Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 96
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَوَّلَ : پہلا بَيْتٍ : گھر وُّضِعَ : مقرر کیا گیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَلَّذِيْ : جو بِبَكَّةَ : مکہ میں مُبٰرَكًا : برکت والا وَّھُدًى : اور ہدایت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا تھا
[اِنَّ : یقینا ] [اَوَّلَ بَیْتٍ : کوئی پہلا گھر جو ] [وُّضِعَ : رکھا گیا (یعنی بنایا گیا) ] [لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَلَّذِیْ : لازماً وہ ہے جو ] [بِبَکَّۃَ : مکہ میں ہے ] [مُبٰـرَکًا : برکت دیا ہوا ہوتے ہوئے ] [وَّہُدًی : اور ہدایت ہوتے ہوئے ] [لِّلْعٰلَمِیْنَ : تمام جہانوں کے لیے ] نوٹ (1) : تورات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں جس بیت ایل (بیت اللہ) کی تعمیر کا ذکر ہے وہ خانۂ کعبہ ہی ہوسکتا ہے نہ کہ بیت المقدس (تدبر قرآن) ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بائبل ہی کی شہادت کے مطابق حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے 450 سال بعد حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے بیت المقدس کو تعمیر کیا ۔ اس طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر نوبیت المقدس سے تقریباً 12 ۔ 13 سو سال پہلے ہوئی تھی۔ یہ بھی نوٹ کرلیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خانۂ کعبہ کو تعمیر نہیں کیا تھا بلکہ اس کی تعمیر نو کی تھی۔ سورة البقرۃ ‘ آیت 127 میں واضح الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) نے خانۂ کعبہ کی بنیادوں کو بلند کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خانۂ کعبہ پہلے سے موجود تھا اور طوفان نوح میں اس کی دیواریں گرگئی تھیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور بی بی حوا نے خانۂ کعبہ تعمیر کیا اور طواف کیا ۔ ابن کثیر (رح) نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔ لیکن اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ اس زمین پر لوگوں کے لیے تعمیر ہونے والی سب سے پہلی عبادت گاہ خانۂ کعبہ ہے۔ جیسا کہ ایک صحیح روایت میں نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ سب سے پہلی مسجد جو روئے زمین پر تعمیر کی گئی ‘ وہ مسجد حرام ہے اور دوسری مسجد بیت المقدس ہے اور ان دونوں کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہے۔ نوٹ (2) : حج کے لیے استطاعت کا مطلب یہ ہے کہ راستہ محفو ظ و مامون ہو ‘ آدمی صحت مند ہو ‘ حج پر جانے کا خرچہ موجود ہو اور غیر حاضری کے دوران پیچھے گھر والوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام ہو۔ جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرتا ہے وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہے۔ ایک شخص فرضیت کا انکار نہیں کرتالیکن استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا تو وہ بھی اپنے عمل سے کافروں جیسا ہوجاتا ہے۔ (معارف القرآن)
Top