Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 96
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَوَّلَ : پہلا بَيْتٍ : گھر وُّضِعَ : مقرر کیا گیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَلَّذِيْ : جو بِبَكَّةَ : مکہ میں مُبٰرَكًا : برکت والا وَّھُدًى : اور ہدایت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
بیشک اللہ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے البتہ وہ ہے جو بکہ (یعنی مکہ مکرمہ) میں ہے۔ برکت والا ہے۔ اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ : یہودیوں نے ملت ابراہیمی کی نسبت مسلمانوں پر دو سوال کیے تھے اول یہ کہ اگر اہل اسلام ملت ابراہیمی پر ہونے کے دعویدار ہیں ، تو پھر وہ اونٹ کا گوشت اور اونٹنی کا دودھ کیوں استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ ملت ابراہیمی میں یہ چیزیں حرام تھیں۔ اس سوال کا جواب گذشتہ آیات میں آچکا ہے۔ کہ یہ چیزیں ملت ابراہیمی میں حرام تھیں۔ صرف یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی نذر کی تکمیل میں از خود ان اشیاء کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ باقی سب لوگوں کے لیے حلال تھیں مگر آپکی اولاد نے بھی محض آپکی اتباع میں ان چیزوں کا استعمال ترک کردیا۔ یہ تو نزول تورات سے سینکڑوں سال پہلے کی بات ہے۔ البتہ تورات کے نازل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر بعض چیزیں ان کی نافرمانی اور شرارت کی وجہ سے حرام قرار دے دیں ، جس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے ، بکہ میں ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں ۔ یہاں بیت سے مراد مطلق گھر نہیں۔ بلکہ عبادت خانہ ہے اس بات کی تشریح مسلم شریف کی حدیث میں موجود ہے۔ حضرت ابو ذرغفاری ؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا ، حضور ﷺ سے دریافت کیا ، حضور ! زمین پر سب سے پہلے کونسا عبادت خانہ یا مسجد بنائی گئی۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا مسجد حرام جس میں بیت اللہ شریف واقع ہے۔ پھر ابوذر غفاری ؓ نے دریافت کیا۔ حضور ! دوسرے نمبر پر کونسی مسجد تعمیر ہوئی۔ ارشاد ہوا ، مسجد اقصی جو بیت المقدس ہے۔ پھر عرض کیا ، ان دونوں کے درمیان کتنا وقفہ ہے فرمایا چالیس 40 سال۔ یہ بات تو واضح ہے ۔ کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کی ، اور بیت المقدس حضرت سلیمان کے ہاتھوں تعمیر ہوا۔ اور ان دونوں انبیا کے درمیان ایک ہزار سال کا وقفہ ہے۔ لہذا حضور ﷺ کا چالیس 40 سال کا وقفہ بتانا کیسے ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ روئے زمین پر سب سے پہلا عبادت خانہ اللہ تعالیٰ نے آدم علہ السلام کے ہاتھوں سے بیت اللہ شریف کو تعمیر کرایا۔ جب آدم (علیہ السلام) زمین پر اترے تو انہیں وحشت ہوتی تھی اور وہ پریشان رہتے تھے۔ آپ کی اس وحشت کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ جس طرح فرشتے آسمانوں پر بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں اور وہاں پر عبادت کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ بھی زمین پر عبادت خانہ بنائیں ، جس کا لوگ طواف کریں۔ چناچہ آدم (علیہ السلام) نے زمین پر سب سے پہلے بیت اللہ شریف تعمیر کیا۔ اس کے چالیس سال بعد آپ نے شام کا سفر کیا تو وہاں پر بیت المقدس تعمیر کیا۔ اس طرح بیت اللہ شریف اور بیت المقدس کی تع میرات میں چالیس سال کا وقفہ ہے۔ اس کے بعد حوادث اور طوفان آتے رہے۔ اور یہ دونوں مقدس مقامات ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ، دونوں عمارات منہدم ہوگئیں۔ اس کے ہزاروں سال بعد بیت اللہ شریف کی دوبارہ تعمیر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں سے ہوئی۔ سورة حج میں موجود ہے۔ " واذبوانا لابراھیم مکان البیت " جب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے بیت اللہ شریف کی جگہ ٹھیک کردی۔ چناچہ یہ جگہ اس وقت سے آباد ہے۔ لہذا اولین عبادت خانہ بہت اللہ شریف ہی ہے۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) نے اسکا حج کیا ہے۔ اور یہی ملت ابراہیمی کا قبلہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن پر فرمایا کہ صرف بیت اللہ شریف کی طرف ہی اپنا رخ کرو۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ (رح) کے نزدیک حنیف وہ شخص ہے۔ جو نماز میں بیت اللہ شریف کا حج کرتا ہے۔ چناچہ قبلہ اول بیت اللہ شریف ہی ہے۔ یہی ملت ابراہیمی کا قبلہ ہے۔ بیت المقدس بھی قبلہ رہا ہے مگر اب نہیں ہے۔ ترتیب کے لحاظ سے وہ قبلہ ثانی تھا۔ وہ مکرم و محترم ہے۔ حضور ﷺ کی حدیث پاک میں جن تین مقدس مقامات کا ذکر آتا ہے ، وہ یہی ہیں ، مسجد حرام ، مسجد نبوی اور بیت المقدس یعنی مسجد اقصی۔ یہ تینوں مقامات ہدایات کے مرکز ہیں ، تاہم ان میں سے سب سے زیادہ محترم بیت اللہ شریف ہے۔ بکہ اور مکرمہ : بیت اللہ شریف جس شہر میں واقع ہے وہ عرف عام میں مکہ کہلاتا ہے جبکہ اس آیت کریمہ میں لفظ بکہ استعمال ہوا ہے۔ یہ دونوں نام اسی ایک ہی مقام کے ہیں۔ اس شہر کو ام القری ، بلدہ طیبہ ، بلد امین ، بلدۃ المامون اور بلد مقدسہ بھی کہتے ہیں۔ یربی زبان میں بکہ کے دو معنی آتے ہیں۔ اس کا معنی اجتماع ہے چونکہ یہاں پر لوگوں کا کثرت سے آنا جانا ہے۔ خصوصا ایام حج میں بہت بڑا ہجوم ہوتا ہے ، اس لیے اس کو بکہ کہتے ہیں۔ اس کا دوسرا معنی جھکانا ہے ، یا توڑنا ہے۔ امام بیضاوی (رح) اور بعض دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ یہ شہر تبک اعناق الجبارین یعنی جبارون کی گردنوں کو جھکانے والا ہے اور گردنوں کا جھکانا دو طریقوں سے ہوتا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے۔ کہ یہاں پر بڑے بڑے ملوک اور جبار گردنوں کو جھکا کر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور دوسری صورت یہ ہے۔ کہ جو کوئی اس مقدس مقام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی گردن توڑ دیتے ہیں۔ اصحاب فیل کا واقعہ قرآن پاک میں موجود ہے۔ ابرہہ نے ہاتھیوں کے ساتھ بیت اللہ پر چڑھائی کی ، اسکو گرانے کی کوشش کی ، تو اللہ تعالیٰ نے اسے وادی محسر سے آگے نہیں جانے دیا۔ مکہ سے تین میل باہر منی کے قریب اس لشکر کو ہلاک کیا۔ گویا بلکہ ان معانی میں بھی ہے۔ کہ جو کوئی اس کو نقصان پہنچانا چاہے اللہ تعالیٰ اس کی گردن توڑ دیں گے۔ بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے۔ حبشہ کا ایک ظالم بادشاہ جو سیاہ رنگ ، موٹی پنڈلیوں والا ، پست قد اور بڑا سنگدل ہوگا ، خانہ کعبہ کی عمارت کو گرائے گا۔ اس کے بعد پوری دنیا کا نطام درہم برہم ہوجائے گا اور وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گی۔ اس کے بید صور اسرافیل پھونکا جائے گا۔ گویا انہدام کعبہ دنیا کے آخری دور کی علامت ہوگا۔ قرآن پاک میں کعبہ شریف کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی گئی ہے۔ " جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیما للناس " اللہ تعالیٰ نے کعبہ شریف کو دنیا میں لوگوں کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔ جب تک خانہ کعبہ قائم ہے ، اس میں خدا تعالیٰ کی عبادت ہوتی رہے گی ، دنیا قائم رہے گی۔ اور حدیث شریف میں آتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا جب زمین میں اللہ اللہ کرنے والا کوئی نہیں رہے گا یقینا قیامت برپا ہوجائے گی۔ فضائل بیت اللہ شریف : فرمایا زمین پر سب سے پہلا عبادت خانہ مکہ مکرمہ میں ہے اور اس کے فضائل میں سے ایک ہے مبرکا وہ بڑا ہی بابرکت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں ظاہری اور باطنی تمام برکات رکھی ہیں۔ برکت کا معانی ایسی زیادتی ہے جس میں تقدس پایا جائے۔ حرم پاک میں ہر وقت خدا تعالیٰ کی تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ اور ہر عابد کو اس میں سے حصہ ملتا رہتا ہے۔ وہاں پر ادا کی جانے والی عبادت کا اجر وثواب دوسرے مقامات کی نسبت بیحد و حساب بڑھ جاتا ہے ابن ماجہ کی روایت کے مطابق وہاں پر ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہوتا ہے۔ صحیحین کی روایت کے مطابق ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز سے زیادہ ہوتا ہے۔ اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے باطنی طور پر اس مقام کو کتنی فضیلت بخشی ہے۔ لہزا یہودیوں کا یہ دعوی غلط ہے۔ کہ مسجد اقسی کی فضیلت مسجد حرام سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ظاہری طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کو بڑا بابرکت رکھا ہے۔ یہ مقام کثیر الخیر و المنفعت ہے۔ اس کے مکین خوش نصیب ہیں ، جن کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی " رب اجعل ھذا بلدا امنا وارزق اھلہ من الثمرات " اے مولا کریم ! اس شہر کو امن والا بنا دے اور اس کے مکینوں کو پھلوں سے روزی عطا فرما۔ اس دعا کی قبولیت کا ثمرہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ غیر ذرع وادی میں ہر چیز کی کتنی بہتات ہے۔ فرمایا مکہ مکرمہ بابرکت بھی ہے۔ وھدی للعلمین اور تمام جہانوں کے لیے ذریعہ ہدایت بھی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ لا تشد والرحال الا الی ثلثۃ مساجد کجاوے نہ کسے جائیں یعنی سفر اختیار نہ کیا جائے مگر ان تین مساجد کی طرف۔ اور وہ ہیں مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی۔ اس کا مطلب یہی ہے۔ کہ یہ تینوں مقامات مراکز ہدایت ہیں۔ تاہم ان میں خانہ کعبہ کو سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ اسی لیے وہاں پر عبادت کا ثواب بھی زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان کو وہاں پیدا کیا ، قرآن پاک کو وہاں نازل کیا اور مسلمانوں کی ابتدائی جماعت وہیں تیار کی ، جو اللہ کے دین کو پوری دنیا میں جاری وساری کرنے والی تھی۔ مکہ مکرمہ کے مرکز ہدایت ہونے کی مثال ایسی ہے۔ جیسے ماں کے پیٹ میں بچے کو ناف کے ذریعے خوراک بہم پہنچائی جاتی ہے۔ ناف جسم انسانی کا مرکز ہوتا ہے تو اس کے ذریعے بچے کو خوراک پہنچا کر اس کی نشونما کی جاتی ہے۔ اسی طرح بیت اللہ پوری دنیا کا مرکز ہے۔ اور اس کے ذریعے تمام بنی نوع انسان کو روحانی غذا پہنچائی جاتی ہے۔ فضائل بیت اللہ شریف میں ایک یہ بھی کہ یہ وسط البلاد ہے مکہ یا بکہ کا ایک معنی وسط بھی ہے۔ یہ پوری دنیا کا وسط ہے۔ محدث بیجوری (رح) فرماتے ہیں کہ جس آدمی کو نکسیر پھوٹتی ہو۔ اسکی نکسیر کا خون لے کر اسکی پیشانی پر لکھ دیا جائے۔ مکہ وسط البلاد واللہ رؤف بالعباد تو اللہ تعالیٰ اس کی نکسیر روک دیں گے۔ یہ مقام اس لحاظ سے بھی وسط البلاد ہے کہ زمین کی پیدائش سے پہلے ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ پھر بیت اللہ شریف کے مقام پر ایک بلبلہ سا پیدا ہوا اور اسی سے اللہ نے ساری زمین کو پھیلا دیا ، تو گویا زمین کی پیدائش میں مکہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اور یہ پوری دنیا کا سنٹر ہے۔ تاریخ تعمیر کعبہ : جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی۔ اور اس کی تجدید حضرت ابراہیم کے ذریعے سے ہوئی۔ اس کے بعد جرہم نے تعمیر کی۔ یہ حضرت ابراہیم کے سسرال کا خاندان ہے۔ پھر قوم عمالقہ کا ذکر ملتا ہے۔ اور اس کے بعد قریش نے حضور ﷺ کے اعلان نبوت سے پانچ سال قبل بیت اللہ شریف کی تعمیر کی جب اس کی چھت کمزور ہوچکی تھی۔ یہ وہی تعمیر ہے جس کے دوران حطیم کا حصہ خانہ کعبہ سے باہر نکالا گیا تھا۔ جو آج بھی اسی حالت میں ہے۔ اس کے بعد عبداللہ بن زبیر ؓ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ پھر عبدالملک بن مروان کے زمانے میں حجاج بن یوسف نے بئت اللہ کو گرا کر نئے سرے سے تعمیر کیا۔ اور پھر یہ آخری تعمیر ترکی عہد حکومت میں سلطان مراد کے زمانے میں ہوئی ، جو اب تک قائم ہے۔ البتہ موجودہ سعودی حکومت نے حرم شریف کی تعمیر میں گران قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ خانہ کہبہ کے گرداگرد ترکی عہد کے برآمدوں کے پیچھے بڑے وسیع برآمدے اور چاروں طرف سات بلند اور خوبصورت مینار تعمیر کیے ہیں۔ اب صفا اور مروہ کا پورا حصہ ساتھ شامل ہوچکا ہے۔ اس دو منزلہ عمارت کا فرش سنگ مرمر کا ہے جس پر دبیز قالین بچھائے گئے ہیں۔ آب زم زم کی فراہمی کے لیے جدید نظام قائم کیا ہے۔ حرم پاک میں روشنی کے لیے ٹیوب لائیٹس اور فانوس روشن ہیں۔ برقی پنکھے ہمہ وقت چلتے رہتے ہیں۔ اور لاؤڈ سپیکر کا مربوط نظام قائم ہے۔ اہل کتاب نے اس مقدس مقام کی فضیلت کم کرنے کی غرض سے اپنی ہی کتابوں میں تحریف کی ہے۔ زبور میں موجود ہے کہ خدا کے مقدس بندے وادی بکہ میں گزریں گے۔ وہاں پر پانی کے چشمے کا بھی ذکر ہے۔ اس سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسمائیل (علیہ السلام) ہیں۔ اور چشمہ سے مراد آب زم زم ہے۔ مگر انہوں نے بکہ کو بکا بنا دیا اور کہا کہ یہ وادی مکہ کا نہیں وادی بکا کا ذکر ہے۔ عربی زبان میں بکا کا مطلب رونا ہے اسی طرح ان کی کتابوں میں مروہ کا ذکر بھی ملتا ہے۔ کہ اس مقام پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کی قربانی دی۔ مروہ سے مراد تو وہی صفا اور مروہ پہاڑہاں ہیں۔ مگر انہوں نے اس لفظ کو بگاڑ کر موریا بنا دیا۔ یہ بھی ان کی تحریف کا اہک شاہکار ہے۔ مقام ابراہیم : فرمایا بیت اللہ شریف وہ مقدس مقام ہے فیہ ایت بینت جس میں واضح نشانیاں ہیں۔ منجملہ ان کے مقام ابراھیم مقام ابراہیم ہے۔ مقام ابراہیم کا ایک معنی تو یہ ہے۔ کہ اس جگہ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد اسمائیل (علیہ السلام) کے لیے اقمت گاہ بنایا۔ جیسا کہ سورة ابراہیم میں موجود ہے " ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد گیر ذی زرع عند بہتک المحرم " اے ہمارے پروردگار ! میں اپنی اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس بےآب وگیاہ زمین میں آباد کرتا ہوں۔ تاکہ وہ نماز قائم کریں ، تیری عبادت کریں اور دنیا کے دل وہاں کھینچے ہوئے آئیں۔ اور انہیں پھلوں سے روزی عطا فرما۔ تاکہ وہ تیرا شکر ادا کریں۔ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا تھی۔ جو حرف بحرف پوری ہوئی " اطعمھم من جوع و امنھم من خوف " اللہ نے انہیں بھوک سے نجات دی اور خوف سے امان بخشی۔ تو اس لحاظ سے اس میں بڑی واضح نشانیاں ہیں۔ عام مشہور یہ ہے۔ کہ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے۔ جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ شریف تعمیر کیا تھا۔ خانہ کعبہ کی دیواریں جوں جوں اونچی ہوتی جاتی تھیں۔ پتھر بھی خود بخود اوپر کو اٹھتا تھا۔ اور آپ اس پر کھڑے کھڑے تعمیر کا کام کرتے تھے۔ اس سخت پتھر پر اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاؤں کا نشان بھی نقش کردیا تھا ، جس کا مشاہدہ دنیا بھر کے لوگ آج تک کر رہے ہیں۔ پہلے یہ پتھر ایک دوسری عمارت میں بند کر کے رکھا گیا تھا۔ موجودہ حکومت نے اسکو شیشے میں بند کر کے باب رحمت کے سامنے مطاف میں رکھ دیا ہے۔ یہ دیکھنے والوں کو بخوبی نظر آتا ہے۔ سعودی حکومت نے شیشہ کا یہ خول 35 لاکھ ریال میں امریکہ سے خصوصی طور پر تیار کروایا تھا۔ بیک وقت دو خول بنائے گئے تھے ، تاکہ اگر ایک ٹوٹ جائے تو دوسرا وہاں رکھ دیا جائے۔ یہ خاص قسم کا شیشہ ہے جو موسمی اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔ بحرحال مقام ابراہیم اللہ تعالیٰ کی واضح نشانیوں میں سے ہے۔ فرمایا یہ ایسا متبرق و مطہر مقام ہے ومن دخلہ کان امنا جو شخص اس میں داخل ہوگا اسے امان حاصل ہوگی۔ امن سے مراد ظاہری اور باطنی دونوں امن ہیں۔ ظاہری امن تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قاتل ہو۔ یا کسی دوسری جنابت میں ملوث ہو اور وہ حرم شریف میں پناہ لے لے ، تو اس کو مارنے کی اجازت نہیں البتہ محدثین فرماتے ہیں کہ ایسے شخص سے میل جول اور اس کی خوراک پانی وغیرہ بند کر کے اسے باہر نکلنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر حرم سے باہر لے جا کر اس پر حد جاری کی جاسکتی ہے۔ بعض فرماتے ہیں۔ کہ اگر کوئی شخص وہاں پر بالفعل فساد کرے ، تو اس کا دفاع جائز ہے مگر اس سے بھی حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔ 1979 میں حرم شریف میں جو حادثہ پیش آیا ، اس کی وجہ سے حرم پاک کی بڑی بےحرمتی ہوئی۔ عام حالات میں اگر کوئی زیادتی کرتا ہے۔ تو حرم شریف کے تقدس کو ممکن حد تک بحال رکھنا چاہئیے۔ تاہم چونکہ ان فسادیوں نے حرم کے اندر اسلحہ جمع کیا۔ میناروں پر چڑھ کر گولیاں چلائیں ، تو پھر حکومت کو بھی ضروری کاروائی کرنا پڑی ، علمائے کرام نے فتوی دیا کہ حرم شریف کے اندر قتال کرنے والوں کا قلع قمع ضروری ہوگیا ہے چناچہ حکومت سعودیہ کو مجبورا ان کے خلاف کاروائی کرنا پڑی جس سے حرم پاک کا تقدس بحرھال مجروح ہوا۔ کیونکہ یہ جائے امن ہے۔ امن کی دوسری صورت باطنی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص وہاں داخل ہوگیا ، وہ دوزخ کی آگ سے مامون ہوگیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص مکہ یا مدینے کے حرم میں فوت ہوگیا ، کنت شفیعالہ میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا۔ بشرطیکہ ایسا شخص ایماندار ہو۔ فرضیت حج : بیت اللہ شریف کے مختصر تعارف کے بعد فرمایا وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر اس شخص پر بیت اس گھر کا حج فرض ہے جو اس کی طرف جانے کی استطاعت رکھتا ہو حضور ﷺ سے سوال کیا گیا ، استطاعت سے کیا مراد ہے۔ فرمایا " الزاد والرحلۃ " یعنی سواری اور توشہ۔ اس سفر پر جانے کے لیے سواری میسر ہو ، اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے اتنا سامان موجود ہو ، جو اس سفر مقدس کے عرصہ کے لیے کافی ہو ، تو ایسے شخص پر حج فرض ہوجاتا ہے۔ البتہ بعض فروعات میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ جس شخص کے پاس مال موجود ہے اس پر حج لازم ہے ، خواہ وہ ذاتی طور پر معذور ہو یعنی اپاہج ، اندھا یا بیمار ہے۔ اگر وہ خود چل کر حج نہیں کرسکتا۔ تو اسے لازم ہے کہ کسی دوسرے شخص کو حج بدل کے لیے بھجے۔ امام مالک (رح) کا مسلک یہ کہ مال کے علاوہ آدمی کا تندرست ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر وہ خود سفر اختیار کرنے سے معذور ہے ، تو حج ساقط ہوجائے گا۔ خواہ اس کے پا اس کتنا مال موجود ہو۔ امام اعظم (رح) فرماتے ہیں کہ حج کی فرضیت کے لیے مال اور جان دونوں لوازمات کا ہونا ضروری ہے۔ انسان صاحب مال بھی ہو اور تندرست و توانا بھی ہو ، تب حج فرض ہوتا ہے۔ کیونکہ حج مالی اور بدنی دونوں قسم کی عبادات کا مرکب ہے۔ لہذا استطاعت میں دونوں چیزیں شامل ہیں۔ اسی طرح عورت کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے اگر مھرم نہین ہے تو عورت پر حج فرض نہیں رہا۔ کہون کہ محرم کا ہونا حج کی شرائط میں داخل ہے۔ حضور ﷺ کے زمانے میں ایک شخص کی بیوی حج پر چلی گئی۔ خاوند کا نام مجاحدین کی فہرست میں شامل ہوچکا تھا اور وہ جہاد کی تیاری کر رہا تھا۔ نبی (علیہ السلام) کو خبر ہوئی تو اس شخص کو فرمایا حج مع امراتک جہاد کو ترک کر دے اور اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جا ایک دوسری حدیث میں حضور اکرم کا ارشاد گرامی ہے۔ جو عورت اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہے ، وہ اپنے خاوند یا محرم کے بغیر تین دن سے زیادہ کا سفر اختیار نہیں کرسکتی ، اور محرم وہ شخص ہوتا ہے جس کے ساتھ نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو ، جیسے باپ ، بیٹا ، بھتیجا ، بھانجا ، ماموں ، چچا ، تایا ، خسر وغیرہ۔ معرضین حج کے لیے وعید : فرمایا ومن کفر جو کوئی کفران کرے۔ اکثر مفسرین کرام نے یہی ترجمہ کیا ہے۔ کہ جو شخص استطاعت کے باوجود حج کرنے سے کفران کریگا فان اللہ غنی عن العلمین تو بیشک اللہ تعالیٰ جہان والوں سے بےنیاز ہے۔ کفران سے مراد مطلق کفران نعمت بھی ہے۔ خدا کے کسی حکم کی نافرمانی اور انکار شریعت پر بھی دلالت کرتا ہے تاہم یہاں مراد یہ ہے۔ کہ حج فرض ہوچکا ہے مگر ادا نہیں کرتا ، تو اللہ تعالیٰ کو ایسے شخص کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ایسے شخص کی عبادت کی اللہ کو ضرورت نہیں ہے۔ عبادت و ریاضت تو انسان اپنی ذات کی تکمیل کے لیے کرتا ہے۔ اللہ تو ہر حالت میں حمید ہے ، تعریفوں والا ہے ، وہ محمود اور غنی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص پر حج فرض ہے۔ اور وہ اس کے لیے کوشش نہیں کرتا ، درخواست نہیں دیتا ، تو ہماری طرف سے ایسا شخص یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر ، ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ایسے شخص کو کوئی حاوثہ پیش آجائے ، مال میں کمی ہوجائے یا کسی اور تکلیف میں مبتلا ہوجائے ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔
Top