Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 96
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَوَّلَ : پہلا بَيْتٍ : گھر وُّضِعَ : مقرر کیا گیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَلَّذِيْ : جو بِبَكَّةَ : مکہ میں مُبٰرَكًا : برکت والا وَّھُدًى : اور ہدایت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ وہی ہے جو مکہ میں ہے بابرکت اور جہاں کے لئے موجب ہدایت۔
قال تعالیٰ ان اول بیت وضع للناس ببکۃ۔۔۔۔ تا۔۔۔ عن العالمین اب آیات میں یہود کے دوسرے شبہ کا جواب ذکر فرماتے ہیں کہ بیت المقدس خانہ کعبہ سے افضل ہے اور وہی تمام انبیاء کا قبلہ ہے تو اے مسلمانوں تمہارے نبی نے بیت المقدس کو چھوڑ کر خانہ کعبہ کو کیوں اپنا قبلہ بنایا حق جل شانہ نے ان آیات میں یہ بتلایا کہ خانہ کعبہ بیت المقدس سے افضل اور اشرف ہے لہذا اسی کو قبلہ بنانا بہتر ہے چناچہ فرماتے ہیں تحقیق پہلا گھر جو من جانب اللہ لوگوں کی عبادت کے لیے قبلہ مقرر کیا گیا وہ وہی مکان اور گھر ہے جو شہر مکہ میں ہے جس کو خانہ کعبہ بیت اللہ کہتے ہیں بڑی خیرو برکت ولاجس میں ایک نماز ادا کرنے سے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنما ہے کیونکہ سارے جہان کا قبلہ ہے اسی کی طر منہ کرکے سب نماز ادا کرتے ہیں اور خدا کی محبت میں اسی کا طواف کرتے ہیں اسی طرح یہ خانہ خدا خانہ ہدایت ہے جس سے قبلہ عبادت کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور بہشت کی راہ بھی یہیں سے نظر آتی ہے خود اس گھر میں اس کی فضیلت اور اول معبد ہونے کی اور قبلہ ابراہیمی ہونے کی روش نشانیاں اور کھلی علامتیں موجود ہیں از انجملہ مقام ابراہیم ہے جو ایک محترم پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی تعمیر فرماتے تھے جس میں اللہ کی قدرت سے حضرت ابراہیم کے قدم مبارک کے نشان پڑگئے تھے جو لوگوں کے ہاتھوں سے چھونے کے باعث محو ہوگئے اور یہ بات تمام اہل عرب میں نقل متواتر کے ساتھ مشہور ومسلم ہے اور حضرت ابراہیم ان تمام انبیاء کرام کے جد اکبر ہیں جن کے آثار روئے زمین پر پائے جاتے ہیں ان سے پہلے جتنے نبی گزرے ان میں سے کسی کی نشانی زمین پر باقی نہیں پس حضرت ابراہیم کے ان نشان کا باقی رہنا اور دیگر انبیاء کے آثار کا باقی نہ رہنا اور پھر اس پتھر کا باوجود کثیر التعداد دشمنوں کے ہزاروں برس سے محفوظ چلا آنا یہ اس امر کی کھلی نشانی ہے کہ یہاں ابراہیم کے قدم آئے ہیں اور یہی وہ پہلا گھر اور اول معبد ہے کہ جو طوفان نوح کے بعد حضرت ابراہیم کے ہاتھوں تعمیرہوا اور حضرت اسماعیل ان کے شریک کار اور معین و مددگار رہے غرض یہ کہ منجملہ آیات بینات کے مقام ابراہیم ایک نشانی ہے حق جل شانہ نے آیات بینات میں سے صرف دو نشانیوں کو ذکر کیا اور ایک یہ نشانی وہ جو آئندہ آیت میں ذکر کو باقی کو پوشیدہ رکھا اور اشارہ اس طرف ہے کہ آیات بینات بہت ہیں جو شمار میں نہیں آسکتیں ان میں سے صرف دو دین کا ذکر کیا اور من جملہ ان نشانیوں کے ایک نشانی یہ ہے کہ جو شخص اس مکان کی حدود میں بھی داخل ہوگیا اس کو امن ملا دنیا میں قتل اور غارت گری سے مامون ہوگیا اور قیامت کے دن عذاب سے مامون ہوگیا یہ بھی خانہ کعبہ کی فضیلت کی کھلی نشانی ہے عرب زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے کو قتل کردیتے اور لوٹ لیتے مگر جو حرم میں آجاتا اس سے کوئی تعرض نہ کرتے خانہ کعبہ کے موجب امن ہونے پر دو اعتراض کیے گئے ہیں ایک یہ کہ خود جناب رسول اللہ نے مکہ مکرمہ کو تلوار سے فتح کیا دوم یہ کہ بہت سے حکام اور عمال نے مکہ میں ظالمانہ کاروائیاں کیں حتی کہ بعض نے خانہ کعبہ پر منجیق بھی لگادیا اور اس کی بےحرمتی بھی کی اور بہت سے بدوؤں نے حاجیوں کو طرح طرح سے اذیت پہنچائی۔ پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض سرے سے ہی غلط ہے نبی ﷺ نے ایک لمحہ کے لیے خانہ کعبہ کی حرمت کو نہیں توڑا آپ نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ مکہ میں ہی منادی کرادی کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کو امن ہے اور جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے اس کو بھی امن ہے حدیث میں ہے کہ جب ابوسفیان نے نبی کی خدمت میں حاضر ہو کر لشکر انصار کے علمبردار سعد بن عبادہ کا یہ قول نقل کیا کہ آج کا دن لڑائی کا دن ہے اور آج کعبہ کی حرمت توڑی جائے گی تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ سعد نے غلط کہا آج کا دن وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کی حرمت کو قائم کرے گا اور آج کا دن وہ دن ہے جس میں خانہ کعبہ پر نیا غلاف چڑھایا جائے گا اور بعض علماء نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اللہ نے خاعنہ کعبہ کو شرک اور بت پرستی سے پاک کرنیکے لیے ایک ساعت کے لیے آپ ﷺ کے حلال کردیا تھا آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کسی اور کے لیے حلال نہیں اور کفر وشرک کی نجاست سے پاک کردینے کے لیے حلال کردینا غایت درجہ مستحسن ہے۔ دوسرے اعتراض کا جواب۔ یہ ہے کہ خانہ کعبہ میں داخل ہونے والے شخص کے امن والا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی شخص کو ایذا پر قدرت نہیں رہتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس گھر کی تعظیم لوگوں کے اعتقاد اور دلوں میں اس درجہ راسخ ہے کہ کوئی شخص بھی اس میں ظلم اور تعدی کو ردا نہیں سمجھتا پس جو ظالم اور بدو اس میں کوئی کاروائی کرتے ہیں وہ اس کو جائز نہیں سمجھتے بلکہ اور گناہوں کی طرح اس کو گناہ سمجھتے ہیں اور اس گھر کی فضیلت نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ لوگوں پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج فرض ہے تمام لوگ برابر خانہ کعبہ کا ہی حج کرتے چلے آئے بیت المقدس کا حج کبھی فرض نہیں ہوا مگر خانہ کعبہ کا حج ہر ششخص پر فرض نہیں بلکہ صرف اس شخص پر فرض ہے جو اس گھر کی راہ پاسکے یعنی زاد اور رحلہ پر اس کو قدرت ہو مطلب یہ ہے کہ استطاعت سبیل سے مراد خانہ کعبہ تک پہنچنے پر قدرت پانا ہے جس میں سواری اور سفر خرچ اور تندرستی اور راستہ کا امن سب کچھ آگیا اور اس گھر کے حج کا فرض ہونا یہ بھی اس گھر کی بزرگی اور شرافت کی کھلی نشانی ہے اور اس امر کی صریح دلیل ہے کہ اس گھر کی حضرت ابراہیم سے خاص خصوصیت حاصل ہے کہ ان کے وقت سے لے کر اس وقت تک مشرق ومغرب اور شمال جنوب کے لوگ برابر حج کرتے چلے آئے اور برابر اس کو سنت ابراہمی سمجھ کر ادا کرتے رہے اور جو شکص منکر ہوا کہ خانہ کعبہ اول معبد نہیں رہا یا اس کا حج فرض نہیں تو اللہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو تمام جہان کے لوگوں سے بےنیاز ہے تمام عالم بھی اگر اس کے حکم کا انکار کرے تو اس کا کوئی نقصان نہیں خانہ کعبہ خداوند ذوالجلال کے نور اور جمال کی تجلی کا گھر ہے محبین اور عاشقین کا یہ فرض ہے کہ اس نور السموات والارض اور جمیل مطلق اور محبوب برحق کے گھر پر عمر بھی میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور حاضری دے اور اس کے درودیوار کادوارنہ وار چکر لگائیں اور اس کے آستانہ کو بوسہ دیں جو شخص خدا کی محبت کا دعوی کرے اور اس کے گھر کی حاضری کو فرض نہ سمجھے تو سمجھ لو کہ وہ جھوٹا عاشق ہے اور محبوب حقیقی کو کیا پروا ہے کہ ایسا شخص یہودی ہو کرمرے یا نصرانی ہو کر مرے یہود اور نصاری ہر ایک کو دعوی تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہمارے امام اور پیشوا ہیں مگر جس گھر کو انہوں نے اللہ کے حکم حج اور زیارت کے لیے تعمیر کیا گیا اور لوگوں کو اس کی زیارت اور حج کے لیے آواز دی اس کا حج نہیں کرتے۔ خلاصہ کلام۔ یہ کہ خانہ کعبہ بیت المقدس سے افضل ہے جس کی متعدد وجوہ ہیں۔ جو حسب ذیل ہیں۔ اول فضیلت۔ یہ کہ خانہ کعبہ سب سے پہلا گھر ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے مقرر ہوا اور حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس کی تعمیر کی اور ان کی اولاد میں جس قدر بھی نبی ہوئے وہ سب کے سب اسی کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے چلے آئے اور حضرت شیث اور حضرت ادریس اور حضرت نوح کا قبلہ عبادت اس کے سوا اور کوئی جگہ نہ تھی اس لیے کہ عبادت اور عبودیت حضرت انبیاء کرام کے لیے لازم ہے اور عبادت کے لیے قبلہ کا ہوناضروری ہے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء کا قبلہ یہی خانہ کعبہ رہا۔ وقال تعالی۔ اولئک الذین انعم اللہ تا وب کیا۔ آیت۔ اس آیت میں صاف ظاہر ہے کہ تمام انبیاء کرام سجدہ کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ سجدہ کے لیے قبلہ کا ہونا ضروری ہے سو ان حضرات کا قبلہ وہی خانہ کعبہ تھا جو ہمارے معظم اور محترم باپ سیدنا آدم (علیہ السلام) نے بحکم اللہ تعالیٰ بنایا تھا اور مکہ مکرمہ کا نام ام القری ہونا یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ یہ شہر تمام بستیوں اور آبادیوں کی اصل اور جڑ یعنی مبداء ہے اور اسی وجہ سے کہا گیا کہ وسط ارض میں ہے اور تمام روئئے زمین کا مرکزی نقطہ ہے۔ دوسری فضیلت۔ خانہ کعبہ کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ وہ مبارک ہے یعنی خیرات وبرکات کا منبع اور سرچشمہ ہے آسمانی اور معنوی انوار وبرکات کے علاوہ زمینی برکات کا بھی مخزن ہے کما قال تعالی۔ یحییٰ الیہ ثمرات کل شئی رزقا من لدنا۔ آیت۔ زمین جس کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے۔ وبارک فیھا وقدر فیھا اقواتھا۔ آیت۔ ان تمام اقوات وثمرات اور ارزاق وبرکات کا مرکزی نقطہ بھی خانہ کعبہ کی زمین ہے جس کو اللہ نے سب سے پہلے پیدا کیا اور باقی زمین یہیں سے بچھائی گئی اور ایک نیکی کا ثواب کم ازکم ایک لاکھ گنا ملتا ہے اور جو نماز خانہ کعبہ کے سامنے باجماعت پڑھی جائے اس کا ثواب ستائیس لاکھ ملتا ہے کیونکہ جماعت کا اجرا انفرادی نماز سے ستائیس گنا ہے۔ تیسری فضیلت۔ خانہ کعبہ کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ ھدی للعالمین۔ یعنی تمام جہانوں کا قبلہ ہے اسی سمت پر سب نماز ادا کرتے ہیں خانہ کعبہ بمنزلمہ مرکزی نقطہ کے ہے اور روئے زمین پر نمازیوں کی صفوت بمنزلہ دائر کے ہیں جو اس مرکز کو احاطہ آسمان اور زمین کے فرشتے بھی ہوتے ہیں جن کے انوار وبرکات میں تعاکس اور توارد بھی ہوتا ہے اور خانہ کے ذاتی انوار برکات ان کے علاوہ ہیں جب روئے زمین کی نمام مسجدیں اور تمام صفوف سمت کعبہ کی طرف متوجہ ہوکرنمازیں ادا کریں گے تو اس محاذات اور مسامست کی وجہ سے خانہ کعبہ کے انوار و تجلیات روئے زمین کی مسجدوں اور نماز کی صفوں کو بجلی کی رو کی طرح یکدم منور اور روشن کریں گے۔ چوتھی فضیلت۔ یہ ہے کہ فیہ ایات یعنی خود اس گھر میں اس کی حرمت اور عظمت کی روشن نشانیاں موجود ہیں جس نے اس کی بےحرمتی کا ارادہ کیا وہ ہلاک ہوا جیسے اصحاب فیل اور جس نے اس جگہ جا کر بیماری وغیرہ کے لیے دعا مانگی اس کی دعا قبول ہوئی اور حجاج نے جو مکہ پر چڑھائی کی سو اس کا مقصد حضرت عبداللہ بن زبیر کو گرفتار کرنا تھا خانہ کعبہ کی بےحرمتی اور اہانت مقصود نہ تھی۔ پانچویں فضیلت۔ یہ ہے کہ اس میں مقام ابراہیم ہے مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی اس پتھر میں حضرت ابراہیم کے قدم مبارک کے نشان تھے اللہ نے اسے حضرت ابراہیم کے لیے نرم کردیا تھا۔ چھٹی فضیلت۔ یہ ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کے حدود یعنی حرم میں داخل ہوا تو دنیا میں قتل سے اور آخرت میں عذاب سے مامون رہا۔ ساتویں فضیلت۔ یہ ہے کہ اس گھر کا حج کرنا فرض ہے یہ بھی اس گھر کی شرافت و بزرگی پر دلالت کرتا ہے تمام انبیاء سابقین اسی کا حج کرتے چلے آئے ہیں اور نہایت ذوق شوق کے ساتھ تلبیہ پکارتے ہوئے اس کی زیارت کے لیے حاضر ہوتے رہے بیت المقدس کا حج کبھی فرض نہیں ہوا۔ لطائف ومعارف ان اول بیت۔ آیت۔ میں علماء کا اختلاف ہے کہ اول سے کیا مراد ہے آیا باعبار زمانہ کے اولیت مراد ہے یا باعتبار شرف اور فضیلت اور رتبہ کے اولیت مراد ہے۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت سے یہ منقول ہے کہ اللہ نے زمین میں سب سے پہلے خانہ کعبہ کی جگہ کو پیدا کیا اور باقی تمام زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی یعنی باعتبار زمانہ کے اولیت مراد ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اولیت باعتبار شرف اور فضیلت کے ہے زمانہ کے لحاظ سے نہیں یعنی برکت اور ہدایت کے یہ پہلا گھر ہے جیسا کہ لفظ مبارکا وھدی للعالمین۔ اس پر دلالت کرتا ہے یعنی برکت اور ہدایت کے لحاظ سے سب سے اول اور سب سے افضل اور سب سے مقدم خانہ کعبہ ہے تحقیق یہ کہ مقصود اصلی تو خانہ کعبہ کی افضیلت بیان کرنا ہے کہ خانہ کعبہ بیت المقدس سے افضل ہے اور ظاہر ہے کہ یہ مقصد جب حاصل ہوگا کہ جب اولیت سے شرف اور فضیلت کے اعتبار سے اولیت مراد ہو محض زمانہ کے اعتبار سے اولیت شرف اور فضیلت کا مدار نہیں بن سکتی۔ البتہ زمانہ کی اولیت شرف اور فضیلت کی اولیت کے لیے موئید ضرور ہوسکتی ہے اس لیے کہ اولیت رتبہ کے منافی اور مباین نہیں خانہ کعبہ کی جگہ باعتبار زمانہ کے بھی اول ہے اور باعتبار شرف اور فضیلت کے بھی اول ہے لہذا ثابت ہوگیا کہ خانہ کعبہ بیت المقدس سے باعتبار زمانہ کے اول ہے اور باعتبار فضیلت کے بھی اول ہے۔ اسرار قبلہ۔ حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی۔ بانی دارالعلوم دیوبند قدس سرہ نے خاص اس موضوع پر قبلہ نما کے نام سے ایک مستقل تحریر لکھی ہے جو علم لدنی کے حقائق ومعارف کا گنجینہ اور اسرار ولطائف کا ایک خزینہ ہے ہم اس مقام نہایت اختصار کے ساتھ اس کا خلاصہ مع اضافہ شواہد ہدیہ ناظرین کرتے ہیں اصل مضمون حضرت مولانا قاسم (رح) کا ہے اور شواہد کا اضافہ اس ناچیز کی طرف سے ہے۔ وماتوفیقی الاباللہ علیہ توکلت والیہ انیب۔ آیت۔ حق جل شانہ نے انسان کو پانی عبادت کے لیے پیدا کیا اور عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے معبود کے سامنے اپنے عجز ونیاز کا اظہار کرے اور آداب عبودیت بجا لائے اس لیے ضروری ہے کہ عابد اور معبود میں آمنا سامنا ہو اور آمنا سامانا ہونے کے لیے بظاہر مکان اور جہت درکار ہے اورا للہ تعالیٰ جہت اور مکان سے پاک اور منزہ ہے کیونکہ وہ تو خود جہت اور مکان اور زمان کا خالق ہے اور انسان جسم اور روح سے مرکب ہے سو عبادت روحانی کے لیے تو کسی جہت اور مکان کی ضرورت نہیں اس لیے کہ روح مکانی نہیں روح خداوندی کی بےچونی اور بیچگوئی کا نمونہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے خلق اللہ آدم علی صورتہ اس لیے روح کی عبادت کے لیے قلبی اور معنوی توجہ کافی ہے کسی قبلہ اور جہت کی ضرورت نہیں۔ البتہ عبادت جسمانی بدون تقابل جہت متصور نہیں اور انسان چونکہ مقید فی الجہت ہے اس لیے اس کو یہ حکم دینا کہ جہت سے علیحدہ ہو کر عبادت کیا کرو تو یہ تکلیف مالایطاق ہے اور فقط روحانی عبادت کافی نہیں بلکہ روح اور جسم دونوں ہی مکلف ہیں روحانی عبادت کی طرح جسمانی عبادت بھی فرض ہے اور لازم ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ روح تو عبادت کی مخاطب ہو اور جسم معطل رہے اور یہ بھی مناسب نہیں کہ ہر شخص جس طرف چاہے سجدہ کرلیا کرے اور ہر ایک اپنا جدا قبلہ بنائے اس لے اللہ نے ایک جہت مقرر فرمادی تاکہ ایک سمت متعین ہوجائے اور ملت کے انتظام میں فرق نہ آئے کیونکہ جو جہت اللہ کی طرف سے مقرر ہوگی اس میں کسی کو ردوبدل کی گنجائش نہ ہوگی باقی رہا یہ امر کہ اس خاص سمت کی تعین کی وجہ کیا ہے سو وہ اللہ ہی کو معلوم ہے اور اگر یہ اجازت ہوتی کہ جس طرف کو جی چاہے وہ سجدہ کرلیا کرے تو اس میں انتظام اور اتفاق کی کوئی صورت نہ تھی۔ اور ظاہر ہے کہ اتفاق ایک نہایت محمود اور پسندیدہ چیز ہے۔ حق جل شانہ کی ذات چونکہ بےچون وچگون ہے اس لے وہ کسی حد میں محدود اور مقید نہیں البتہ اس کی کوئی تجلی اور کوئی پرتو کسی محدود اور مقید پر پڑ سکتا ہے جیسے آفتاب کا عکس پر تو آئینہ پر پڑتا ہے ہر شخص جانتا ہے کہ آئینہ فقط ایک مظہر اور نماش گاہ ہے محل قید نہیں آئینہ کا آفتاب کو اپنے آغوش میں لے لینا قطعا محال ہے البتہ فقط آئینہ میں جلوہ گر ہوسکتا ہے جیسے آسمان کی پتلی جلوہ گھر ہوتا ہے مگر انعکاس کی ایک شرط تو یہ ہے کہ آئینہ صاو شفاف ہو دوسری شرط یہ ہے کہ آفتاب کے مقابل ہو بغیر تقابل کے انعکاس ممکن نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی کی ذات بےچون وچگون کو سمجھو کہ وہ حدود اور قیود سے پاک اور منزہ ہے مگر کسی جہت اور مکان اور کسی محدود شی میں اس کی تلی ممکن ہے۔ کتاب وسنت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور پانی جل شانہ کی اول مخلوقات سے ہے کمال قال تعالی۔ وکان عرشہ علی الماء۔ آیت۔ اور اللہ جل شانہ کی سب سے بڑی تجلی عرش پر ہے اور الرحمن علی العرش استوی۔ آیت۔ میں اسی تجلی کی طرف اشارہ ہے عرش کے معنی تخت اور بلند مقام کے ہیں اور استواء کے معنی استقرار اور تمکن کے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ آیت میں ظاہری معنی قطعا مراد نہیں اس لیے کہ اللہ کوئی جسم نہیں جو تخت پر بیٹھے اور قرار پائے بلکہ استواء علی العرش سے اس کی شان احکم الحاکمین کو بیان کرنا ہے جیسا کہ تخت نشینی کا لفظ حکومت اور اقتدار کے لیے بطور کنایہ مستعمل ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکم الحاکمین اور اس کے تسلط تام اور تدبیر عام کو استواء علی العرش کے لفظ سے تعبیر کیا گیا کہ اس کی احکم الحاکمین اور شہنشاہی ایسی راست اور ہموار ہے کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت اور کسی قسم کی گڑبڑ کا امکان اور واہمہ بھی نہیں خلاصہ یہ کہ عرش عظیم اس رب عظیم کی شان احکم الحاکمینی کا ایک تجلی گگاہ اور نمائش گاہ ہے معاذ اللہ خدائے بےچون چگون کی جائے قرار اور محل استقراء نہیں غرض یہ کہ عرش عظیم اللہ کی اول مخلوق ہے۔ عرش کے بعد اللہ نے سب سے پہلے زمین کو پیدا فرمایا اور اس کے اور اس کے آسمان کو پیدا کیا جیسا کہ سورة بقرہ میں ہے۔ ھوالذی خلق الکم ما فی الارض تا وھو بکل شئی علیم۔ آیت۔ اور اسی طرح سورة حم سجدہ میں مصرح ہے۔ ثم استوی سبع سموات وھو بکل شئی علیم۔ آیت۔ سورة بقرہ اور سورة حم سجدہ کی ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا اور پھر آسمان کو اور قیاس عقل بھی اسی کو مقتضی ہے کہ پہلے زمین پیدا ہو اور آسمان بعد میں اس لیے کہ اللہ نے زمین کو فرش اور آسمان کو سقف (چھت) فرمایا ہے اور ظاہر ہے تعمیر چھت کی جانب سے شروع نہیں ہوتی بلکہ فرش کی جانب سے ہوتی ہے اور زمین میں اللہ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کی جگہ کو پیدا فرمایا اور پھر باقی زمین اسی جگہ سے بچھائی گئی اور پھیلائی گئی کعبہ زمین کا ٹکڑا ارض کا مرکزی نقطہ ہے جو ٹھیک وسط ارض میں واقع ہے جیسا کہ ان اول بیت۔ آیت۔ اس پر دال ہے وکما یدل علیہ قولہ تعالیٰ وکذالک جعلنا کم امتہ۔ آیت۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اول پانی تھا اور اس پانی پر عرش کبریائی تھا پھر اس پانی میں سے جہاں اس جگہ خانہ کعبہ ہے ایک بلبلا اٹھا اور جھاگ نمودار ہوئی اس سے زمین کی بنا شروع ہوئی۔ یہ روایت بھی خانہ کعبہ کی اولیت پر دال ہے اور اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اس جگہ کا عرش اور عرش کے پانی سے خاص تعلق ہے۔ اور جس طرح خانہ کعبہ آبادی میں اول ہے اسی طرح ویرانی میں بھی اول ہے کہ قیامت کے وقت یہی ٹکڑا سب سے پہلے ویران ہوگا جیسا کہ یہ آیت جعل اللہ الکعبۃ البیت۔۔۔ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کیونکہ قیاما للناس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ گھر قائم ہے جبھی تک بنی آدم کا بھی اس عالم میں قیام ہے اور جس دن یہ ویران ہوگا تو تمام کارخانہ، عالم بھی ویران ہوجائے گا کیونکہ بدلالت آیت خلق لکم ما فی الارض۔ آیت۔ یہ بات عیاں ہے کہ زمین و آسمان سب بنی آدم کے لیے ہیں جب بنی آدم نہ ہوں گے تو زمین و آسمان ہی کس کے لیے رہیں گے گھاس دانہ گھوڑوں تک رہتا ہے جب وہ نہیں رہتے تو اسے کون رکھتا ہے جب دارالخلافہ آباد کیا جاتا ہے تو اول مکانات شاہی کے لیے کوئی جگہ تجویز ہوتی ہے اور اس کی بناڈالی جاتی ہے اس کے بعد امراء اور وزراء اور رعایا کے مکانات بنتے ہیں اور جب دارالخلافہ بحکم شاہی کسی مصلحت سے ویران کیا جاتا ہے تو اول بادشاہ اپنے مکانات کو چھوڑتا ہے اور اس کی اتباع میں پھر خواص اور عوام اپنے اپنے مکانات چھوڑ کر اس کے پیچھے ہوتے ہیں معلوم ہوا کہ محل سرائے جس طرح تعمیر میں اول ہے اسی طرح تخریب میں بھی اول ہے۔ پس اسی طرح خانہ کعبہ کو بمنزللہ قصری شاہی یا خیمہ شاہی خیال فرمائیے اور کیوں نہ ہو وہ تجلی گاہ ربانی اور آئینہ جمال یزدانی ہے اس لیے اس کو بنانے میں اول رکھا اور ویرانی عالم کے وقت بھی اس کو اول رکھیں چناچہ آیت ان اول بیت۔ آیت۔ اس کی اولیت تعمیر پر دلالت کرتی ہے اور آیت جعل اللہ الکعبۃ آیت۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ گھر لوگوں کے قیام اور بقاء کا باعث ہے اور اس کی اولیت ویرانی پر دلالت کرتی ہے اس لیے حاصل اشارہ قرآنی یہ ہوا کہ جب تک یہ گھر قائم ہے لوگ بھی اس عالم میں قائم ہیں اور جس روز یہ گھر ویران ہوگا اور اس روز عالم کا خراب اور ویران سمجھو۔ خانہ کعبہ عرش کی محاذات میں ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ عرش عظیم کی محاذات میں ہے۔ امام عبدالرزاق نے ابن جریج اور عطاء اور سعید بن المسیب وغیرہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ نے حضرت آدم کی طرف وحی بھیجی کہ اے آدم جب تم زمین پر اترو تو میرے لیے ایک گھر بناؤ اور پھر اس کا طواف کرو جیسا کہ تم نے فرشتوں کو میرے عرش کا طواف کرتے دیکھا۔ اور ابن عباس سے مروی ہے کہ جب آدم (علیہ السلام) جنت سے زمین پر اترے تو اللہ نے ان سے یہ فرمایا اے آدم تم جاؤ اور اس کا طواف کرو اور اس کے سامنے میرا ذکر کرو جیسا کہ تم نے فرشتوں کو میرے عرش کا طواف کرتے دیکھا۔ پس جبکہ خانہ کعبہ عرش عظیم کی محاذات میں ہے تو عرش عظیم کے انوار اور تجلیات خانہ کعبہ میں منعکس ہوں گے اور اگر یہ کہا جائے کہ عرش عظیم اور خانہ کعبہ کے درمیان بیت المعمور واقع ہے جو ساتویں آسمان پر فرشتوں کا قبلہ ہے) وہ درمیان میں حائل ہے تو جواب یہ ہے کہ اس کی حیلولت خانہ کعبہ پر عرش عظیم کی تجلی سے مانع نہیں اس لیے کہ بیت المعمور ایک صاف اور شفاف آئینہ کی طرح ہے اور ٹھیک عرش عظیم کی محاذات میں واقع ہے تو تقابل میں کوئی فرق نہ آئے گا اور نہ تعاکس انوار میں کوئی خلل آئے گا اگر آفتاب کے سامنے یکے بعد دیگرے دو صاف و شفاف آئینے بالکل ایک دوسرے کی محاذات میں ہوں تو انعکاس میں کوئی فرق نہ آئے گا۔ مساجد خانہ کعبہ کی محاذات میں ہیں۔ جب یہ معلوم ہوگیا کہ خانہ کعبہ عرش عظیم کی محاذات میں ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ روئے زمین کی تمام مسجدیں خانہ کعبہ کی سمت پر واقع ہیں تو اس محاذات اور مسامت کی وجہ سے خانہ کعبہ اور مساجد کے درمیان ایک معنوی تعلق اور ربط قائم ہوجائے گا جیسے بجلی کی تاروں کا کسی مرکز سے تعلق ہوتا ہے پس اس معنوی تعلق کی بنا پر خانہ کعبہ اور مساجد کے انوار و تجلیات میں توارد اور تعاکس ہوگا۔ ادھر کے انوار ادھر جائیں گے اور ادھر کے انوار ادھر آئیں گے اور انعکاس کے معنی لغت میں لوٹ کر آنے کے ہیں پس خانہ بمنزلہ مرکزی نقطہ کے ہوگا اوراقطار عالم میں مساجد کی صفوف بمنزلہ دوائر محیط یا بمنزلہ خطوط دائرہ ہوں گی جن کا منتہی وہی مرکزی نقطہ ہوگا جس کو خانہ کعبہ کہتے ہیں جیسے بجلی کے تار کسی مرکز سے متعلق ہوتے ہیں تو بیک وقت تمام قمقمے روش ہوجاتے ہیں اس طرح عرش سے فرش تک اور فرش سے عرش تک آسمانوں اور روئے زمین کی تمام مسجدوں کے انوار تجلیات میں عجیب قسم کا تجاذب اور تعاکس ہوگا۔ تعمیر بیت المقدس حدیث میں ہے کہ حضرت آدم نے بحکم خداوندی اول خانہ کعبہ تعمیر کیا اور پھر بحکم خداوندی چالیس سال بعد بیت المقدس کو تعمیر کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ اور بیت المقدس میں چالیس سال کا تفاوت ہے بظاہر اس تفاوت کی وجہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ بمنزلہ ایوان شاہی کے ہے اور خدا وند کریم کی شان احکم الحاکمین اور شان ارحم الراحمین اور شان محبوبی کا مظہر اور تجلی گاہ ہے۔ اور بیت المقدس بمنزلہ ایوان وزراء اور دیوان حکام اور بمنزلہ عدالت کے ہے جو اس کی شان عدل اور قہر کا مظہر ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ عدالت اور ایوان وزراء محل شاہی سے کچھ فاصلہ پر ہوتا ہے اس لیے قبلہ ثانی (بیت المقدس) کی عمارت خانہ کعبہ کی عمارت سے کچھ فاصلے پر رکھی گئی اہل نظر کا خیال ہے کہ شان عدل، شان ارحم الراحمینی سے چالیس درجہ فروتر ہے اس لیے خانہ کعبہ کی تعمیر کے چالس سال بعد بیت المقدس کی تعمیر ہوئی اور بیت المقدس خانہ کعبہ سے چالیس منزل کے فاسلہ پر شمال کی جانت میں واقع ہے۔ پس عجب نہیں کہ اس حدیث میں اسی تفاوت کی طرف اشارہ ہو اور غالبا یہی وجہ ہے کہ انبیاء سابقین کے دور میں بیت المقدس نماز کا تو قبلہ رہا مگر انبیاء سابقین، حج خانہ کعبہ ہی کا کرتے رہے کیونکہ خانہ کعبہ شان محبوبی کا مظہر اور تجلی گاہ ہے اور حج کے تمام افعال سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا عاشقانہ عمل کسی محبوب کی رضا جوئی کے لیے ہے اور ہر سال حج میں جو اجتماع ہوتا ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کسی جمال بےمثال کا دویانہ اور پروانہ بنا ہوا ہے نہ سر پر عمامہ ہے اور نہ پیر میں کوئی موزہ اور جراب ہے اور نہ بدن پر قمیص اور پاجامہ ہے اور نہ کوئی سلا ہوا کپڑا بدن پر صرف ایک ازار اور ایک چادر ہے نہ کوئی خوشبو اور عطر ہے دمبدم خدا کو پکار رہا ہے نہ مرد کو عورت سے مطلب اور نہ عورت کو مرد سے مطلب بہرحال خانہ کعبہ خانہ محبوبیت ہے اور بمنزلہ محل سرائے شاہی کے اور بیت المقدس بمنزلہ عدالت اور کچہری کے ہے جو فقط مظلومین کی داد رسی اور ظالمین کی سزا کے لیے ہوتی ہے۔ اور چونکہ خانہ کعبہ عرش عظیم کی محاذات میں ہے اس لیے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ کی برکات اور تجلیات کبھی اس سے جدا نہیں ہوتیں اس لیے کہ خانہ کعبہ کی نسبت قرآن کریم میں لفظ مبارکا آیا ہے کہ برکت خانہ کعبہ کی صفت ذاتیہ ہے اور بیت المقدس کے بارے میں بارکنا حولہ آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس کی برکات عوارض کی طرح ممکن الانفصال ہیں خانہ کعبہ کی طرح لازم الاتصال نہیں یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس چند بار محافظوں اور بےدینوں کے ہاتھوں سے خراب اور برباد ہوا اور خانہ کعبہ پر باوجود مخالفین کی کثرت اور شوکت کے آج تک اس کی نوبت نہیں آئی اس کا ایک پتھر بھی مسمار کرنے کی نیت سے اکھاڑ سکے جیسا کہ اصحاب فیل کا قصہ اس کا شاہد ہے اس لیے کہ اس کی برکات ذاتی ہیں اور وہ بمنزلہ سرائے اور دیوان خاص کے ہے اس لیے اس کی نگہبانی ہمیشہ کے لیے ضروری ہے۔ خلاصہ۔ یہ کہ خانہ کعبہ جس طرح آبادی میں اول ہے اس طرح ویرانی اور بربادی میں بھی اس کا اول ہونا ضروری ہے کہ سارے عالم کی ویرانی اور بربادی کی ابتداء اسی سے ہو اور ایسی ہی جگہ قبلہ بنانے کے لیے لائق ہے جو ہر اعتبار سے اول ہو اور انوار تجلیات کا مبداء بھی وہی ہو اور منتہی بھی وہی ہو اور ایسے قبلہ کے لیے اول ہی درجہ کا نبی اور اول ہی درجہ کی امت چاہیے کہ جو کمالات یزدانی اور عنایات ربانی کا مبداء اور منتہی ہو اور ایسا نبی سوائے خاتم النبین محمد رسول اللہ ﷺ کے اور ایسی امت سوائے امت محمدیہ کے اور کوئی نہیں جو کمالات علمیہ یعنی علوم ومعارف میں اور کمالات عملیہ یعنی عبدیت اور عبودیت میں سب سے اول ہے اور کمالات عبودیت اس پر ختم ہیں لہذا ایسے نبی اور ایسی امت کا قبلہ بھی وہی جگہ ہونی چاہے کہ جوا نوار ربانی اور تجلیات یزدانی کا مبداء اور منتہی اور مرکزی نقطہ ہو۔ 3۔ بیت اللہ شریف۔ اس خاص بیت اللہ کا نام اس وقت تک ہے جب تک وہ اس خاص مکان اور خاص جو (کلاء) کے ساتھ مقید رہے چناچہ اگر اس کے پتھروں کو اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیں تو وہ بیت اللہ نہیں ممکن ہے کہ کوئی یہ خیال کرے کہ بیت اللہ ایک کو ٹھا ہے جب اس کو منہدم کردیا جائے تو بس حج نہ ہوگا بلکہ اس زمین کا نام بھی نہیں چناچہ اگر تحت الثری تک وہاں کی مٹی اٹھا کر دوسری جگہ ڈال دی جائے تب بھی بیت اللہ موجود ہے پس بیت اللہ درحقیقت اس بعد مجرد کا نام ہے جو تحت الثری سے عنان سماء تک ہے نہ وہ کو ٹھا ہے بیت اللہ ہے۔ اور نہ وہ زمین بیت اللہ ہے چناچہ اگر کوئی بیت اللہ شریف کے اوپر یا کسی مکان کے اوپر نماز پڑھے جو بیت اللہ سے بلند ہو تو اس کی نماز بلاشبہ درست ہے۔ 4۔ یہاں سے اس اعتراض کا جواب بھی ہوگیا جو بعض غیر قوموں نے کیا ہے کہ مسلمان بھی بت پرستی کرتے ہیں یعنی کعبہ کی طرف سجدہ کرتے ہیں۔ تقریر جواب۔ ہم خانہ کعبہ کی عبادت اور پرستش نہیں کرتے اور نہ ہم خانہ کعبہ کو معبود اور مسجود سمجھتے ہیں ہم عبادت صرف خدا کی کرتے ہیں اور البتہ منہ قبلہ کی طرف کرتے ہیں چناچہ لفظ استقبال کعبہ اور لفظ بت پرستی خود اس پر شاہد ہے استقبال کے معنی صرف اس کی طرف منہ کرنے کے ہیں اور بت پرستی کے معنی یہ ہیں کہ بت معبود ہیں ہاں اگر اہل اسلام کعبہ پرستی کے قائل ہوتے تو اعتراض بجا تھا۔ دوم یہ کہ اہل اسلام کے نزدیک نماز کے صحیح ہونے کے لیے فقط کعبہ کی طرف منہ ہوجانا کافی ہے استقبال کی نیت کی بھی ضرورت نہیں مقصود معبود ہے اس کی نیت ضروری ہے جہت قبلہ اس کا وسیلہ ہے اور وسیلہ کی نیت ضروری نہیں معاذ اللہ اگر خانہ کعبہ کی عبادت ہوتی تو معبود کی نیت ضروری ہوتی۔ سوم یہ کہ نماز کے شروع سے لے کے اخیر تک کوئی لفظ بھی ایسا نہیں جو خانہ کعبہ کی تعظیم پر دلالت کرے شروع سے اخیر ہر لفظ اور ہر فعل اللہ کی تعظیم اور کبریائی اور اس کی حمد وثناء اور تسبیح تقدیس پر ہی دلالت کرتا ہے اول سے آخر تک خانہ کعبہ کا نام تک نہیں آتا اور بت پرستی میں ان پتھروں اور مورتوں کی تعظیم ہوتی ہے جن کو آپ مہادیو اور شب وغیرہ بتاتے ہیں غرض یہ کہ بت پرستی کو نماز سے کیا نسبت۔ ببیں تفاوت راہ از کجاست تا بکجا۔ چہارم یہ کہ خانہ کعبہ ان اینٹوں اور پتھروں کا نام نہیں اور نہ انہدام کعبہ کے بعد نماز موقوف ہوجاتی ہے یہی وجہ سے کہ جس زمانہ میں خانہ کعبہ کی اور اس کی دیواریں منہدم ہوئیں نماز بدستور قدیم جاری رہی اگر دیوار کعبہ مسجود و معبود یا مقصود ہوتی تو اس زمانہ میں نماز موقوف ہوجاتی بہت ہوتا تو یہ کہ بعد تعمیر ایام گزشتہ عبادت کی قضا کی جاتی اور بت پرستی میں ظاہر ہے کہ بت ہی معبود اور مسجود اور مقصود ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کسی شوالے یا مندر سے بتوں کو اٹھا کر کہیں اور رکھ دیں تو پھر سارے فرائض وہاں ادا ہوتے ہیں مکان اول کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے اگر کعبہ مسلمانوں کا معبود ہوتا تو اس کے اوپر چڑھ کر نماز درست نہ ہوتی اس لیے کہ خانہ اب اس کے سامنے نہیں نیز معبود پر چڑھنا گستاخی ہے معترضین نے اپنے اوپر قیاس کیا ہوگا کہ وہ گائے اور بیل کو دیوتا اور معبود بھی سمجھتے ہیں پھر ان پر سوار بھی ہوتے ہیں اور سامان بھی لادتے ہیں اور اگر دیوتا جلدی جلدی نہیں چلتا تو پیچھے سے اس کے ڈنڈے بھی مارتے ہیں۔ بریں عقل و دانش بباید گریست۔ پنجم۔ خانہ کعبہ کو اہل اسلام بیت اللہ کہتے ہیں اللہ یا خدا نہیں کہتے اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مکان کی طرف جاتا ہے تو مکین مقصود ہوتا ہے اور وہاں جا کر جو آداب ونیاز بجالاتا ہے تو ہر شخص اس آداب ونیاز کو صاحب خانہ کے لیے سمجھتا ہے جیسے تخت کی طرف جھک کر سلام کرنا تو وہ سلام صاحب تخت کو ہوتا ہے خود تخت کو نہیں ہوتا اور بت پرستی اپنے بتوں کو خانہ خدا یا تخت خدا نہیں سمجھتے بلکہ وہ بت خود مقصود اور معبود ہوتے ہیں اور ان کو مہادیو یا شب یا گنیش وغیرہ سمجھ کر ان کی عبادت کرتے ہیں حضرت مولانا محمد قاسم قدس اللہ سرہ کی تحریر کا خلاصہ ختم ہوا تفصیل کے لیے حضرات اہل علم قبلہ نما کی مراجعت فرمائیں۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
Top