Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 96
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَوَّلَ : پہلا بَيْتٍ : گھر وُّضِعَ : مقرر کیا گیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَلَّذِيْ : جو بِبَكَّةَ : مکہ میں مُبٰرَكًا : برکت والا وَّھُدًى : اور ہدایت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ وہی ہے جو مکہ میں ہے بابرکت اور جہاں کے لئے موجب ہدایت۔
اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) صحیح مسلم میں حضرت ابو ذر ؓ سے ثابت ہے کہ انہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس پہلی مسجد کے بارے میں پوچھا جو زمین پر بنائی گئی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” مسجد حرام “ میں نے عرض کی پھر کون سی مسجد بنائی گئی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ’ مسجد اقصی “ میں نے عرض کیا : ان دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” چالیس سال، پھر ساری زمین تیرے لئے مسجد بنا دی گئی جہاں کہیں تجھے نماز کا وقت ہوجائے تو تو وہیں نماز پڑھ لے۔ (1) (صحیح بخاری، باب یزفون النسلان فی المشی، حدیث نمبر 3115 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حضرت مجاہد (رح) اور حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : اس سے پہلے کوئی عبادت خانہ نہیں بنایا گیا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : بیت سے پہلے بیوت تو کثیر تھے، لیکن یہاں بیت سے مراد وہ ہے جو عبادت کے لئے سب سے اولی بنایا گیا۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے بیان کیا : مسلمان اور یہودی ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے پس یہودیوں نے کہا : بیت المقدس کعبہ سے افضل اور اعظم ہے، کیونکہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کی ہجرت گاہ ہے اور ارض مقدس میں ہے، اور مسلمانوں نے کہا : (نہیں) بلکہ کعبہ معظمہ افضل ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور سورة البقرہ میں بیت اللہ کی بناوٹ اور سب سے اول جس نے اسے بنایا اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے زمین کی کسی شے کو تخلیق فرمانے سے دو ہزار برس پہلے اس بیت کی جگہ کو تخلیق فرمایا اور اس کی بنیادیں نیچے والی ساتویں زمین میں ہیں اور جہاں تک مسجد اقصی کا تعلق ہے تو اسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بنایا ہے، جیسا کہ اسے امام نسائی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر و ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : جب حضرت سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) نے بیت المقدس کو بنایا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین خصلتوں اور اعزاز کا سوال کیا (انہوں نے اللہ تعالیٰ سے) حاکم بنائے جانے کی التجا کی کہ وہ انہیں حکومت عطا فرمائے، پس وہ انہیں عطا کردی گئی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ملک کی التجا کی کہ آپ کے بعد کسی کے لئے ایسی بادشاہی نہ ہو پس وہ بھی آپ کو عطا کردی گئی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کی جب وہ مسجد بنانے سے فارغ ہوئے کہ جو بھی اس میں آکر نماز ادا کرے تو وہ اسے گناہوں سے اسی طرح پاک کر دے جس طرح وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا پس یہ اعزاز بھی انہیں عطا کردیا گیا۔ “ دونوں حدیثوں کے درمیان اشکال ہے، کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے درمیان طویل مدت کا فاصلہ ہے اہل تواریخ نے کہا ہے : وہ مدت ہزار برس سے زیادہ ہے۔ پس کہا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے نئے سے بنایا جس کی بنیاد ان کے سوا (کسی اور) نے رکھی تھی، اور یہ روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) نے بیت اللہ شریف بنایا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، پس یہ جائز ہے کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد میں سے کسی نے چالیس سال بعد بیت المقدس کو تعمیر کیا اور یہ بھی جائز ہے کہ ملائکہ نے ہی بیت اللہ کو بنانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اذن سے اسے بنایا ہو، یہ سب احتمالات ہیں، واللہ۔ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو زمین میں گھر بنانے کا حکم ارشاد فرمایا اور یہ کہ وہ اس کا طواف کریں اور یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے پہلے تھا، پھر حضرت آدم (علیہ السلام) نے اسے ہی بنایا جو پہلے بنایا جا چکا تھا اور اس کا طواف کیا، پھر ان کے بعد دیگر انبیاء (علیہم السلام) نے بھی، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی بناوٹ کو مکمل کیا۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” للذی ببکۃ “ یہ ان کی خبر ہے اور اس میں لام برائے تاکید ہے اور بکۃ سے مراد وہ خاص جگہ ہے جہاں بیت اللہ شریف ہے اور مکہ تو سارا شہر ہے، یہ حضرت مالک بن انس ؓ سے منقول ہے۔ اور محمد بن شہاب نے کہا ہے کہ بکۃ سے مراد مسجد ہے اور مکہ سے مراد سارا حرم ہے، اس میں گھر داخل ہوتے ہیں، اور مجاہد (رح) نے کہا ہے ؛ بکۃ سے مراد مکہ ہی ہے۔ پس اس میں میم کو با سے بدل دیا گیا ہے جیسا کہ عربوں نے کہا ہے : طین لازب و لازم، حضرت ضحاک (رح) اور مورج نے یہ ہے۔ پھر یہ کہا گیا ہے کہ بکۃ، البک، سے مشتق ہے اور اس کا معنی ازدھام اور بھیڑ ہے، جب لوگ اکٹھے ہوجائیں تو کہا جاتا ہے تباک القوم، طواف کی جگہ لوگوں کی بھیڑ اور اژدحام ہونے کی وجہ سے اس کا نام بکہ رکھا گیا ہے، اور البک کا معنی ہے دق العنق۔ گردن توڑنا، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام بکہ اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ بڑے بڑے جابروں کی گردنیں توڑ دیتا ہے جب وہ اس میں ظلم و زیادتی کی طرف مائل ہوں، حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے فرمایا : جب بھی کسی جابر نے برائی کی نیت سے اس کا قصد کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے پاش پاش کردیا۔ اور رہا مکہ ! تو کہا گیا ہے کہ اس کا یہ نام پانی کی قلت کی وجہ سے رکھا گیا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا یہ نام اس لئے ہے کیونکہ اس کا قصد کرکے آنے والا اتنی مشقت پاتا ہے جو اس کی ہڈیوں سے گود اور مغز کو خشک کردیتی ہے، یہ معنی ان کے اس قول سے ماخوذ ہے : مککت العظم اذا اخرجت مافیہ “ یعنی ہڈیوں میں جو کچھ ہے تو وہ سب نکال لے تب کہے گا مککت العظم (میں نے ہڈی کو خالی کرلیا) اور ملک الفصیل ضرع امہ وامت کہ جب بچھڑا کھیری میں موجود سارا دودھ چوس لے اور اسے پی لے تب یہ کہا جاتا ہے۔ اور شاعر نے کہا ہے : مکت فلم تبق فی اجوافھا دررا : انہوں نے دودھ چوسا اور ان میں کوئی دودھ نہ چھوڑا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا یہ نام اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ اسے ہلاک اور تباہ کردیتا ہے جو اس میں ظلم و زیادتی کرے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ اس کا یہ نام اس لئے ہے کیونکہ لوگ اس میں تمسخر کرتے تھے اور ہنستے تھے اور یہ معنی اس ارشاد باری تعالیٰ سے لیا گیا ہے : (آیت) ” وما کان صلاتھم عند البیت الا مکاء وتصدیۃ “۔ یعنی وہ اس میں تالیاں اور سیٹیاں بجاتے ہیں۔ اور یہ اس کے منصرف ہونے کو ثابت نہیں کرتا، کیونکہ مکۃ دو حرفی مضاعف ہے۔ اور مکاء سہ حرفی معتل ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” مبرکا “ اسے مبارک بنایا کیونکہ اس میں علم کو کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے اور برکت کا معنی کثرۃ الخیر ہے، اور یہ لفظ وضع کی ضمیر سے حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے یا بکۃ سے ظرف ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ اور معنی یہ ہے : الذی استقر ببکۃ مبارکا “۔ (یعنی وہ جو مکہ میں قیام پذیر رہا جس میں برکت رکھ دی گئی) اور غیر قرآن میں مبارک پڑھنا بھی جائز ہے یا تو اس لئے کہ یہ خبر ثانی ہے یا اس لئے کہ یہ الذی سے بدل ہے یا اس بنا پر کہ مبتدا مضمر ہے۔ (آیت) ” وھدی للعلمین “۔ یہ اس پر معطوف ہے۔ اور یہ وھو ھدی للعالمین کے معنی میں ہوگا، اور غیر قرآن میں اسے مبارک جر کے ساتھ پڑھنا بھی جائز ہے اس صورت میں یہ البیت کی نعت اور صفت ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فیہ ایت بینت “۔ اسے مبتدا یا صفت ہونے کی وجہ سے رفع دیا گیا ہے، اہل مکہ، ابن عباس، مجاہد، اور سعید بن جبیر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ایۃ بینۃ واحد پڑھا ہے، یعنی مقام ابراہیم واحد اور ایک ہے، انہوں نے کہا کہ مقام ابراہیم میں ان کے قدموں کا نشان ایک واضح اور ظاہر علامت ہے، اور حضرت مجاہد (رح) نے مقام ابراہیم کی تفسیر پورے حرم سے کی ہے، اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس کی آیات اور نشانیوں میں سے صفا اور مروہ، رکن اور مقام ابراہیم ہیں۔ اور باقیوں نے اسے جمع کے صیغہ کے ساتھ پڑھا ہے اور انہوں نے اس سے ارادہ مقام ابراہیم، حجر اسود، حطیم، زمزم اور دیگر تمام مشاعر کا کیا ہے، فرمایا : ابو جعفر النحاس نے کہا ہے : جنہوں نے آیات بینات پڑھا ہے تو ان کی قرات زیادہ واضح اور بین ہے، کیونکہ صفا اور مروہ بھی آیات و علامات میں سے ہیں، اور ان میں سے یہ بھی ہے کہ پرندہ صحیح سالم حالت میں بیت اللہ شریف سے بلند نہیں ہو سکتا۔ اور ان میں سے یہ بھی ہے کہ جب کوئی شکاری شکار کو تلاش کر رہا ہو تو جب وہ حرم پاک میں داخل ہوجائے تو وہ اسے چھوڑ دیتا ہے اور ان میں سے یہ بھی ہے کہ بارش جب رکن یمانی کی جانب ہو تو ہریالی اور شادابی یمن میں ہوتی ہے اور جب رکن شامی کی جانب ہو تو شادابی شام میں ہوتی ہے، اور جب پورے بیت اللہ پر ہو تو شادابی سارے شہروں میں آتی ہے اور ان میں سے یہ بھی ہے کہ جمرات پر جس قدر اضافہ کیا جاتا ہے اور ایک ہی مقدار پر دکھائی دیتے ہیں۔ اور المقام ان کے اس قول سے ہے قمت مقاما اور یہ وہ جگہ جس میں کھڑا ہوا جاتا ہے اور المقام تیرے اس قول سے ہے اقمت مقاما اور یہ سورة البقرہ میں گزر چکا ہے اور مقام میں اختلاف بھی گزر چکا ہے اور اس میں صحیح یہ ہے اور المقام مبتدا ہونے کی بنا پر مرفوع ہے، اور خبر محذوف ہے، اور تقدیر کلام ہے : منھا مقام ابراہیم۔ اخفش نے یہی کہا ہے اور محمد بن یزید نے بیان کیا ہے کہ مقام آیات سے بدل ہے اور اس میں ایک تیسرا قول بھی ہے، یعنی بمعنی ھی مقام ابراہیم ہے۔ اور کلام عرب میں اخفش کا قول معروف ہے جیسا کہ زہیر نے کہا ہے : لھا متاع واعوان غدون بہ قتب وغرب اذا ما افرغ انسحقا : یعنی اس کا بہاؤ دور ہوگیا اور ختم ہوگیا۔ اور ابو العباس کا قول ہے، بیشک مقام بمعنی مقامات ہے، کیونکہ یہ مصدر ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم “۔ یعنی فی اطرافھا “۔ اور اسے وہ حدیث جو اس طرح مروی ہے اور تقویت دیتی ہے۔ الحج (کلہ) مقام ابراہیم (کہ حج سارے کا سارا مقام ابراہیم ہے۔ ) مسئلہ نمبر : (5) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ومن دخلہ کان امنا “۔ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : یہ بھی حرم پاک کی نشانیوں میں سے ہے نحاس نے کہا ہے : یہ قول اچھا ہے، کیونکہ اس کے گردونواح سے لوگوں کو لوٹ لیا جاتا تھا، لیکن اس میں کوئی جابر اور ظالم نہیں داخل ہوتا تھا، حالانکہ وہ بیت المقدس میں داخل ہوئے اور اسے پامال کیا اور حرم پاک تک کسی کو نہ پہنچنے دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” الم ترکیف فعل ربک باصحب الفیل “۔ (الفیل) ترجمہ : کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ ) اور بعض اہل معانی نے کہا ہے : آیت صورۃ تو خبر ہے حالانکہ اس میں معنی امر کا ہے تقدیر کلام یہ ہے ” ومن دخلہ فامنوہ (اور جو اس میں داخل ہوجائے تو تم اسے امن اور پناہ دے دو ) جیسا کہ یہ قول ہے۔ : (آیت) ” فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج “۔ یعنی نہ تم برائی کی باتیں کرو اور نہ فسق کا ارتکاب کرو اور نہ ہی آپس میں جھگڑا فساد کرو۔ اسی معنی کی وجہ سے امام سابق حضرت نعمان بن ثابت ؓ نے کہا ہے : جس نے گناہ کا ارتکاب کیا اور اس کے سبب وہ حد کا مستحق بن گیا پھر اس نے حرم پاک میں پناہ لے لی تو اس نے اپنے آپ کو محفوظ کرلیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ومن دخلہ کان امنا “۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے امن اور پناہ کو واجب قرار دیا جو اس میں داخل ہوگیا اور یہی سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے اس میں حضرت ابن عباس ؓ اور دیگر افراد ہیں۔ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 284) ہر وہ جس نے یہ کہا ہے وہ دو اعتبار سے وہم میں مبتلا ہوا ہے “ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ آیت کو سمجھا ہی نہیں کہ یہ ماضی میں ہونے والے واقعہ کو خبر ہے اور اس سے مستقبل کے حکم کا اثبات مقصود نہیں اور دوسرا یہ ہے کہ اسے یہ معلوم نہیں کہ وہ امن اور پناہ گزر چکی ہے اور یہ کہ قتل و قتال اس کے بعد اس میں واقع ہوا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی خبر واقع نہ ہوگی، بخلاف اس کے جسکی خبر دی گئی ہے، پس یہ بھی اس پر دلیل ہے کہ یہ ماضی میں ہوچکا ہے، اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے مناقضہ کیا اور فرمایا : جب وہ حرم میں پناہ لے لے تو اسے نہ کھلایا جائے گا اور نہ پلایا جائے گا نہ اس کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جائے گا اور نہ ہی کلام اس سے کی جائے گی یہاں تک کہ وہ باہر نکل آئے، پس اسے نکلنے پر مجبور کرنا اس کے ساتھ اس کا امن میں ہونا اور محفوظ ہونا صحیح نہ ہوگا، اور آپ ہی سے مروی ہے کہ آپ نے کہا : حرم پاک میں اعضاء میں قصاص واقع ہو سکتا ہے حالانکہ اس کے ساتھ بھی امن صحیح نہیں ہے اور جمہور علماء نے کہا ہے کہ حرم پاک میں حدود قائم کی جاسکتی ہیں، تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ نے ابن خطل کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا حالانکہ وہ غلاف کعبہ کے ساتھ چمٹا پڑا تھا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ثوری (رح) نے منصور سے انہوں نے مجاہد (رح) سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے : جس کسی نے حرم میں حد کا ارتکاب کیا تو اس پر حرم میں حد قائم کی جائے گی اور اگر حل میں اس کا ارتکاب کیا اور پھر حرم میں پناہ لے لی تو اس سے نہ کلام کی جائے اور نہ خریدو فروخت کی جائے یہاں تک کہ وہ حرم پاک سے نکل آئے تو پھر اس پر حد قائم کی جائے گی اور یہی امام شعبی کا قول ہے اور ہی کو فیوں کی حجت اور دلیل ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ آیت کے معنی سے یہی سمجھے ہیں اور وہ حبر الامۃ اور عالم الامۃ ہیں اور صحیح یہ ہیں کہ اس سے ہر اس پر نعمتوں کے شمار کرنے کا ارادہ اور قصد کیا گیا ہے جو ان سے جاہل اور ناواقف ہے اور عرب میں اس کے منکر بھی تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” اولم یروا انا جعلنا حرما امنا ویتخطف الناس من حولھم (العنکبوت : 67) ترجمہ : کیا انہوں نے (غور سے) نہیں دیکھا کہ ہم نے بنا دیا ہے حرم کو امن والا حالانکہ اچک لیا جاتا ہے لوگوں کو ان کے آس پاس سے۔ پس وہ دور جاہلیت میں تھے جو کوئی اس میں داخل ہوتا اور اس میں پناہ لے لیتا تو وہ قتل و غارت سے امن میں ہوجاتا، جیسا کہ اس کا بیان سورة مائدہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : جو کوئی دورجاہلیت میں ان میں داخل ہوا وہ امن پانے والا اور محفوظ ہوگیا۔ اور یہ حسن اور اچھا ہے (1) (تفسیر طبری جلد 5، صفحہ 601) اور روایت ہے کہ کسی ملحد نے بعض علماء کو کہا : کیا قرآن کریم میں نہیں ہے۔ (آیت) ” ومن دخلہ کان امنا “۔ پس ہم اس میں داخل ہوئے اور ہم نے اس اس طرح کیا اور جو کوئی اس میں تھا وہ محفوظ نہیں ہوا۔ تو انہوں نے انہیں کہا : کیا تو عربوں میں سے نہیں ہے ! جو کوئی یہ کہتا ہے ” من دخل داری کان امنا “۔ (جو کوئی میرے گھر میں داخل ہوگیا وہ محفوظ ہوگیا) وہ اس سے کیا مراد لیتا ہے ؟ کیا یہ اسی طرح نہیں کہ کوئی اپنی اطاعت اور پیروی کرنے والے کو کہے : کف عنہ فقد امنتہ وکفف تنہ ؟ (تو اس سے رک جا تحقیق میں نے اپنی پناہ دے رکھی ہے اور تو اس سے رک جائے ؟ اس نے کہا : ہاں کیوں نہیں، تو انہوں نے فرمایا پس اسی طرح یہ قول ہے۔ (آیت) ” ومن دخلہ کان امنا “۔ اور یحییٰ بن جعدہ نے کہا ہے : (آیت) ” ومن دخلہ کان امنا “۔ کا معنی ہے یعنی وہ آگ (کے عذاب) سے محفوظ ہوگیا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں یہ اپنے عموم پر نہیں ہے، کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے طویل حدیث شفاعت منقول ہے :” قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی قیامت کے دن حق کی بحث میں مومنین سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو قسم دلانے والا نہ ہوگا جو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگارہ میں اپنے ان بھائیوں کے لئے اصرار کر رہے ہوں جو کہ جہنم میں ہوں گے اسے ہمارے رب ! وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے اور حج ادا کرتے تھے، تو انہیں کہا جائے گا : اسے نکال لو جسے تم پہنچانتے ہوں “ الحدیث (2) (صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر 6886، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) بلاشبہ وہ آگ سے محفوظ ہوجائے ہوجائے گا جو مناسک ادا کرنے کے لئے اس میں داخل ہوا اس کی تعظیم کرتے ہوئے اس کے حق کو پہچانتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے۔ حضرت امام جعفر صادق ؓ نے فرمایا ہے : جو کوئی پورے اخلاص اور صفائے باطن کے ساتھ اس میں داخل ہو اجیسا کہ انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام اس میں داخل ہوئے تو یقینا وہ اس کے عذاب سے محفوظ ہوگیا۔ اور حضور نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کا یہی معنی ہے : ” جس نے حج کیا اور برائی کے بارے کوئی گفتگو نہ کی اور نہ ہی فسق کا مرتکب ہوا تو وہ اپنے گناہوں سے اسی طرح پاک ہوگیا جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا اور حج مبرور کی جزا سوائے جنت کے اور کوئی نہیں۔ “ حسن نے بیان کیا ہے : حج مبرور یہ ہے وہ دنیا سے دوری اختیار کرتے ہوئے اور آخرت میں رغبت رکھتے ہوئے واپس لوٹے۔ اور یہ اشعار بھی کہے : یا کعبۃ اللہ دعوۃ اللاجی دعوۃ مستشعر و محتاج : اے کعبہ معظمہ ! جو اللہ تعالیٰ کا گھر ہے پناہ لینے والے کے لئے دعا ہے اور شعار پہننے والے اور محتاج کے لئے جائے دعا ہے۔ ودع احبابہ ومسکنہ فجاء مابین خائف راجی۔ اپنے احباب اور اپنے مکینوں کو الوداع کہہ پس (ہر کوئی) بیم ورجا کی کیفیت لئے ہوئے آیا۔ ان یقبل اللہ سعیہ کر ما فاعطف علی وافد بن حجاج۔ اور تو ان میں سے ہے جن کی شفاعت کی امیدرکھی جاتی ہے پس تو وافد بن حجاج پر مہربانی فرما۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے کہ جو کوئی عمرہ قضا کے سال حضور نبی رحمت ﷺ کی معیت میں اس میں داخل ہوا وہ امان میں آگیا اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : لتدخلن المسجد الحرام انشاء اللہ آمنین۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں من غیر ذوی العقول کے لئے ہے اور یہ آیت شکار کے امان میں ہونے کے بارے ہے اور یہ شاذ ہے اور قرآن کریم میں ہے (آیت) ” فمنھم من یمشی علی بطنہ الآیہ۔
Top