Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 96
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَوَّلَ : پہلا بَيْتٍ : گھر وُّضِعَ : مقرر کیا گیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَلَّذِيْ : جو بِبَكَّةَ : مکہ میں مُبٰرَكًا : برکت والا وَّھُدًى : اور ہدایت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
بیشک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔ عالم والوں کے لیے برکت اور ہدایت کا مرکز۔
”بکہ“ کی تحقیق : ”بَکَّہ“ سے مراد مکہ ہے۔ قدیم صحیفوں میں اس کا یہی نام آیا ہے۔ لغوی معنی اس کے شہر کے ہیں مثلاً بعلبک (بعل کا شہر) یہود نے آخری بعثت کے نشانات گم کرنے کے لیے قراءت کے تور مروڑ یا بالفاظِ قرآن ”لَیِّ لِسان“ کے ذریعہ سے جو تحریفیں کی ہیں، ان کی ایک مثال یہ لفظ بھی ہے۔ اس کو یہود نے بگاڑ کر بکہ کے بجائے بکاء بنایا اور اس کو مصدر قرار دے کر ترجمہ اس کا رونا کردیا اور اس طرح وادی بکہ کو رونے کی وادی میں تبدیل کر کے اس سب سے بڑے نشان کو گم کردیا، (ملاحظہ ہو مزمور 84)۔ جس سے خلق کو آخری نبی کے بارے میں رہنمائی مل سکتی تھی۔ اس آیت میں قرآن نے مکہ کو بکہ کے نام سے ذکر کرکے مکہ کے اس قدیم نام کی یاد دہانی کی ہے جو تورات کے صحیفوں میں تھا۔ بلکہ بعض صحیفوں میں اب بھی ہے مثلاً زبور میں۔ (مولانا فراہی نے اپنی کتاب مفردات القرآن میں لفظ مکہ پر لکھا ہے۔ ”لوگوں نے اس لفظ کے اشتقاق کے بارے میں اختلاف کیا ہے لیکن اس امر میں شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ بکہ کی بدلی ہوئی صورت ہے چناچہ یہ لفظ خود قرآن میں آیا ہے۔ جس وقت حضرت اسماعیل اس وادی میں آباد کیے گئے ہیں اس وادی کا یہی نام تھا۔ اس کے معنی آبادی کے ہیں جیسا کہ لفظ بعلبک سے اس کی شہادت ملتی ہے۔ چونکہ حضرت ابراہیم بابل سے تشریف لائے تھے اس وجہ سے انہوں نے مکہ کے نام کے لیے اپنی زبان کا لفظ پسند فرمایا) اس آیت میں ان چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کی عبادت کا وہ گھر جو حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر فرمایا یہی مکہ کا بیت اللہ ہے۔ اسی گھر کو حضرت ابراہیم نے ملت ابراہیم کا مرکز بنایا اور اسی گھر سے ان کی مشہور دعا ”ربنا وابعث فیہم الایۃ“ کے بموجب اس پیغمبر کی دعوت بلند ہوئی، جو امیوں میں پیدا ہونے والے تھے اور جن کی دعوت سے ساری دنیا کو فیض پہنچنے والا تھا۔ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ میں اس بات کا اشارہ موجود ہے۔ یہ بات محتاج ثبوت نہیں ہے کہ تورات میں حضرت ابراہیم کے ہاتھوں جس بیت ایل (بیت اللہ) کی تعمیر کا ذکر ہے اس کا مصداق اگر کوئی ہوسکتا ہے تو مکہ کا بیت اللہ ہی ہوسکتا ہے نہ کہ بیت المقدس۔ اس لیے کہ بیت المقدس کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ کے سینکڑوں سال بعد حضرت داود اور حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ یہ اس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ یہ گھر ملت ابراہیم کی برکتوں کا مظہر ہوسکتا ہے نہ کہ بیت المقدس۔
Top