگی پیدا ہو اور نہ عمل میں ناتوانی۔ یہ ایک ایک فرد جب اجتماع کی شکل اختیار کرے تو اس کی سوچ اور عمل کی قو تیں اجتماعی قوت کی بنیاد بن جائیں۔ ان ابتدائی اور استعدادی قوتوں کی فراہمی کے بعد حکم دیا گیا کہ اب ان منافقین سے قتال کرو اور اس میں ایک ترتیب رکھو مقصود چونکہ مرکز اسلام کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانا ہے۔ اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ لڑائی کا دائرہ پھیلنے نہ پائے۔ جب تک ایک قدم مضبوطی سے رکھ نہ لیا جائے دوسرا قدم نہ اٹھایا جائے۔ اس لیے جو تمہارے قریب اور آس پاس کفار موجود ہیں سب سے پہلے ان کے ساتھ قتال کرو۔ ویسے بھی دیکھا جائے کہ ایک نو زائیدہ مملکت جس کی حقیقی قوت صحیح فکر اور عمل صالح ہے۔ وہ جس طرح اپنے اندر نفاق برداشت نہیں کرسکتی اسی طرح وہ اپنے آس پاس کفر کی گندگی کی بھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اگر ان میں فکری کجروی ہوگی۔ تو مسلمانوں کے ساتھ میل جول سے اس کا تدارک ہو سکے گا اور اگر ان کے ارادوں میں خرابی ہوگی۔ تو مسلمانوں کی قوت اور ان کا مضبوط رویہ انھیں صحیح راستہ دکھانے کے لیے کافی ہوگا۔ اسی سے اہل علم نے یہ سمجھا ہے کہ جس طرح کفار کی ہدایت کی سب سے پہلے ذمہ داری ان لوگوں پر ہے۔ جو ان کے ہمسایہ میں رہتے ہیں اور صاحب ایمان ہیں۔ اسی طرح کفار کی سرکشی اور ان کی قوت کے دفاع کی ذمہ داری بھی سب سے پہلے ان مسلمانوں پر ہے جو ان کے قریب رہتے ہیں یا جن کے ملک پر کافروں نے حملہ کردیا ہے اور اس ملک کے رہنے والے اگر اپنی قوت کے بل بوتے پر دفاع کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔ تو جو مسلمان ان کے ہمسائے ہیں ان پر جہاد و قتال فرض ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ ذمہ داری درجہ بہ درجہ پھیلتی جاتی ہے۔ اگر مسلمانوں کی ایک محدود تعداد یا کوئی ایک ملک مسلمانوں کی دفاعی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوجائے تو باقی مسلمان اس ذمہ داری سے فارغ ہوجائیں گے اور اگر کسی نے بھی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش نہ کی تو قیامت کے دن سب مسلمان پکڑے جائیں گے۔ کیونکہ جہاد اور قتال ایسی صورت ِ حال میں جب کے تمام مسلمانوں کی شرکت اس میں ضروری نہ ہو۔ اسے فرضِ کفا یہ کہتے ہیں۔ یہ فرض بقدر ضرورت مسلمانوں کے ادا کرنے سے سب کی طرف سے ادا ہوجاتا ہے۔ آج مسلمان مختلف ملکوں میں اسی فرض کی ادائیگی کے لیے مسئول ہیں۔ کشمیر کی جنگ ہو یا افغانستان کی۔ چیچنیا کا معرکہ ہو یا فلسطین کا جہاں جہاں بھی ظالم قوتوں نے پنجے گاڑ رکھے ہیں اور مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ پوری امت ِ مسلمہ ان کی مدد کرنے کی ذمہ دار ہے۔ البتہ سب سے پہلے ان لوگوں پر ذمہ داری ہے جو ان کے ہمسائے میں رہتے ہیں۔ اگر انھوں نے اپنی ذمہ داری ادا نہ کی تو پھر یہ درجہ بہ درجہ ایک ترتیب کے ساتھ آگے پھیلتی جائے گی اور پوری امت سے اس کا حساب طلب کیا جائے گا۔ بعض اہل علم نے اس آیت کا ایک اور مطلب سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت میں خطاب عام مسلمانوں سے نہیں بلکہ منافقین سے ہے۔ ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تمہارے نفاق کا اصل سبب یہ ہے کہ تم نے ہمیشہ اپنے کافر عزیزوں اور دوستوں کو اسلام پر ترجیح دی ہے۔ تمہیں ان کا تعلق اسلامی رشتہ سے زیادہ عزیز ہے۔ اس لیے تم کو حکم دیا جارہا ہے کہ تمہارے عزیزوں میں جو لوگ اب تک کافر ہیں ان سے قتال کرو۔ کیونکہ اللہ کے ساتھ اخلاص ثابت کرنے کے لیے اس سے بڑا ذریعہ کوئی نہیں کہ وہ اپنی تمام قرابت داریوں اور رشتوں کو اللہ کے رشتہ پر قربان کر دے۔ جنگ بدر اسلامی تاریخ میں سب سے اہم غزوہ ہے اور اس میں شریک ہونے والوں کو آنحضرت ﷺ نے نجات کی خوش خبری دی ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کے رشتے پر تمام رشتے قربان کردیئے تھے۔ دونوں فوجیں جب آمنے سامنے ہوئیں تو مسلمانوں نے دیکھا کہ ان کے اپنے جگر گوشے ہی ان کی تلواروں کی زد میں ہیں۔ حضرت ابوبکر نے دیکھا کہ ان کے صاحب زادے کافروں کی صف میں کھڑے ہیں۔ حضرت عمر فاروق کے ماموں دوسری طرف آمادہ پیکار ہیں۔ حضرت حذیفہ کے والد، چچا، بھائی مبا رزت طلب کر رہے ہیں۔ اس طرح سے اپنے خونی رشتے امتحان بن کر کھڑے تھے لیکن مسلمانوں نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر تمام علائق توڑ ڈالے اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ہمیں اللہ کے رشتے کے سوا کوئی رشتہ منظور نہیں۔ اس آیت میں منافقین سے بھی یہ کہا جا رہا ہے اگر تم صاحب ایمان ہو تو اپنے عزیزوں کو جو کافروں کی صف میں کھڑے ہیں تہِ تیغ کر ڈالو۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ تم اللہ کی محبت اور اس سے وفا میں سچے ہو اور تمہارے ایک ایک عمل سے اس کا اظہار ہو کہ کافروں کے لیے چاہے وہ کتنے بھی قریبی کیوں نہ ہو تمہارے دل میں کوئی جگہ نہیں۔ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ اْلمُتَّقِیْنَ ترجمہ : اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے۔ اس کے تین مفہوم ہیں : 1 خطاب منافقین سے ہے ان سے یہ کہا جارہا ہے کہ تمہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی معیت سے صرف وہ شخص سرفراز ہوتا ہے جس کے قلبی تعلقات صرف اللہ سے وابستہ ہوں۔ وہ ہر معاملے میں اللہ کو یاد رکھتا ہو اسی کے احکام پر چلتا ہو۔ اسی سے اپنے دل کو آباد رکھتا ہو اور اگر کسی اور محبت کا اللہ سے محبت کے ساتھ تصادم ہوجائے۔ تو وہ اللہ کی محبت کے مقابلے میں کسی اور کو پر ِکاہ کے برابر بھی حیثیت دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ تمہارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تم آج تک اللہ اس کے رسول اور اس کے دین کے حوالے سے یکسو نہیں ہو سکے تم نام اسلام کا لیتے ہو لیکن تمہاری ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ تمہاری ترجیحات کچھ اور ہیں۔ تم دعوی اسلام کا کرتے ہو لیکن تمہارے دلوں کی دھڑکنیں دشمناں دین کے لیے مضطرب ہوتی ہیں۔ تمہارے لیے یہ معمولی بات سمجھنا مشکل ہوگیا ہے کہ اللہ اور اس کے دشمنوں سے یکساں تعلق نہیں رکھا جاسکتا۔ اللہ کا رسول ان کے خلاف مصروف جنگ ہے اور تم ان سے پینگیں بڑھانے سے رک نہیں سکتے۔ ایسی صورت حال میں تم خود دیکھو کہ تم کس دھڑے کے آدمی ہو۔ جب تک تم پوری طرح اللہ اور اس کے دین سے وفا داری کا حق ادا نہیں کرتے اس وقت تک تم متقی نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ متقی اسی شخص کو کہتے ہے جو ہر طرف سے اپنے قلبی احساسات اور رجحانات صرف اللہ اور اس کے دین کے لیے وقف کر دے۔ 2 دوسرا مفہوم اس جملے کا یہ ہے کہ اس میں خطاب مخلص مسلمانوں سے ہے۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب جب کہ اسلامی ریاست قائم ہوچکی۔ اِسلامی معاشرہ بن چکا۔ تمہیں پوری نوع انسانی کی ہدایت کے لیے چن لیا گیا۔ اب تمہارے سامنے دین کے دشمنوں کی ایک وسیع دنیا ہے۔ ان میں سے ہر گروہ ہر قبیلہ اور ہر ملک تمہیں مٹا دینے کے لیے پر تول رہا ہے۔ تم ایک ایسے معرکہ میں کھڑے ہو جس میں تمام دنیا سے تمہیں مقابلہ ہے۔ ان کی تعداد اور ان کے وسائل کو دیکھ کر یقینا تمہیں پریشانی ہوتی ہوگی لیکن یاد رکھو قوت کا سرچشمہ انسان نہیں بلکہ انسانوں کا خالق ہے۔ وہی ایک ذات ہے جسے قادر مطلق کہا جاتا ہے۔ تم اسی کے فوج دار ہو۔ تم نے اپنی تمام تر صلاحیتیں آج تک اسی کے لیے صرف کی ہیں تم نے ہر طرف سے منہ پھیر کر اسی کو اپنا قبلہ مقصود بنایا ہے۔ وہ تم کو خوش خبری سناتا ہے کہ اس کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ وہ متقیوں کا ساتھ دیتا ہے۔ جو اس کے ہوجاتے ہے وہ بھی ان کا ہوجاتا ہے۔ آج بھی تمہاری کامیابیوں کی یہی ضمانت ہے۔ تم اپنے آپ کو اس کے حوالے کردو۔ اس کا دین پوری طرح انفرا دی اور اجتماعی زندگی پر نافذ کردو۔ اسی پر بھروسہ کرو اور اسی سے مدد چاہو پھر تم دیکھو گے کہ وہ کس طرح تمہارا ساتھ دیتا ہے اور کیسے مایوسی میں تمہارے لیے امید کی شمع روشن کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ اس کی معیت نام کی معیت نہیں ہوتی بلکہ وہ مدد اور نصرت کو مستلزم ہوتی ہے۔ ہر دور میں اس کے چاہنے والوں کو عزتیں ملی ہیں۔ اور ناگفتہ بہ حالات میں ان کی مدد کی گئی ہے اور آج بھی کوئی سننے والا ہو تو : یثرب سے اب بھی گونجتی ہے یہ صدا سنو وہ جو خدا کے ہوگئے ان کا خدا ہوا 3 تیسرا مفہوم اس جملے کا یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ تم اللہ کے حکم کے مطابق جب اپنے آس پاس کے کفار سے قتال کرو گے۔ تو ان کینہ ور دشمنوں کی دشمنیوں کا انتقام تم کو مشتعل نہ کرے۔ تم نے آستین کے ان سانپوں سے سالوں تکلیفیں اٹھائی ہیں اور انھوں نے ہمیشہ تمہارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ دیکھو اس سے تمہارے اندر کوئی ردعمل پیدا نہیں ہونا چاہیے جس طرح امن کے دور میں زندگی گزارنے کی اسلام نے ایک تہذیب دی ہے۔ اسی طرح اس نے جنگ کی بھی ایک تہذیب بخشی ہے۔ اسلام سے پہلے دشمن اور مخالف سے ہر طرح کا رویہ اختیار کرنا اور ہر طرح کی سزا دینا جائز سمجھا جاتا تھا اور اس معاملے میں کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ لیکن اسلام نے جنگ ہو یا امن ہرحال میں مسلمانوں کو اللہ کے احکام کا پابند اور اسلامی تہذیب کی حدود میں رہنے کا حکم دیا ہے اور حدود میں محدود رہنا اور کبھی بھی اللہ کے کسی حکم میں افراط وتفریط کا شکار نہ ہونا اسی کا نام تقوی ہے اور اسی تقوی کے حامل لوگوں کو متقین کہا گیا ہے اور ان کو یہ نوید سنائی جا رہی ہے کہ اللہ کی معیت اور اس کی نصرت اسی گروہ کے ساتھ ہوتی ہے جو تقوی کی دولت سے مزین رہتا ہے۔ اس لیے یہاں بھی حکم دیا گیا ہے کہ دیکھنا، کفار سے لڑائی میں اسلامی حدود میں سے کسی حد کو پار کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ عورتوں پر ہاتھ نہ اٹھانا جو مقابلے پر نہ آئیں انہیں قتل نہ کرنا۔ لاشوں کو مثلہ نہ کرنا۔ بچوں کو نقصان نہ پہنچانا۔ فصلیں نہ اجاڑنا۔ شدید ضرورت کے بغیر پھل دار درخت نہ کاٹنا۔ لڑائی کو ایک ضرورت سمجھنا اور اسے مقصد نہ بنانا۔ لڑائی جیسی ہیجان انگیزمصروفیت میں بھی انسانیت کا دامن تار تار نہ کرنا اگر تم نے اس طرح تقوی کو ملحوظ رکھا تو یقین جانو کہ اللہ کی معیت اور نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔
Top