Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 96
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَوَّلَ : پہلا بَيْتٍ : گھر وُّضِعَ : مقرر کیا گیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَلَّذِيْ : جو بِبَكَّةَ : مکہ میں مُبٰرَكًا : برکت والا وَّھُدًى : اور ہدایت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا یہی ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور ہدایت تمام جہان والوں کے لیے
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّـلْعٰـلَمِیْنَ ۔ ج فِیْہِ اٰیٰتٌ م بَـیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْـٰرہِیْمَ 5 ج وَمَنْ دَخَلَـہٗ کَانَ اٰمِنًا ط وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْـبَـیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰـلَمِیْنَ ۔ (بےشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا یہی ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور ہدایت تمام جہان والوں کے لیے۔ اس میں واضح نشانیاں ہیں جیسے مقام ابراہیم ہے اور جو اس میں داخل ہوگیا وہ مامون ہوگیا اور جو لوگ وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان کے اوپر اس گھر کا حج ہے اور جس نے کفر کیا تو اللہ بےپرواہ ہے جہان والوں سے) (96 تا 97) گزشتہ بعض آیات کریمہ میں یہود کی بعض خیانتوں کا افشا کیا گیا ہے اور اسی حوالے سے ان کے بعض اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ انھوں نے تورات میں جو خیانتیں کی ہیں ان کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا رشتہ کسی طرح بیت اللہ اور مکہ معظمہ سے کاٹ دیا جائے اور تورات میں جو فضائل بیت اللہ کے حوالے سے ذکر فرمائے گئے ہیں ان کا مصداق بیت المقدس کو ٹھہرایا جائے۔ نیز یہ بھی ثابت کیا جائے کہ آخری آنے والے پیغمبر وہ بنی اسرائیل میں سے ہوں گے اور ان کا مرکز یہی بیت المقدس ہوگا۔ ان تمام باتوں کی اصلاح کے لیے بیت اللہ کی تاریخ کے چند ابواب کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ فرمائی ہے کہ دنیا میں جس گھر کو اللہ کے گھر کی حیثیت سے قدامت کا شرف حاصل ہے اور جو ہمیشہ سے انسانوں کی سجدہ گاہ چلا آرہا ہے اور جس کے طواف اور زیارت کے لیے دنیا کے دور دراز گوشوں سے لوگ کشاں کشاں آتے رہے ہیں وہ یہی اللہ کا گھر ہے جو مکہ معظمہ میں آباد ہے۔ مکہ اور بکہ کی تشریح اس آیت کریمہ میں مکہ کو بکہ کے تلفظ کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے کیونکہ قدیم صحیفوں میں اس کا یہی نام آیا ہے اور آج بھی یہ لفظ شہر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً بعلبک مشہور شہر ہے جس کا تاریخ کی عام کتابوں میں ذکر ملتا ہے۔ اس کا معنی ہی یہ ہے کہ ” بعل کا شہر “۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ بابل سے تشریف لائے تھے اور بابل کی زبان میں شہر یا آبادی کو ” بکہ “ کہتے ہیں۔ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس شہر کے لیے اپنی زبان کا لفظ پسند فرمایا۔ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں اسی اصل لفظ کو زندہ فرما کر اس طرف اشارہ کیا کہ اہل کتاب نے اگرچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تاریخ اور آخری بعثت کے نشانات کو گم کرنے کے لیے اس لفظ کے تلفظ اور قرأت میں سو طرح سے تغیرات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ حتیٰ کہ اسے تحریف کی سان پر چڑھا کر بکہ کی بجائے ” بکاء “ بنایا اور اس کو مصدر قرار دے کر اس کا ترجمہ رونا کردیا اور اس طرح وادی بکہ کو رونے کی وادی میں تبدیل کر کے اس سب سے بڑے نشان کو گم کرنے کی کوشش کی جس سے لوگوں کو نبی آخر الزماں ﷺ کے بارے میں رہنمائی مل سکتی تھی۔ قرآن کریم نے بکہ کا لفظ بول کر قدیم نام کی یاددہانی کی ہے جو تورات کے صحیفوں میں موجود تھا بلکہ بعض صحیفوں، مثلاً زبور میں اب بھی موجود ہے۔ سب سے پہلا اللہ کا گھر چناچہ یہی وہ گھر ہے جو سب سے پہلے روئے زمین پر اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا۔ بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت آدم و حوا (علیہ السلام) کے دنیا میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو وحی الٰہی کے ذریعے حکم دیا کہ وہ اللہ کا گھر بنائیں۔ چناچہ انھوں نے حکم کی تعمیل کی، پھر انھیں حکم دیا کہ اس کا طواف کریں اور ان سے یہ بھی کہا گیا کہ یہ وہ گھر ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی بناء کردہ یہ تعمیر حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ تک باقی تھی۔ طوفانِ نوح میں منہدم ہوگئی اور رفتہ رفتہ اس کے نشانات مٹ گئے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہی بنیادوں کو اللہ کے دیئے ہوئے علم سے تلاش کر کے ان پر اس گھر کی عمارت اٹھائی۔ اسی لیے قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس گھر کی ابتدائی طور پر تعمیر کی بلکہ فرمایا : وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمَاعِیْلُ (اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بنیادیں پہلے موجود تھیں ان پر دیواریں چنی جا رہی تھیں۔ ایک دوسری آیت کریمہ میں اور بھی واضح اشارہ فرمایا ہے : وَاِذْ بَوَّأْنَا لِاِبْرَاہِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ (جب ہم نے ابراہیم کو اس گھر کی جگہ کا ٹھکانہ بتایا) اسی علم کی روشنی میں آپ نے وہ بنیادیں تلاش کیں اور اس کے اوپر عمارت تعمیر کی۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ پھر کسی حادثہ کے باعث بیت اللہ کی عمارت منہدم ہوگئی تو قبیلہ جرہم کی ایک جماعت نے اس کی تعمیر کی۔ پھر ایک دفعہ ضرورت پیش آئی تو عمالقہ نے اس کو تعمیر کیا۔ پھر سیلاب کی وجہ سے اس کی دیواریں پھٹ گئیں تو قریش نے رسول اللہ ﷺ کی قبل از نبوت زندگی میں اسے بنایا اور آنحضرت ﷺ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود اس کی جگہ پہ رکھا۔ لیکن قریش نے اس نئی تعمیر میں کچھ تبدیلیاں بھی کیں، انھوں نے اپنے اوپر پابندی لگائی تھی کہ اللہ کے اس گھر کی تعمیر میں حلال کمائی کے سوا کوئی اور پیسہ نہیں لگایا جائے گا۔ چناچہ اس طرح جو ان کے پاس مصارف جمع ہوئے وہ اتنے نہ تھے کہ پورا گھر اس سے تعمیر ہوسکتا۔ چناچہ انھوں نے بیت اللہ کا ایک حصہ جسے حطیم کہا جاتا ہے۔ اسے بیت اللہ سے باہر چھوڑ دیا اور مزید یہ کیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تعمیر کردہ کعبہ میں دو دروازے تھے ایک داخل ہونے کا اور دوسرا پشت کی جانب باہر نکلنے کا۔ قریش نے صرف مشرقی دروازہ کو باقی رکھا اور مزید تغیر یہ کیا کہ دروازہ سطح زمین سے کافی بلند کردیا تاکہ کوئی شخص بدوں اجازت آسانی سے اندر نہ جاسکے۔ زندگی کے آخری دنوں میں آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) سے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ موجودہ تعمیر کو منہدم کر کے اسے بنائِ ابراہیمی کے مطابق بنا دوں۔ لیکن نو مسلم لوگوں کی وجہ سے میں احتیاط کرتا ہوں کہ کہیں وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں۔ چناچہ آپ ﷺ نے اس میں کوئی تبدیلی نہ فرمائی۔ حضرت عبدللہ بن زبیر ( رض) کو چونکہ آنحضرت ﷺ کی اس خواہش کا علم تھا چناچہ جب وہ مکہ مکرمہ پر حکمران ہوئے تو انھوں نے آنحضرت ﷺ کی خواہش کے مطابق از سر نو بیت اللہ کی تعمیر کی۔ لیکن جب وہ شہید کردیئے گئے تو حجاج بن یوسف اور اس کی حکومت کو چونکہ آپ ( رض) کا ہر فعل ناپسند تھا اور وہ کسی طور یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کا یہ کارنامہ تادیر باقی رہے چناچہ انھوں نے لوگوں میں یہ مشہور کردیا کہ عبداللہ بن زبیر ( رض) نے کعبہ کی نئی تعمیر اپنی خواہش کے مطابق کی ہے۔ اس لیے ہمیں دوبارہ کعبہ کو ویسا ہی بنادینا چاہیے جیسا حضور ﷺ چھوڑ کر گئے تھے۔ چناچہ انھوں نے بیت اللہ کو گرا کر پھر اسی طرح بنادیا جیسے قریش نے بنایا تھا۔ اس کے بعد بنی عباس کی حکومت نے اسے ازسرنو بیت ابراہیمی کے مطابق بنانے کا اظہار کیا تو امام مالک (رح) نے یہ فتویٰ دیا کہ اب بار بار بیت اللہ کو منہدم کرنا اور بنانا مستقبل کے بادشاہوں کے لیے بیت اللہ کو کھلونا بنادینا ہے۔ اس طرح سے ہر بادشاہ اپنی ناموری کے لیے اس کی اس سرِ نو تعمیر کرنا چاہے گا اس لیے اب جس حالت میں ہے اسے اسی حالت میں چھوڑ دینا بہتر ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اہل کتاب نے مختلف طریقوں سے بیت المقدس کو بیت اللہ سے قدیم ثابت کرنے کی کوشش کی حالانکہ دنیا کے تمام مؤرخین جانتے ہیں کہ بیت المقدس کی تاریخ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سینکڑوں سال بعد حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہوئی ہے اور اس حقیقت کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جس کو عصبیت نے اندھا کر رکھا ہو۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ ایک حدیث سے غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ مناسب ہے کہ اسے بھی ذکر کردیا جائے۔ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ذر ( رض) نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد کونسی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد حرام یعنی کعبہ شریف۔ انھوں نے عرض کیا اس کے بعد کون سی مسجد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا بیت المقدس۔ پھر دریافت کیا کہ ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا چالیس سال کا۔ اس کے عموماً دو جواب دیئے جاتے ہیں اور امکان یہ ہے کہ دونوں صحیح ہوں۔ پہلا یہ کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے پہلے بیت اللہ تعمیر کیا اور اسکے بعد کسی وقت انہی کے ہاتھوں بیت المقدس کی تعمیرہوئی۔ یہ دونوں اللہ کے گھر طوفانِ نوح سے منہدم ہوگئے۔ بیت اللہ کی تعمیر دوبارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں وجود میں آئی، لیکن بیت المقدس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تعمیر فرمایا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سینکڑوں سال بعد دنیا میں تشریف لائے اور دوسرا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ دونوں گھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہی تعمیر کیے تھے پہلے بیت اللہ اور پھر بیت المقدس، لیکن بیت المقدس کے مسمار ہونے کے بعد پھر اس کی دوبارہ تعمیر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہوئی۔ کوئی سی بھی صورت رہی ہو اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ بیت ابراہیمی کو قدامت کا شرف حاصل ہے۔ بیت اللہ کی برکات دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ نے اپنے گھر کو مبارک بھی بنایا ہے اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بھی۔ جہاں تک برکات کا تعلق ہے وہ ظاہری بھی ہیں اور معنوی بھی۔ ظاہری برکات کو تو اس گھر کے وجود سے لے کر آج تک ہر دیکھنے والی نگاہ دیکھتی چلی آئی ہے کہ مکہ معظمہ ایک خشک جگہ ریگستان میں آباد ہے جس کی زمین اس حد تک بنجر ہے کہ اس میں کوئی چیز نہیں اگتی۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے دعائے ابراہیمی سے ایسا انتظام فرمایا ہے کہ ہر موسم میں ہر طرح کے پھل، ترکاریاں اور تمام ضروریات اس قدر افراط کے ساتھ موجود رہتی ہیں کہ آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ یہاں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی اور پھر حج کے ایام میں تو لوگوں کی تعداد ہمیشہ سے ہزاروں سے متجاوز رہی ہے اور اب تو یہ تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے، لیکن تاریخ ہمیں نہیں بتلاتی کہ کسی دور میں بھی وہاں ضروریات ِ زندگی کی کمی کا شکوہ پیدا ہوا ہو۔ یہ بھی تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ عرب کی سرزمین ہمیشہ سے فتنہ و و فساد کا مرکز رہی ہے۔ قبائل کی دشمنیوں نے اسے ہمیشہ جہنم بنائے رکھا، لیکن اس کے باوجود اشہر حرم میں بطور خاص اور باقی مہینوں میں بطور عام قافلہ ہائے تجارت کا آنا جانا اور ہر ملک سے سامان کی آمد و رفت ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ ہے جس کی ظاہر بین نگاہ کوئی توجیہ نہیں کرسکتی۔ لیکن حقیقت بین جانتے ہیں کہ یہ مکہ معظمہ میں جو ایک چوکور سادہ سا مکان قبا پہنے کھڑا ہے یہ اس سے عقیدت کی برکات ہیں اور اس کے مالک کی عنایات ہیں کہ اس نے جزیرہ عرب کے رہنے والوں کو اپنی تمام خرابیوں کے باوجود اس گھر کی برکتوں سے محروم نہیں ہونے دیا۔ جہاں تک معنوی برکات کا تعلق ہے اس میں بعض باتیں تو بالکل واضح ہیں کہ حج اور عمرہ اسی گھر کے ساتھ مخصوص عبادت ہے جس کے اجروثواب کی کوئی انتہا نہیں اور پھر اس گھر میں پڑھے جانے والی نماز اور طواف اپنے اندر جو اجر وثواب رکھتے ہیں وہ بھی اہل علم سے مخفی نہیں اور اس کی وہ روحانی برکتیں جسے صرف اہل دل دیکھ سکتے ہیں، ان کا تو کوئی حد و شمار نہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس گھر کی روحانی برکتوں نے جزیرہ عرب کو کتنا نوازا اور ان کے واسطے سے دنیا کو کیا کچھ دیا۔ بیت اللہ میں واضح نشانیاں دوسری آیت کریمہ میں چند واضح نشانیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جن میں سے تین نشانیاں تو اس آیت کریمہ میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ کتنی ایسی نشانیاں ہیں جنھیں دیکھنے والی نگاہ دیکھ سکتی ہے۔ آیت کریمہ میں متذکرہ نشانیوں کے علاوہ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی گھر کی برکت سے اہل مکہ کو ہمیشہ مخالفین کے حملوں سے محفوظ رکھا۔ ابرہہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اس کی افرادی قوت کا مقابلہ پورے جزیرہ عرب کے بس کی بات نہ تھی اور مزید یہ کہ اس کے ساتھ ایک بہت بڑی تعداد ہاتھیوں کی بھی تھی جس کا عربوں کے پاس کوئی توڑ نہ تھا۔ لیکن تاریخ شہادت دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے ذریعے اس عظیم لشکر پر ایسی سنگ باری کرائی کہ اس کا بھرکس نکال کر رکھ دیا اور سوائے اکا دکا آدمیوں کے کوئی شخص زندہ واپس اپنے وطن نہ جاسکا۔ وہاں امن و اطمینان کا عالم یہ رہا ہے کہ وحشی جانور تک حدود حرم میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے۔ یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ بیت اللہ کی جس جانب بارش ہوتی ہے اس جانب کے ممالک زیادہ بارش سے سیراب ہوتے ہیں۔ سید جلال الدین سیوطی ( رح) نے خصائص کبریٰ میں بھی اس کا ذکر فرمایا اور ہر حاجی اپنی نگاہوں سے بھی دیکھ سکتا ہے کہ ہر حاجی تین دن جمرات پر کنکریاں پھینکتا ہے۔ حاجیوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ کروڑوں سے زیادہ تعداد میں یہ کنکریاں پھینکی جاتی ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ایک ہی دن میں وہاں کنکریوں کے ڈھیر لگ جائیں اور جمرات کنکریوں کے ڈھیر میں چھپ جائیں اور چند سالوں میں وہاں منیٰ کے دوسرے پہاڑوں سے بڑے پہاڑ کھڑے ہوجائیں۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ کنکریاں مارنے والے روزانہ دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک مختصر تعداد کے سوا باقی سب کنکر غائب ہوجاتے ہیں اور وہاں رہ جانے والے کنکر وہ ہوتے ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ کنکر ان لوگوں کے ہیں جن کا حج قبول نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کنکر اٹھانے کے لیے آج کل تو معلوم نہیں گزشتہ سالوں تک تو حکومت کی طرف سے کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا تو پھر آخر یہ کنکر کہاں چلے جاتے ہیں ؟ اس کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ یہ اس کے گھر کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور آنحضْرت ﷺ کے معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ ہے کہ کنکر اللہ کی جانب سے اٹھا لیے جاتے ہیں۔ آیتِ کریمہ میں بیان کردہ تین نشانیاں جن نشانیوں کو قرآن کریم نے ذکر کیا ہے ان میں سب سے بڑی نشانی ” مقامِ ابراہیم “ ہے۔ مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی دیواریں اٹھائیں۔ یہ پتھر ” گو “ کا کام دیتا تھا۔ حسب ضرورت اوپر اٹھتا جاتا اور پھر خود بخود نیچے آجاتا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ اس پتھر پر کھڑے ہو کر پتھر چنتے اور دیواریں اٹھاتے تھے۔ اس لیے یہ پتھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدموں میں پگھل گیا اور آپ کے دونوں قدموں کے نشانات اس پتھر میں ثبت ہوگئے۔ آج بھی وہ پتھر کعبۃ اللہ کے ساتھ موجود ہے۔ پہلے یہ بالکل دیوارِ کعبہ کے ساتھ تھا اب پیچھے ہٹا دیا گیا ہے تاکہ طواف کرنے والوں کو دشواری نہ ہو۔ اس حکومت نے ایک بلوری خول کے اندر اس کو محفوظ کردیا ہے۔ وہ بلور اتنا صاف ہے کہ اس سے صاف وہ پتھر اپنی گہرائی سمیت بڑی آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ پچھلی صدیوں میں چونکہ یہ پتھر باہر رہا تو لوگ برکت کے حصول کے لیے اس میں پانی ڈال کے پیتے، اس پر ہاتھ پھیرتے، اسے چومتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی گہرائی گہری ہوتی چلی گئی۔ اس لیے اس حکومت نے اسے انسانی دسترس سے بچا کر پیتل کی تاروں میں ایک صاف ستھرے بلور کے خول میں بند کر کے رکھ دیا ہے تاکہ لوگوں کے چھونے سے خراب بھی نہ ہو اور لوگ اپنی عقیدت کی آنکھوں کو ٹھنڈک دینے کے لیے آسانی سے دیکھ بھی سکیں۔ دوسری نشانی یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ” اس میں جو شخص داخل ہوتا ہے وہ مامون اور محفوظ ہوجاتا ہے “۔ کسی کے باپ کا قاتل بھی وہاں بیٹے کے ہاتھوں غیر محفوظ نہیں ہوتا۔ اس محفوظ ہونے کے حوالے سے شریعت کے احکام یہ ہیں کہ جو شخص مسجد حرام میں داخل ہوجائے اسے نہ ستائو نہ قتل کرو۔ اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر کے یا کوئی اور جرم کر کے وہاں چلا جائے تو اسے حدود حرم میں سزا نہ دی جائے بلکہ اسے وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جائے۔ جب وہ حرم سے باہر نکلے تو باہر آنے پر اس پر سزا جاری کی جاسکتی ہے اور جہاں تک تکوینی طور پر اس حفاظت کا تعلق ہے آج تو شائد اس کے مظاہر کم کم دکھائی دیں لیکن وہ زمانہ جو انسان کی بہیمیت اور بدتہذیبی کا زمانہ ہے اس میں تو ہر دیکھنے والی نگاہ دیکھ سکتی تھی کہ وہاں اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو دیکھ کر بھی نگاہیں جھک جاتی تھیں۔ اس گھر کا ادب ایک ایسی رکاوٹ بن گیا تھا جس کی وجہ سے آدمی کے جذبات بےقابو نہیں ہوتے تھے بلکہ اگر اس کا اندیشہ بھی ہوتا تو ہر شخص اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتا۔ تیسری اس کی خصوصیت اور نشانی اس آیت کریمہ میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص پر جس کے پاس مصارفِ سفر ہوں اور جس کی صحت اور حالات سفر کی اجازت دیتے ہوں اس پر اس گھر کا حج فرض فرمایا “۔ ایک ایسی سرزمین جس میں دلچسپی کا کوئی ذریعہ نہ ہو، جس میں بظاہر خوبصورتی کا کوئی منظر ڈھونڈے سے بھی نہ ملتا ہو اور جس کا موسم بھی ہر ملک کے رہنے والوں کے لیے سازگار نہ ہو اور حج کی عبادت بھی بجائے خود ایک مشکل عبادت ہو، لیکن اس کے باوجود ہر سال لوگوں کا دیوانہ وار وہاں پہنچنا اور جو پہنچ نہ سکیں ان کا پہنچنے کے لیے تڑپنا اور وہاں پہنچ کر پروانوں کی طرح اللہ کے گھر کے پھیرے لگانا اور زیادہ سے زیادہ طواف کرنے کی کوشش کرنا، ایک ایسا منظر ہے کہ جس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ اس گھر کی خصوصیت ہے جو اللہ نے اس میں پیدا کردی ہے۔ ایک سیدھا سادھا سا گھر جو قبا پہنے کھڑا ہے اسے دیکھنے سے آنکھوں میں ٹھنڈک اترنے لگتی ہے۔ اس کا تصور کرنے سے دلوں کے جذبات بےقابو ہونے لگتے ہیں۔ اس کے گرد چکر لگانے سے عشق و جنوں کی وارفتگی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے ملتزم سے چمٹنے سے دل کی کدورتیں دھلتی اور دل میں آسودگی کی شبنم برسنے لگتی ہے۔ اس کے کنویں کا پانی پیتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آدمی کوثر و تسنیم کے جام پی رہا ہے۔ کوئی ممکن ہے یہ سمجھے کہ یہ کیفیتیں مذہب نے پیدا کی ہیں۔ لیکن اسلام کے آنے سے پہلے کی تاریخ کھنگال کر دیکھ لیجئے آپ کو افراط وتفریط ضرور دکھائی دے گی لیکن جہاں تک عشق کی وارفتگی کا تعلق ہے اور اس گھر کی خصوصیات کا تعلق ہے اس میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو جب حکم دیا گیا تھا کہ آپ ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر لوگوں کو پکاریئے کہ وہ اس گھر کا طواف کرنے کے لیے آئیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حیران ہو کر کہا تھا کہ یا اللہ یہاں میری آواز سننے والا کون ہے ؟ میری آواز تو ٹیلوں میں گم ہو کر رہ جائے گی تو اللہ نے فرمایا تھا کہ تم پکار کے تو دیکھو پھر دیکھنا کہ کس طرح تنگ اور دشوار گزار راستوں سے مریل سے مریل اونٹنیوں پر سوار ہو کر لوگ دیوانہ وار یہاں پہنچتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس زمانے سے لے کر جس زمانے کو ہم نہیں جانتے آج تک اس گھر کی کشش اور عقیدت میں اضافہ ہی ہوا ہے کوئی کمی نہیں آئی۔ سچ کہا تھا ریاض خیر آبادی نے ؎؎ کوئی تو بات ہے آخر کو میکدے میں ضرور جو دور دور سے میخوار آکے پیتے ہیں انڈیا کے ایک عمر رسیدہ شاعر سے میں یہ سن کر حیران رہ گیا جو بحری جہاز پر آئے تھے۔ انھوں نے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا ؎ کہاں میری قسمت عنایت ہے ان کی سفینے پہ ان کے چلا جا رہا ہوں ہوائوں کی بخشش لیے جا رہی ہے حرم کی کشش کے مزے پا رہا ہوں
Top