Maarif-ul-Quran - Al-Muminoon : 68
اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْنَ٘
اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا : کیا پس انہوں نے غور نہیں کیا الْقَوْلَ : کلام اَمْ : یا جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا مَّا : جو لَمْ يَاْتِ : نہیں آیا اٰبَآءَهُمُ : ان کے باپ دادا الْاَوَّلِيْنَ : پہلے
کیا انہوں نے اس کلام میں غور نہیں کیا ؟ یا ان کے پاس کچھ ایسی چیز آئی ہے جو ان کے اگلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی
بیان اسباب جہالت و ضلالت متکبرین و معرضین قال اللہ تعالیٰ ۔ افلم یدبرو القول .... الیٰ .... اذا ہم فیہ مبلسون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں متکبرین کی جہالت اور ضلالت کا اجمالی بیان تھا، اب ان آیات میں ان کی جہالت اور ضلالت کے اسباب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرکے ان کا رد فرماتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ یہ لوگ کن وجود اور اسباب کی بنا پر کفر اور انکار پر آمادہ ہوئے ان آیات میں حق تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ ان لوگوں کی گمراہی کا سبب ان پانچ باتوں میں سے کوئی ایک بات ہے۔ (1) یا تو یہ وجہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم میں غور و فکر نہیں کیا جو آپ ﷺ کی نبوت کی روشن دلیل ہے۔ اور ہر شان میں توریت اور انجیل سے کہیں بلند اور برتر ہے اور فصحاء عالم اس کے معارضہ سے عاجز ہیں۔ (2) یا یہ وجہ ہے کہ ان لوگوں نے آپ ﷺ کی بعثت کو بدعت اور امر غریب جانا۔ (3) یا یہ وجہ ہے کہ یہ لوگ آپ ﷺ کے حال سے اور آپ ﷺ کے صدق اور امانت سے واقف نہیں کہ امی ہیں۔ پڑھا لکھا کچھ نہیں مگر علم اور حکمت کے چشمے ان کی زبان فیض ترجمان سے جاری ہیں ذرا غور تو کریں۔ (4) یا یہ وجہ ہے کہ ان لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ معاذ اللہ حضور پرنور ﷺ مجنون اور دیوانہ ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ حضور پرنور ﷺ تو عقل مجسم ہیں جس نے آپ ﷺ کو سیکھ لیا گویا اس نے عقل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ (5) یا یہ وجہ ہے کہ ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ ان لوگوں سے کچھ مالی منفعت کے امیدوار اور طلب گار ہیں۔ حق جل شانہ نے کفار کی ان باتوں کو نقل کرکے سب کا جواب دیا اور بتلا دیا کہ ان کے ایمان نہ لانے کی اصل وجہ یہ نہیں کہ یہ لوگ قرآن کریم کے ظاہری اور معنوی اعجاز سے واقف نہیں یا آپ کی صداقت اور امانت سے یا آپ کی فہم و فراست سے واقف نہیں یا آپ کو پہچانتے نہیں یا آپ ان سے کسی مالی منفعت کے امیدوار ہیں ان میں سے انکار کی کوئی بھی وجہ نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ حسد اور بغض کی وجہ سے انکار کرتے ہیں اور غرور اور تکبر کی وجہ سے حق کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں اور بجائے اس کے کہ وہ حق کا اتباع کریں چاہتے یہ ہیں کہ حق ان کی خواہشوں کے تابع ہوجائے، بالفرض اگر حق ان کی خواہشوں کے تابع ہوجائے تو کارخانہ عالم درہم برہم ہوجائے۔ یہ لوگ بڑے سرکش ہیں بغیر کسی عذاب اور بلاء آسمانی کے حق کے سامنے جھکنے والے نہیں۔ (دیئکھو حاشیہ شیخ زادہ علیٰ تفسیر البیضاوی ص 407 ج 3 و حاشیہ صاوی علی تفسیر جلالین) چناچہ فرماتے ہیں کیا یہ لوگ جو قرآن اور صاحب قرآن کی تکذیب کر رہے ہیں اور کفر اور انکار پر تلے ہوئے ہیں آخر اس کا کیا سبب ہے پس یا تو اس کی تکذیب کی وجہ (1) یہ ہے کہ انہوں نے اس قرآن میں غور نہیں کیا تاکہ قرآن کا لفظی اور معنوی اعجاز ان پر ظاہر ہوجاتا اور جان لیتے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور سرتاپا حق اور صدق ہے اور دلائل توحید اور دلائل نبوت پر مشتمل ہے۔ یا تکذیب کی وجہ (2) یہ ہے کہ ان کے پاس ایسی انوکھی چیز آئی ہے جو ان کے اگلے باپ دادوں کے پاس نہیں آئی تھی تاکہ یہ عذر کریں کہ ہمیں کتاب اور پیغمبر کی کوئی خبر ہی نہیں ان سے پہلے پیغمبر بھی آچکے ہیں اور ان پر اللہ کی کتابیں بھی نازل ہوچکی ہیں۔ یا تکذیب کہ وجہ (3) یہ ہے کہ انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا اور اس کی امنات اور صداقت اور فہم و فراست کو نہیں جانا پس اس لیے وہ اس کے منکر ہیں۔ سو یہ غلط ہے یہ سب لوگ آپ ﷺ کو اور آپ کے حسب و نسب کو اور صدق و راستی اور امانت کو پہچانتے ہیں اور خوب جانتے ہیں۔ پھر انکار کی کیا وجہ۔ سوائے حسد کے کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اور علماء بنی اسرائیل تو آپ ﷺ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم اور ہرقل شاہ روم کا آپ ﷺ کے حسب و نسب اور صدق اور امانت کے متعلق سوال کرنا اور ابو سفیان ؓ کا جواب دینا معروف و مشہور ہے۔ یا تکذیب کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ معاذ اللہ آپ ﷺ کو جنون ہے سو یہ امر بالکل مشاہدہ کے خلاف ہے جن مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کے ساتھ آپ ﷺ آراستہ ہیں اور جن کا آپ ﷺ دوسروں کو حکم دیتے ہیں یہ سب آپ ﷺ کے کمال عقل اور کمال حکمت کی روشن دلیل ہے اور مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کی باتوں کو جنون اور دیوانگی بتلانا یہ خود جنون اور دیوانگی ہے یہ سب باتیں غلط ہیں بلکہ تکذیب کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ نبی ان کے پاس حق بات لے کر آیا ہے جس کی صحت اور حسن اور خوبی میں کسی عاقل کو کلام نہیں، اور ان میں سے اکثر لوگ حق سے متنفر اور بیزار ہیں کیونکہ وہ حق بات ان کی نفسانی خواہشوں اور طبعی آرزوؤں کے خلاف ہے اور نفس پرستوں کا کسی چیز سے ناخوش ہونا بھی اس کے حق ہونے کی دلیل ہے عقل کا فتویٰ یہ ہے کہ حق کا پیرو بنے اور اپنی نفسانی خواہشوں کو حق کے تابع کر دے۔ اور اگر بالفرض حق ان کی نفسانی خواہشوں کے تابع ہوجائے تو آسمان و زمین اور جو کوئی ان میں ہے۔ سب تباہ و برباد ہوجائیں یہ کارخانہ عالم عجیب و غریب حکمتوں اور مصلحتوں پر چل رہا ہے اور لوگوں کی خواہش اور اغراض مختلف ہیں اور عالم میں جو بھی فساد ہے وہ نفسانی خواہشوں کی بنا پر ہے پس ہم نے ان کو ایسی چیز نہیں دی جو ان کی تباہی اور بربادی کا سبب بنے بلکہ ہم ان کے پاس ان کی نصیحت کی چیز لائے ہیں۔ یعنی ان کے پاس ایسی کتاب لائے ہیں جس میں ان کے لیے وعظ و نصیحت ہے یا یہ معنی ہیں کہ ہم ان کے پاس ان کی عزت اور شرف کی چیز لائے ہیں پس وہ لوگ اپنی نصیحت کی چیز سے یا اپنی عزت و شرف کی چیز سے منہ موڑنے والے ہیں اور ظاہر ہے کہ اپنی نصیحت سے اور اپنی عزت اور شرف کی چیز سے روگردانی سخت حماقت ہے۔ یا تکذیب کی وجہ (5) یہ ہے کہ آپ ان سے کچھ مال حاصل کرنا چاہتے ہیں یا تبلیغ رسالت پر آپ ان سے اجرت چاہتے ہیں اس وجہ سے آپ ﷺ پر حرص اور طمع کی تہمت رکھتے ہیں پس ان لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ ان کی اجرت کی اور ان کے مال و دولت کی ذرہ برابر ضرورت نہیں تیرے پروردگار کا مال و دولت اور اس کا عطیہ سب سے بہتر ہے، آسمان و زمین کے خزانے تیرے پروردگار کے ہاتھ میں ہیں اور وہی سب سے بہتر روزی دینے والا ہے آپ ﷺ ان سے کیا اجرت مانگتے، آپ ﷺ تو علی الاعلان فرماتے تھے قل لا اشالکم علیہ اجرا۔ قل ما اسالکم علیہ من اجر وما انا من المتکلفین۔ اور تحقیق آپ ﷺ تو ان کو سیدھے راستہ کی دعوت دیتے ہیں آپ ﷺ کا مقصود تو آخرت ہے معاذ اللہ اجرت آپ ﷺ کا مقصود نہیں اور آپ ﷺ کی راہ ایسی سیدھی ہے کہ تمام عقول سلیمہ گواہی دیتی ہیں کہ وہ راہ راست ہے، اس میں کسی طرح کی کجی نہیں۔ اور تحقیق جو لوگ دنیا کی لذتوں پر فریفتہ ہیں اور آخرت کے راستہ سے بھاگ رہے ہیں اور آنکھ بند کرکے دنیا کے راستہ پر چلے جا رہے ہیں۔ اور طرح طرح کی آسمانی آفتیں اور مصیبتیں سامنے آرہی ہیں مگر ہوش میں نہیں آتے۔ اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور قحط کی تکلیف اور سختی جو ان پر پہنچ رہی ہے اس کو دور کردیں تو تب بھی احسان نہ مانیں اور برابر اپنی سرکشی میں سرگرداں رہیں اور مصیبت کے وقت جو خدا سے وعدے کیے تھے وہ سب طاق نسیان میں رکھ دئیے۔ کما قال اللہ تعالیٰ واذا مس الانسان الضر دعانا۔ وقال اللہ تعالیٰ اذا رکبوا فی الفلک دعوا اللہ مخلصین لہ الدین۔ اور البتہ تحقیق ہم نے ان کو بعض اوقات آفت اور مصیبت اور سختی میں بھی پکڑا۔ پھر بھی یہ سرکش اپنے رب کی طرف نہ جھکے اور نہ نرم پڑے اور نہ عاجزی اور زاری کی بلکہ برابر اپنی غفلت میں غرق رہے اور کفر اور مخالفت پر جمے رہے یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر ایک سخت عذاب کا دروازہ کھولا تو فوراً اس میں ناامید اور آس توڑنے والے ہوگئے اور دل کی ساری امیدیں ختم ہوئیں۔
Top