Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 96
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ
اِنَّ
: بیشک
اَوَّلَ
: پہلا
بَيْتٍ
: گھر
وُّضِعَ
: مقرر کیا گیا
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
لَلَّذِيْ
: جو
بِبَكَّةَ
: مکہ میں
مُبٰرَكًا
: برکت والا
وَّھُدًى
: اور ہدایت
لِّلْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہانوں کے لیے
بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا یہی ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور ہدایت تمام جہان والوں کے لیے
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّـلْعٰـلَمِیْنَ ۔ ج فِیْہِ اٰیٰتٌ م بَـیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْـٰرہِیْمَ 5 ج وَمَنْ دَخَلَـہٗ کَانَ اٰمِنًا ط وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْـبَـیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰـلَمِیْنَ ۔ (بےشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا یہی ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور ہدایت تمام جہان والوں کے لیے۔ اس میں واضح نشانیاں ہیں جیسے مقام ابراہیم ہے اور جو اس میں داخل ہوگیا وہ مامون ہوگیا اور جو لوگ وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان کے اوپر اس گھر کا حج ہے اور جس نے کفر کیا تو اللہ بےپرواہ ہے جہان والوں سے) (96 تا 97) گزشتہ بعض آیات کریمہ میں یہود کی بعض خیانتوں کا افشا کیا گیا ہے اور اسی حوالے سے ان کے بعض اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ انھوں نے تورات میں جو خیانتیں کی ہیں ان کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا رشتہ کسی طرح بیت اللہ اور مکہ معظمہ سے کاٹ دیا جائے اور تورات میں جو فضائل بیت اللہ کے حوالے سے ذکر فرمائے گئے ہیں ان کا مصداق بیت المقدس کو ٹھہرایا جائے۔ نیز یہ بھی ثابت کیا جائے کہ آخری آنے والے پیغمبر وہ بنی اسرائیل میں سے ہوں گے اور ان کا مرکز یہی بیت المقدس ہوگا۔ ان تمام باتوں کی اصلاح کے لیے بیت اللہ کی تاریخ کے چند ابواب کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ فرمائی ہے کہ دنیا میں جس گھر کو اللہ کے گھر کی حیثیت سے قدامت کا شرف حاصل ہے اور جو ہمیشہ سے انسانوں کی سجدہ گاہ چلا آرہا ہے اور جس کے طواف اور زیارت کے لیے دنیا کے دور دراز گوشوں سے لوگ کشاں کشاں آتے رہے ہیں وہ یہی اللہ کا گھر ہے جو مکہ معظمہ میں آباد ہے۔ مکہ اور بکہ کی تشریح اس آیت کریمہ میں مکہ کو بکہ کے تلفظ کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے کیونکہ قدیم صحیفوں میں اس کا یہی نام آیا ہے اور آج بھی یہ لفظ شہر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً بعلبک مشہور شہر ہے جس کا تاریخ کی عام کتابوں میں ذکر ملتا ہے۔ اس کا معنی ہی یہ ہے کہ ” بعل کا شہر “۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ بابل سے تشریف لائے تھے اور بابل کی زبان میں شہر یا آبادی کو ” بکہ “ کہتے ہیں۔ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس شہر کے لیے اپنی زبان کا لفظ پسند فرمایا۔ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں اسی اصل لفظ کو زندہ فرما کر اس طرف اشارہ کیا کہ اہل کتاب نے اگرچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تاریخ اور آخری بعثت کے نشانات کو گم کرنے کے لیے اس لفظ کے تلفظ اور قرأت میں سو طرح سے تغیرات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ حتیٰ کہ اسے تحریف کی سان پر چڑھا کر بکہ کی بجائے ” بکاء “ بنایا اور اس کو مصدر قرار دے کر اس کا ترجمہ رونا کردیا اور اس طرح وادی بکہ کو رونے کی وادی میں تبدیل کر کے اس سب سے بڑے نشان کو گم کرنے کی کوشش کی جس سے لوگوں کو نبی آخر الزماں ﷺ کے بارے میں رہنمائی مل سکتی تھی۔ قرآن کریم نے بکہ کا لفظ بول کر قدیم نام کی یاددہانی کی ہے جو تورات کے صحیفوں میں موجود تھا بلکہ بعض صحیفوں، مثلاً زبور میں اب بھی موجود ہے۔ سب سے پہلا اللہ کا گھر چناچہ یہی وہ گھر ہے جو سب سے پہلے روئے زمین پر اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا۔ بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت آدم و حوا (علیہ السلام) کے دنیا میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو وحی الٰہی کے ذریعے حکم دیا کہ وہ اللہ کا گھر بنائیں۔ چناچہ انھوں نے حکم کی تعمیل کی، پھر انھیں حکم دیا کہ اس کا طواف کریں اور ان سے یہ بھی کہا گیا کہ یہ وہ گھر ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی بناء کردہ یہ تعمیر حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ تک باقی تھی۔ طوفانِ نوح میں منہدم ہوگئی اور رفتہ رفتہ اس کے نشانات مٹ گئے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہی بنیادوں کو اللہ کے دیئے ہوئے علم سے تلاش کر کے ان پر اس گھر کی عمارت اٹھائی۔ اسی لیے قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس گھر کی ابتدائی طور پر تعمیر کی بلکہ فرمایا : وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمَاعِیْلُ (اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بنیادیں پہلے موجود تھیں ان پر دیواریں چنی جا رہی تھیں۔ ایک دوسری آیت کریمہ میں اور بھی واضح اشارہ فرمایا ہے : وَاِذْ بَوَّأْنَا لِاِبْرَاہِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ (جب ہم نے ابراہیم کو اس گھر کی جگہ کا ٹھکانہ بتایا) اسی علم کی روشنی میں آپ نے وہ بنیادیں تلاش کیں اور اس کے اوپر عمارت تعمیر کی۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ پھر کسی حادثہ کے باعث بیت اللہ کی عمارت منہدم ہوگئی تو قبیلہ جرہم کی ایک جماعت نے اس کی تعمیر کی۔ پھر ایک دفعہ ضرورت پیش آئی تو عمالقہ نے اس کو تعمیر کیا۔ پھر سیلاب کی وجہ سے اس کی دیواریں پھٹ گئیں تو قریش نے رسول اللہ ﷺ کی قبل از نبوت زندگی میں اسے بنایا اور آنحضرت ﷺ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود اس کی جگہ پہ رکھا۔ لیکن قریش نے اس نئی تعمیر میں کچھ تبدیلیاں بھی کیں، انھوں نے اپنے اوپر پابندی لگائی تھی کہ اللہ کے اس گھر کی تعمیر میں حلال کمائی کے سوا کوئی اور پیسہ نہیں لگایا جائے گا۔ چناچہ اس طرح جو ان کے پاس مصارف جمع ہوئے وہ اتنے نہ تھے کہ پورا گھر اس سے تعمیر ہوسکتا۔ چناچہ انھوں نے بیت اللہ کا ایک حصہ جسے حطیم کہا جاتا ہے۔ اسے بیت اللہ سے باہر چھوڑ دیا اور مزید یہ کیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تعمیر کردہ کعبہ میں دو دروازے تھے ایک داخل ہونے کا اور دوسرا پشت کی جانب باہر نکلنے کا۔ قریش نے صرف مشرقی دروازہ کو باقی رکھا اور مزید تغیر یہ کیا کہ دروازہ سطح زمین سے کافی بلند کردیا تاکہ کوئی شخص بدوں اجازت آسانی سے اندر نہ جاسکے۔ زندگی کے آخری دنوں میں آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) سے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ موجودہ تعمیر کو منہدم کر کے اسے بنائِ ابراہیمی کے مطابق بنا دوں۔ لیکن نو مسلم لوگوں کی وجہ سے میں احتیاط کرتا ہوں کہ کہیں وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں۔ چناچہ آپ ﷺ نے اس میں کوئی تبدیلی نہ فرمائی۔ حضرت عبدللہ بن زبیر ( رض) کو چونکہ آنحضرت ﷺ کی اس خواہش کا علم تھا چناچہ جب وہ مکہ مکرمہ پر حکمران ہوئے تو انھوں نے آنحضرت ﷺ کی خواہش کے مطابق از سر نو بیت اللہ کی تعمیر کی۔ لیکن جب وہ شہید کردیئے گئے تو حجاج بن یوسف اور اس کی حکومت کو چونکہ آپ ( رض) کا ہر فعل ناپسند تھا اور وہ کسی طور یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کا یہ کارنامہ تادیر باقی رہے چناچہ انھوں نے لوگوں میں یہ مشہور کردیا کہ عبداللہ بن زبیر ( رض) نے کعبہ کی نئی تعمیر اپنی خواہش کے مطابق کی ہے۔ اس لیے ہمیں دوبارہ کعبہ کو ویسا ہی بنادینا چاہیے جیسا حضور ﷺ چھوڑ کر گئے تھے۔ چناچہ انھوں نے بیت اللہ کو گرا کر پھر اسی طرح بنادیا جیسے قریش نے بنایا تھا۔ اس کے بعد بنی عباس کی حکومت نے اسے ازسرنو بیت ابراہیمی کے مطابق بنانے کا اظہار کیا تو امام مالک (رح) نے یہ فتویٰ دیا کہ اب بار بار بیت اللہ کو منہدم کرنا اور بنانا مستقبل کے بادشاہوں کے لیے بیت اللہ کو کھلونا بنادینا ہے۔ اس طرح سے ہر بادشاہ اپنی ناموری کے لیے اس کی اس سرِ نو تعمیر کرنا چاہے گا اس لیے اب جس حالت میں ہے اسے اسی حالت میں چھوڑ دینا بہتر ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اہل کتاب نے مختلف طریقوں سے بیت المقدس کو بیت اللہ سے قدیم ثابت کرنے کی کوشش کی حالانکہ دنیا کے تمام مؤرخین جانتے ہیں کہ بیت المقدس کی تاریخ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سینکڑوں سال بعد حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہوئی ہے اور اس حقیقت کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جس کو عصبیت نے اندھا کر رکھا ہو۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ ایک حدیث سے غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ مناسب ہے کہ اسے بھی ذکر کردیا جائے۔ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ذر ( رض) نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد کونسی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد حرام یعنی کعبہ شریف۔ انھوں نے عرض کیا اس کے بعد کون سی مسجد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا بیت المقدس۔ پھر دریافت کیا کہ ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا چالیس سال کا۔ اس کے عموماً دو جواب دیئے جاتے ہیں اور امکان یہ ہے کہ دونوں صحیح ہوں۔ پہلا یہ کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے پہلے بیت اللہ تعمیر کیا اور اسکے بعد کسی وقت انہی کے ہاتھوں بیت المقدس کی تعمیرہوئی۔ یہ دونوں اللہ کے گھر طوفانِ نوح سے منہدم ہوگئے۔ بیت اللہ کی تعمیر دوبارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں وجود میں آئی، لیکن بیت المقدس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تعمیر فرمایا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سینکڑوں سال بعد دنیا میں تشریف لائے اور دوسرا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ دونوں گھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہی تعمیر کیے تھے پہلے بیت اللہ اور پھر بیت المقدس، لیکن بیت المقدس کے مسمار ہونے کے بعد پھر اس کی دوبارہ تعمیر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہوئی۔ کوئی سی بھی صورت رہی ہو اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ بیت ابراہیمی کو قدامت کا شرف حاصل ہے۔ بیت اللہ کی برکات دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ نے اپنے گھر کو مبارک بھی بنایا ہے اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بھی۔ جہاں تک برکات کا تعلق ہے وہ ظاہری بھی ہیں اور معنوی بھی۔ ظاہری برکات کو تو اس گھر کے وجود سے لے کر آج تک ہر دیکھنے والی نگاہ دیکھتی چلی آئی ہے کہ مکہ معظمہ ایک خشک جگہ ریگستان میں آباد ہے جس کی زمین اس حد تک بنجر ہے کہ اس میں کوئی چیز نہیں اگتی۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے دعائے ابراہیمی سے ایسا انتظام فرمایا ہے کہ ہر موسم میں ہر طرح کے پھل، ترکاریاں اور تمام ضروریات اس قدر افراط کے ساتھ موجود رہتی ہیں کہ آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ یہاں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی اور پھر حج کے ایام میں تو لوگوں کی تعداد ہمیشہ سے ہزاروں سے متجاوز رہی ہے اور اب تو یہ تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے، لیکن تاریخ ہمیں نہیں بتلاتی کہ کسی دور میں بھی وہاں ضروریات ِ زندگی کی کمی کا شکوہ پیدا ہوا ہو۔ یہ بھی تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ عرب کی سرزمین ہمیشہ سے فتنہ و و فساد کا مرکز رہی ہے۔ قبائل کی دشمنیوں نے اسے ہمیشہ جہنم بنائے رکھا، لیکن اس کے باوجود اشہر حرم میں بطور خاص اور باقی مہینوں میں بطور عام قافلہ ہائے تجارت کا آنا جانا اور ہر ملک سے سامان کی آمد و رفت ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ ہے جس کی ظاہر بین نگاہ کوئی توجیہ نہیں کرسکتی۔ لیکن حقیقت بین جانتے ہیں کہ یہ مکہ معظمہ میں جو ایک چوکور سادہ سا مکان قبا پہنے کھڑا ہے یہ اس سے عقیدت کی برکات ہیں اور اس کے مالک کی عنایات ہیں کہ اس نے جزیرہ عرب کے رہنے والوں کو اپنی تمام خرابیوں کے باوجود اس گھر کی برکتوں سے محروم نہیں ہونے دیا۔ جہاں تک معنوی برکات کا تعلق ہے اس میں بعض باتیں تو بالکل واضح ہیں کہ حج اور عمرہ اسی گھر کے ساتھ مخصوص عبادت ہے جس کے اجروثواب کی کوئی انتہا نہیں اور پھر اس گھر میں پڑھے جانے والی نماز اور طواف اپنے اندر جو اجر وثواب رکھتے ہیں وہ بھی اہل علم سے مخفی نہیں اور اس کی وہ روحانی برکتیں جسے صرف اہل دل دیکھ سکتے ہیں، ان کا تو کوئی حد و شمار نہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس گھر کی روحانی برکتوں نے جزیرہ عرب کو کتنا نوازا اور ان کے واسطے سے دنیا کو کیا کچھ دیا۔ بیت اللہ میں واضح نشانیاں دوسری آیت کریمہ میں چند واضح نشانیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جن میں سے تین نشانیاں تو اس آیت کریمہ میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ کتنی ایسی نشانیاں ہیں جنھیں دیکھنے والی نگاہ دیکھ سکتی ہے۔ آیت کریمہ میں متذکرہ نشانیوں کے علاوہ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی گھر کی برکت سے اہل مکہ کو ہمیشہ مخالفین کے حملوں سے محفوظ رکھا۔ ابرہہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اس کی افرادی قوت کا مقابلہ پورے جزیرہ عرب کے بس کی بات نہ تھی اور مزید یہ کہ اس کے ساتھ ایک بہت بڑی تعداد ہاتھیوں کی بھی تھی جس کا عربوں کے پاس کوئی توڑ نہ تھا۔ لیکن تاریخ شہادت دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے ذریعے اس عظیم لشکر پر ایسی سنگ باری کرائی کہ اس کا بھرکس نکال کر رکھ دیا اور سوائے اکا دکا آدمیوں کے کوئی شخص زندہ واپس اپنے وطن نہ جاسکا۔ وہاں امن و اطمینان کا عالم یہ رہا ہے کہ وحشی جانور تک حدود حرم میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے۔ یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ بیت اللہ کی جس جانب بارش ہوتی ہے اس جانب کے ممالک زیادہ بارش سے سیراب ہوتے ہیں۔ سید جلال الدین سیوطی ( رح) نے خصائص کبریٰ میں بھی اس کا ذکر فرمایا اور ہر حاجی اپنی نگاہوں سے بھی دیکھ سکتا ہے کہ ہر حاجی تین دن جمرات پر کنکریاں پھینکتا ہے۔ حاجیوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ کروڑوں سے زیادہ تعداد میں یہ کنکریاں پھینکی جاتی ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ایک ہی دن میں وہاں کنکریوں کے ڈھیر لگ جائیں اور جمرات کنکریوں کے ڈھیر میں چھپ جائیں اور چند سالوں میں وہاں منیٰ کے دوسرے پہاڑوں سے بڑے پہاڑ کھڑے ہوجائیں۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ کنکریاں مارنے والے روزانہ دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک مختصر تعداد کے سوا باقی سب کنکر غائب ہوجاتے ہیں اور وہاں رہ جانے والے کنکر وہ ہوتے ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ کنکر ان لوگوں کے ہیں جن کا حج قبول نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کنکر اٹھانے کے لیے آج کل تو معلوم نہیں گزشتہ سالوں تک تو حکومت کی طرف سے کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا تو پھر آخر یہ کنکر کہاں چلے جاتے ہیں ؟ اس کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ یہ اس کے گھر کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور آنحضْرت ﷺ کے معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ ہے کہ کنکر اللہ کی جانب سے اٹھا لیے جاتے ہیں۔ آیتِ کریمہ میں بیان کردہ تین نشانیاں جن نشانیوں کو قرآن کریم نے ذکر کیا ہے ان میں سب سے بڑی نشانی ” مقامِ ابراہیم “ ہے۔ مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی دیواریں اٹھائیں۔ یہ پتھر ” گو “ کا کام دیتا تھا۔ حسب ضرورت اوپر اٹھتا جاتا اور پھر خود بخود نیچے آجاتا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ اس پتھر پر کھڑے ہو کر پتھر چنتے اور دیواریں اٹھاتے تھے۔ اس لیے یہ پتھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدموں میں پگھل گیا اور آپ کے دونوں قدموں کے نشانات اس پتھر میں ثبت ہوگئے۔ آج بھی وہ پتھر کعبۃ اللہ کے ساتھ موجود ہے۔ پہلے یہ بالکل دیوارِ کعبہ کے ساتھ تھا اب پیچھے ہٹا دیا گیا ہے تاکہ طواف کرنے والوں کو دشواری نہ ہو۔ اس حکومت نے ایک بلوری خول کے اندر اس کو محفوظ کردیا ہے۔ وہ بلور اتنا صاف ہے کہ اس سے صاف وہ پتھر اپنی گہرائی سمیت بڑی آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ پچھلی صدیوں میں چونکہ یہ پتھر باہر رہا تو لوگ برکت کے حصول کے لیے اس میں پانی ڈال کے پیتے، اس پر ہاتھ پھیرتے، اسے چومتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی گہرائی گہری ہوتی چلی گئی۔ اس لیے اس حکومت نے اسے انسانی دسترس سے بچا کر پیتل کی تاروں میں ایک صاف ستھرے بلور کے خول میں بند کر کے رکھ دیا ہے تاکہ لوگوں کے چھونے سے خراب بھی نہ ہو اور لوگ اپنی عقیدت کی آنکھوں کو ٹھنڈک دینے کے لیے آسانی سے دیکھ بھی سکیں۔ دوسری نشانی یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ” اس میں جو شخص داخل ہوتا ہے وہ مامون اور محفوظ ہوجاتا ہے “۔ کسی کے باپ کا قاتل بھی وہاں بیٹے کے ہاتھوں غیر محفوظ نہیں ہوتا۔ اس محفوظ ہونے کے حوالے سے شریعت کے احکام یہ ہیں کہ جو شخص مسجد حرام میں داخل ہوجائے اسے نہ ستائو نہ قتل کرو۔ اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر کے یا کوئی اور جرم کر کے وہاں چلا جائے تو اسے حدود حرم میں سزا نہ دی جائے بلکہ اسے وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جائے۔ جب وہ حرم سے باہر نکلے تو باہر آنے پر اس پر سزا جاری کی جاسکتی ہے اور جہاں تک تکوینی طور پر اس حفاظت کا تعلق ہے آج تو شائد اس کے مظاہر کم کم دکھائی دیں لیکن وہ زمانہ جو انسان کی بہیمیت اور بدتہذیبی کا زمانہ ہے اس میں تو ہر دیکھنے والی نگاہ دیکھ سکتی تھی کہ وہاں اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو دیکھ کر بھی نگاہیں جھک جاتی تھیں۔ اس گھر کا ادب ایک ایسی رکاوٹ بن گیا تھا جس کی وجہ سے آدمی کے جذبات بےقابو نہیں ہوتے تھے بلکہ اگر اس کا اندیشہ بھی ہوتا تو ہر شخص اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتا۔ تیسری اس کی خصوصیت اور نشانی اس آیت کریمہ میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص پر جس کے پاس مصارفِ سفر ہوں اور جس کی صحت اور حالات سفر کی اجازت دیتے ہوں اس پر اس گھر کا حج فرض فرمایا “۔ ایک ایسی سرزمین جس میں دلچسپی کا کوئی ذریعہ نہ ہو، جس میں بظاہر خوبصورتی کا کوئی منظر ڈھونڈے سے بھی نہ ملتا ہو اور جس کا موسم بھی ہر ملک کے رہنے والوں کے لیے سازگار نہ ہو اور حج کی عبادت بھی بجائے خود ایک مشکل عبادت ہو، لیکن اس کے باوجود ہر سال لوگوں کا دیوانہ وار وہاں پہنچنا اور جو پہنچ نہ سکیں ان کا پہنچنے کے لیے تڑپنا اور وہاں پہنچ کر پروانوں کی طرح اللہ کے گھر کے پھیرے لگانا اور زیادہ سے زیادہ طواف کرنے کی کوشش کرنا، ایک ایسا منظر ہے کہ جس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ اس گھر کی خصوصیت ہے جو اللہ نے اس میں پیدا کردی ہے۔ ایک سیدھا سادھا سا گھر جو قبا پہنے کھڑا ہے اسے دیکھنے سے آنکھوں میں ٹھنڈک اترنے لگتی ہے۔ اس کا تصور کرنے سے دلوں کے جذبات بےقابو ہونے لگتے ہیں۔ اس کے گرد چکر لگانے سے عشق و جنوں کی وارفتگی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے ملتزم سے چمٹنے سے دل کی کدورتیں دھلتی اور دل میں آسودگی کی شبنم برسنے لگتی ہے۔ اس کے کنویں کا پانی پیتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آدمی کوثر و تسنیم کے جام پی رہا ہے۔ کوئی ممکن ہے یہ سمجھے کہ یہ کیفیتیں مذہب نے پیدا کی ہیں۔ لیکن اسلام کے آنے سے پہلے کی تاریخ کھنگال کر دیکھ لیجئے آپ کو افراط وتفریط ضرور دکھائی دے گی لیکن جہاں تک عشق کی وارفتگی کا تعلق ہے اور اس گھر کی خصوصیات کا تعلق ہے اس میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو جب حکم دیا گیا تھا کہ آپ ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر لوگوں کو پکاریئے کہ وہ اس گھر کا طواف کرنے کے لیے آئیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حیران ہو کر کہا تھا کہ یا اللہ یہاں میری آواز سننے والا کون ہے ؟ میری آواز تو ٹیلوں میں گم ہو کر رہ جائے گی تو اللہ نے فرمایا تھا کہ تم پکار کے تو دیکھو پھر دیکھنا کہ کس طرح تنگ اور دشوار گزار راستوں سے مریل سے مریل اونٹنیوں پر سوار ہو کر لوگ دیوانہ وار یہاں پہنچتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس زمانے سے لے کر جس زمانے کو ہم نہیں جانتے آج تک اس گھر کی کشش اور عقیدت میں اضافہ ہی ہوا ہے کوئی کمی نہیں آئی۔ سچ کہا تھا ریاض خیر آبادی نے ؎؎ کوئی تو بات ہے آخر کو میکدے میں ضرور جو دور دور سے میخوار آکے پیتے ہیں انڈیا کے ایک عمر رسیدہ شاعر سے میں یہ سن کر حیران رہ گیا جو بحری جہاز پر آئے تھے۔ انھوں نے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا ؎ کہاں میری قسمت عنایت ہے ان کی سفینے پہ ان کے چلا جا رہا ہوں ہوائوں کی بخشش لیے جا رہی ہے حرم کی کشش کے مزے پا رہا ہوں
Top