بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Ghaashiya : 1
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِؕ
هَلْ : کیا اَتٰىكَ : تمہارے پاس آئی حَدِيْثُ : بات الْغَاشِيَةِ : ڈھانپنے والی
کچھ پہنچی تجھ کو بات اس چھپا لینے والی کی
خلاصہ تفسیر
آپ کو اس محیط عام واقعہ کی کچھ خبر پہنچی ہے (مراد اس واقعہ سے قیامت ہے کہ تمام عالم کو اس کا اثر محیط ہوگا اور مقصود اس استفہام سے تشویق ہے جس سے کلام کے سننے کا اہتمام پیدا ہو، آگے بصورت جواب اس خبر کی تفصیل ہے یعنی) بہت سے چہرے اس روز ذلیل اور مصیبت جھلتے خستہ (اور درماندہ) ہوں گے (اور) آتش سوزاں میں داخل ہوں گے (اور) کھولتے ہوئے چشمے سے پانی پلائے جاویں گے (اور) ان کو بجز ایک خاردار جھاڑ کے اور کوئی کھانا نصیب نہ ہوگا جو نہ (تو کھانے والوں کو) فربہ کرے گا اور نہ (ان کی) بھوک کو دفع کر دے گا (یعنی انہ اس میں غذا بننے کی صلاحیت ہے نہ بھوک رفع کرنے کی، اور مصیبت جھیلنے سے مراد حشر میں پریشان پھرنا اور دوزخ میں سلاسل اور اغلال کو لادنا، دوزخ کے پہاڑوں پر چڑھنا اور اس کے اثر سے خستگی ظاہر ہے۔ اور کھولتا ہوا چشمہ وہی جس کو دوسری آیتوں میں حمیم فرمایا ہے اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اس کا بھی چشمہ ہوگا، اور یہ فرمانا کہ اس کا طعام بجز ضریع کے اور نہ ہوگا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی لذیذ کھانا نہیں ہوگا، ضریع ہی کی طرح زقوم یا غسلین کا اسکے کھانے میں شامل ہونا اسکے منافع نہیں، اور چہروں سے مراد اصحاب چہرہ ہیں یہ تو دوزخیوں کا حال ہوا، آگے اہل جنگ کا حال ہے یعنی) بہت سے چہرے اس روز بارونق (اور) اپنے نیک کاموں کی بدولت خوش ہوں گے (اور) بہشت بریں میں ہوں گے جن میں کوئی لغوبات نہ سنیں گے (اور) اس (بہشت) میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گے (اور) اس (بہشت) میں اونچے اونچے تخت (بچھے) ہیں اور رکھے ہوئے آنجورے (موجود) ہیں (یعنی یہ سامان اسکے سامنے ہی موجود ہوگا تاکہ جب پانی کو جی چاہیں آرام کرلیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی نہ پڑے یہ تفصیل ہوئی جزا کی اور ان مضامین کو سن کر جو بعضے لوگ قیامت کا نکار کرتے ہیں جس میں یہ سب واقعات ہوں گے تو ان کی غلطی ہے کیونکہ) کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح (عجیب طور پر) پیدا کیا گیا (کہ ہیت اور خاصیت دونوں بہ نسبت دوسرے جانوروں کے اسمیں عجیب ہیں) اور آسمان کو (نہیں دیکھتے) کہ کس طرح بلند کیا گیا ہے اور پہاڑوں کو (نہیں دیکھتے) کہ کس طرح کھڑے کئے گئے اور زمین کو (نہیں دیکھتے) کس طرح بچھائی گئی ہے (یعنی ان چیزوں کو دیکھ کر قدرت الہیہ پر استدلال نہیں کرتے تاکہ اس کا بعث یعنی قیامت پر قادر ہونا سمجھ لیتے اور تخصیص ان چار چیزوں کی اسلئے ہی کہ عرب کے لوگ اکثر جنگلوں میں چلتے پھرتے رہتے تھے اس وقت انکے سامنے اونٹ ہوتے تھے اور اوپر آسمان اور نیچے زمین اور اطراف میں پہاڑ اسلئے ان علامات میں غور کرنے کیلئے ارشاد فرمایا گیا اور جب یہ لوگ باوجود قیام دلائل کے غور نہیں کرتے تو آپ بھی ان کی فکر میں زیادہ نہ پڑیئے بلکہ صرف) نصیحت کردیا کیجئے (کیونکہ) آپ تو بس صرف نصیحت کرنیوالے ہیں (اور) آپ ان پر مسلط نہیں ہیں (جو زیادہ فکر میں پڑیں) ہاں مگر جو روگردانی اور کفر کرے گا تو خدا اس کو (آخرت میں) بڑی سزا دے گا (کیونکہ) ہمارے ہی پاس ان کا آنا ہوگا پھر ہمارا ہی کام ان سے حساب لینا ہے (آپ زیادہ غم میں نہ پڑیئے)
Top