Mualim-ul-Irfan - Al-Muminoon : 68
اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْنَ٘
اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا : کیا پس انہوں نے غور نہیں کیا الْقَوْلَ : کلام اَمْ : یا جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا مَّا : جو لَمْ يَاْتِ : نہیں آیا اٰبَآءَهُمُ : ان کے باپ دادا الْاَوَّلِيْنَ : پہلے
کیا ان لوگوں نے غوروفکر نہیں کیا اس بات میں یا آئی ہے ان کے پاس وہ بات جو ان کے پہلے آبائو اجداد کے پاس نہیں آئی تھی
ربط آیات : پہلے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اوصاف بیان کیے اور پھر نافرمانوں کی غفلت کا شکوہ کیا کہ وہ قرآن پاک اور ہدایت کی طرف بالکل دھیان نہیں دیتے جس کی وجہ سے ان میں مسلسل انکار اور برائی پر اصرار پایا جاتا ہے۔ اللہ نے مشرکین کی اس غلط ذہنیت کا رد فرمایا۔ تدبرفی القرآن : اس اسی سلسلہ میں ارشاد ہوتا ہے افلم یدبروا القول کیا ان لوگوں نے اس قرآن پاک میں غوروفکر نہیں کیا ؟ یہ وہی قرآن کریم ہے جس کے متعلق گزشتہ آیات میں بیان ہوچکا ہے کہ کفار ومشرکین اسے قصہ کہانی سمجھ کر چھوڑ جاتے تھے۔ اگر یہ لوگ کلام الٰہی میں غوروفکر کرتے تو ان پر ہدایت کے دروازے کھل جاتے اور اللہ کے کلام کا کمال ان پر ظاہر ہوجاتا۔ اللہ نے عام انسانوں کے متعلق بھی فرمایا ہے ، افلا……………اقفالھا (محمد 24) کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے ، کیا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں ؟ ذرا غور کریں تو انہیں پتہ چلے کہ یہ بےمثال اور معجز کلام ہے۔ اللہ نے اس کے متعلق فرمایا وانزلنا…………مبینا (النساء 175) ہم نے آپ کی طرف نورمبین نازل کیا ہے۔ اگرچہ ساری کتب سماویہ نور ہیں مگر قرآن کو اللہ نے نور مبین کہہ کر پکارا ہے۔ یہ بڑی واضح روشنی ہے جس کے سامنے کفر وشرک کے تمام اندھیرے چھٹ جاتے ہیں اور ایمان کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اللہ نے تو یہ عبرت کا سامان مہیا کیا ہے مگر مشرکین اس کی طرف دھیا ن ہی نہیں دیتے۔ قرآن میں تدبر کے فقدان کی وجہ سے ہی آج مسلمانوں کی حالت بحیثیت مجموعی ناگفتہ بہ ہے۔ قرآن میں غوروفکر کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اس کا ترجمہ ہی سیکھ لیں ، مگر یہ تو قرآن کا ظاہری مفہوم بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے چہ جائیکہ اس کے علوم ومعارف تک پہنچتے ۔ اللہ نے فرمایا کتب انزلنہ ………………………لباب (ص 29) ہم نے یہ مبارک کتاب آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ صاحب عقل لوگ اس کی آیات میں غور وفکر کریں اور اس سے نصیحت حاصل کریں۔ مگر آج ہماری حالت یہ ہے کہ اس میں تدبر کرنے اور نصیحت حاصل کرنے کی بجائے اس کلام الٰہی کو موت کی رسومات کے لئے مخصوص کررکھا ہے۔ اس کا مصرف یہ رہ گیا ہے کہ تیسرے ، ساتے ، جمعرات یا چالیسویں کے موقع پر تلاوت کرلی جائے یا پھر قسم اٹھانے کے لئے اس پر ہاتھ رکھ دیا جائے۔ اللہ نے جس قدر تاکید کے ساتھ قرآن میں غوروفکر کی دعوت دی ہے ، ہم اسی قدر اس سے غفلت برت رہے ہیں۔ دنیا کا یہ دعام دستور ہے کہ کوئی شخص کسی کتاب کو سوچے سمجھے بغیر نہیں پڑھتا۔ اگر کوئی قصہ ، کہانی یا ناول کی کتاب بھی پڑھے گا تو اسے سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ مگر یہ اللہ کی پاک کتاب ہی واحد کتاب ہے جس کا معمولی ترجمہ بھی پڑھنے کی کوشش نہیں کی جاتی ، غوروفکر تو دور کی بات ہے بہرحال اللہ نے مشرکین کا شکوہ کیا ہے کہ وہ اس کتاب کو سمجھے بغیر اس کا انکار کردیتے ہیں۔ قرآن کی اساسی تعلیم : سورۃ ہذا کی ابتداء میں بیان ہوچکا ہے کہ اس میں اللہ نے توحید ، رسالت ، قیامت ، تردید شرک ، انبیاء کی تعلیم اور ان کی ملت واحدۃ کا ذکر ہے ۔ چناچہ انہی بنیادی حقائق کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ام جاء ھم مالم یات ابائھم الاولین کیا ان کے پاس کوئی ایسی نئی چیز آئی ہے جو اس سے پہلے ان کے آبائو اجداد کے پاس نہیں پہنچی ؟ کیا ان کے ایمان نہ لانے کی یہ وجہ ہے کہ اس کی تعلیم سے تو ان کے باپ دادا بھی واقف نہیں تھے۔ فرمایا یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایسی تعلیم ہے جو اللہ کے سارے نبی اپنے اپنے زمانے میں دیتے رہے اور ان کے آبائو اجداد کو بھی یقینا یہی تعلیم پہنچی ہے جو ہر نبی نے دی یقوم…………………غیرہ (المومنون 23) اے میری قوم کے لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ گویا یہ تعلیم اور اساس دین تمام انبیاء کی مشترک میراث ہے۔ یہ آخری نبی بھی تمہیں یہی تعلیم دے رہا ہے جو تمہارے بڑوں کو دی گئی ، لہٰذا تمہارے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ معرفت رسول : فرمایا ، کیا یہ اس لئے کتاب ہدیٰ کا انکار کر رہے ہیں امر لم یعرفوا رسولھم کہ انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا فھم لہ منکرون اور یہ اس کو اوبرا سمجھ رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ انکار کی وجہ یہ بھی نہیں ہے کیونکہ وہ تو اپنے رسول کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں۔ حضور ﷺ کی قبل از نبوت چالیس سالہ زندگی بھی ان کے درمیان گزری ہے۔ انہوں نے کبھی آپ کی سچائی ۔ امانت ، دیانت ، پاکیزہ اخلاق وگفتگو پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہ لوگ آپ کی پوری زندگی سے واقف ہیں ، ہر شخص ان کی دیانت ، امانت اور راست بازی کی تعریف کرتا رہا ہے اور اب دعویٰ نبوت کے بعدان کی آنکھیں ہی بدل گئی ہیں اور آپ کو اچھی طرح پہچاننے کے باوجود آپ کی رسالت کا انکار کر رہے ہیں۔ اسی بات کو اللہ نے سورة یونس میں حضور ﷺ کی زبان سے اس طرح کہلوایا ہے۔ فقد لبثت……………تعقلون (آیت 16) اس سے پیشتر میں نے عمر کا بہت سا حصہ تمہارے درمیان گزارا ہے۔ تم میرے اطوار وخصائل سے بخوبی واقف ہو۔ کیا اس کے باوجود تم عقل سے کام نہیں لیتے اور مجھے جھٹلاتے ہو ؟ فرمایا نہ تو قرآن نے کوئی نئی بات پیش کی ہے جس کا تم انکار کرتے ہو ، اور نہ ہی تم مجھ سے ناواقف ہو ، پھر بھلا ہدایت کو کیوں نہیں قبول کرتے ؟ فرمایا ، کیا تم اس وجہ سے حق کو قبول نہیں کرتے ام یقولون بہ جنۃ کہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے بنی کو نعوذ باللہ جنون ہوگیا ہے۔ یہ پاگلوں جیسی باتیں کرتا ہے۔ فرمایا تمہارا یہ اعتراض بھی غلط ہے ۔ حقیقت یہ ہے بل جاء ھم بالحق کہ اللہ کا رسول ان کے پاس سچی بات لے کر آیا ہے واکثرھم للحق کرھون مگر ان کی اکثریت حق کو پسند نہیں کرتی۔ جنون کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے صاف فرمادیا ہے ما انت…………بمجنون (القلم 2) اللہ کے فضل سے آپ مجنون نہیں ہیں۔ آپ تو منبع علم و حکمت ہیں۔ اللہ کے کلام کی تو کوئی مثال ہی نہیں ، خودآپ کے ذاتی کلام میں بھی کمال درجے کی حکمت اور موعظت پائی جاتی ہے۔ محدثین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو کلام کا ایسا ملکہ عطا فرمایا تھا کہ آپ کے ایک مزاحاً ادا کیے جانے والے جملہ سے محدثین نے ایک سو مسائل نکالے ہیں۔ آپ کو زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک جملے کی سارا سارا دن تشریح کرتے رہیں تو اب ان کا حق ادا نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا نبی تو سچی بات لایا ، مگر یہ لوگ ہٹ دھرمی کی بناء پر اس کو ناپسند کرتے ہیں۔ الٹا ان کی خواہش تو یہ ہے کہ خود نبی ان کی بات مان لیں۔ ودوا…… … …فیدھنون (القلم 9) چاہتے تھے کہ حضور ﷺ کچھ ڈھیلے پڑجائیں یعنی وہ بھی ہماری کوئی بات مان لیں تو ہم بھی ان کی کچھ باتیں تسلیم کرلیں گے۔ اس طرح وہ سودے بازی کرنا چاہتے تھے۔ بعض یہ اعتراض کرتے لو لا نزل…………عظیم (الزخرف 31) یہ قرآن مکہ اور طائف کی دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل ہوا۔ اس شخص کو ہم کیسے نبی مان لیں جس کی مالی طور پر کوئی حیثیت نہیں نہ زمین ہے ، نہ باغات ، نہ مال تجارت رکھتا ہے اور نہ اس کے پاس لونڈی غلام ہیں ۔ کیا اللہ کے پاس رسالت کے منصب کے لئے ابو طالب کا یتیم بھتیجا ہی رہ گیا تھا ؟ بہرحال اللہ نے ان سب اعتراضات کا رد فرمایا ہے اور واضح کیا ہے کہ اللہ کا نبی حق بات ہی لے کر آیا ہے۔ حق و باطل کی کشمکش : فرمایا ولن اتبع الحق اھواء ھم اگر حق ان منکرین کی خواہشات کی پیروی کرنے لگے لفسدت السموت والارض ومن فیھن تو آسمان و زمین اور ان میں موجود ہر چیز بگڑ جائے ، اگر اللہ کا نبی غلط بات کو تسلیم کرلے تو فرشتے اور انسان بگڑ جائیں۔ اور پھر ساری مخلوق بگڑ جائے۔ ایسی حالت میں کائنات کی بقاء کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔ مطلب یہ ہے کہ باطل ناپائیدار چیز ہے۔ فرمایا بل اتینھم بذکرھم ، بلکہ ہم تو قرآن کی صورت میں ان کے پاس ایک نصیحت لائے ہیں فھم عن ذکرھم معرضون مگر وہ لوگ اپنی نصیحت سے اعراض کرنے والے ہیں۔ یہ کتنی بدبختی کی بات ہے کہ بنی اسرائیل کی طرح پہلے تو کتاب کا خود مطالبہ کیا۔ کہتے تھے کہ اہل کتاب کے پاس کتاب موجود ہے ہمارے پاس بھی کوئی نصیحت کی کتاب ہونی چاہیے۔ مگر اللہ نے وہ کتاب نازل فرمائی تو صاف انکار کردیا۔ انبیاء کی بےلوث تبلیغ : فرمایا ام تسئلھم خرجا ، کیا آپ ان سے کوئی فیس یا ٹیکس مانگے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ آپ کی نبوت و رسالت کا انکار کر رہے ہیں۔ ایسی بات بھی نہیں ہے کہ اللہ کا نبی ان کو تبلیغ کرنے کی ان سے مزدور یامعاوضہ طلب کرے اس کے برخلاف اللہ کہ ہر نبی نے تو یہی اعلان کیا وما اسئلکم……………………العلمین (الشعرآئ 127) لوگو ! میں تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ، کیونکہ میرا معاوضہ تو اللہ کے پاس ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ میں نے تمہارے فائدہ کی بات کی ہے اور یہ میری بےلوث خدمت ہے۔ کاہن ، نجومی ، شاعر ، حکیم وغیرہ بھی اپنی کارکردگی کی فیس وصول کرتے ہیں مگر نبی کہتے ہیں کہ ہماری بات سنو اور قبول کرو ، یہی ہمارا معاوضہ ہے۔ فرمایا ، کیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہیں ؟ ایسی بات نہیں ہے بلکہ فخراج ربک خیر آپ کو اپنے پروردگار سے ملنے والا معاوضہ ہی بہتر ہے۔ دنیا کے حقیر مال اور چند ٹکوں کے مقابلہ میں اللہ کا عطا کردہ معاوضہ لازوال ہے۔ وھوخیرالرزقین ، اور وہ بہترروزی دینے والا ہے چونکہ رزاق اللہ ہے ، اس لئے اللہ کے نبی تم سے کچھ مانگتے ۔ یہاں پر کوئی خود غرضی یا مالی منفعت کی بات نہیں بلکہ سراسر اخلاص اور بےلوث خدمت ہے۔ اب بھی اگر تم اس دعوت حق کو قبول نہ کرو تو پھر یہ تمہاری بدبختی کی علامت ہے۔ فرمایا وانک لتدعوھم الی صراط مستقیم ، آپ تو ان کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔ اس میں آپ کی کوئی ذاتی غرض نہیں ہے۔ ایمان اور نیکی کا راستہ بتلا رہے ہیں ، عقیدے ، اخلاق اور عمل کی پاکیزگی کی بات بتا رہے ہیں۔ اسی کے متعلق اللہ نے فرمایا ھذا………مستقیم (الحجر 41) میری رضا ورحمت تک پہنچنے کا یہی سیدھا راستہ ہے۔ آخرت کی بےیقینی : فرمایا وان الذین لایومنون بالاخرۃ ، وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے عن الصراط لنا کبون ، وہ سیدھے راستے سے مڑنے والے ہیں۔ اگر انہیں قیامت اور محاسبہ اعمال کا ڈر ہوتا تو یہ ضرور سیدھا راستہ اختیار کرلیتے معاد کا عدم تصور ان کے لئے رکاوٹ کا باعث ہے۔ چناچہ آخرت کی بےیقینی کے متعلق اللہ نے قرآن میں مختلف مقامات پر فرمایا ہے کہ یہ گناہوں کا سبب بنتی ہے جب کوئی شخص محاسبہ اعمال سے بےخوف ہوجاتا ہے تو پھر وہ برائی کے ارتکاب میں کوئی پس وپیش نہیں کرتا۔ کفار کی عہد شکنی : بعض سورتوں میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ مشرکین کے شرور سے تنگ آکر حضور ﷺ نے اللہ کے ہاں درخواست کی کہ مولیٰ کریم ! ان کو کسی ابتلا میں ڈال شاید ان کو اسی طریقے سے تنبیہ ہوجائے۔ چناچہ مکہ میں قحط پڑگیا۔ پھر مشرکین کا ایک وفد نبی (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قحط سے نجات دے۔ انہوں نے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس مصیبت کے دور ہوجانے پر ہم آپ کی بات مان لیں گے۔ مگر جب وہ تکلیف دور ہوگئی تو ان کا کفر اور شرک پہلے سے بھی بڑھ گیا۔ اللہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے ولو رحمنھم وکشفنا مابھم من ضر اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور کی تکلیف دور کردیں للجوا فی طغیانھم یعمھون ، تو وہ اپنی سرکشی میں سرگرداں ہوجائیں گے۔ چناچہ جب مکہ والوں سے قحط دور ہوگیا۔ تو وہ پھر کفر پر اصرار کرنے لگے۔ فرعونیوں کے ذکر میں بھی ملتا ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی تو موسیٰ (علیہ السلام) سے آکر کہتے کہ دعا کرو تاکہ یہ تنگی دور ہوجائے تو ہم بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے۔ اور آپ پر ایمان بھی لے آئیں گے فلما ………………ینکفرون (الاعراف 35) پھر جب ہم نے ان کی تکلیف کو دور کردیا جو ان کہ پہنچنے والی تھی تو انہوں نے اس عہد کو توڑ دیا۔ شدید عذاب کا دروازہ : فرمایا ولقد اخذنھم بالعذاب بیشک ہم نے ان کو پکڑا عذاب کے ساتھ۔ فما استکا نوا لربھم وما یتضرعون پس یہ نہ دبے اپنے پروردگار کے سامنے اور نہ گڑگڑائے۔ شاہ عبدالقادر (رح) مفسر قرآن فرماتے ہیں کہ اس عذاب سے وہی مکہ کا قحط مراد ہے۔ اس آزمائش پر انہیں خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا چاہیے تھا ، گڑ گڑکر معافی طلب کرنی چاہیے تھی ، مگر انہوں نے نہ تو معافی طلب کی اور نہ حق کو تسلیم کیا۔ حتیٰ اذافتحنا علیھم بابا ذا عذاب شدید یہاں کہ کہ جب ہم نے ان پر شدید عذاب کا درازہ کھول دیا۔ اذھم فیہ مبلسون تو اچانک وہ اس میں مبتلا ہو کر مایوس ہوگئے۔ شدید عذاب کا دروازہ یہ ہے کہ اللہ نے اہل ایمان کو مسلسل جہاد کرنے کا حکم دے دیا۔ فرمایا کفار ومشرکین کی سرکوبی کے لئے جاھدوا………………سبیل اللہ (التوبہ 41) اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ذریعے جہاد میں کود پڑو۔ شروع شروع میں کفار نے اہل ایمان کا بڑا مقابلہ کیا جیسا کہ بدر ، احد اور احزاب کی جنگوں سے ظاہر ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ مغلوب ہونے لگے اور اس طرح اللہ نے ان کو شدید عذاب میں مبتلا کردیا۔ عرب کے کفار ومشرکین تو حضور ﷺ کی زندگی میں ہی ختم ہوگئے۔ ائمۃ الکفر مارے گئے اور باقیوں نے ایمان قبول کرلیا۔ پھر رومیوں اور ایرانیوں اور دوسری قوموں کے مقابلے میں بھی مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا۔ یہی مستقل سزا کا دروازہ تھا۔ پھر جب مسلمانوں میں جذبہ جہاد کمزور پڑگیا ، ان میں آرام طلبی اور عیش و عشرت آگئی ، تو ان کو وہ مقام حاصل نہ رہا۔ اب غیرمسلموں کے دلوں میں اہل ایمان کا کچھ رعب باقی نہیں رہا ، بلکہ اب یہ خود مغلوب ہو کر رہ گئے ہیں۔ کافروں پر شدید عذاب کا دروازہ آہستہ آہستہ بند ہوتا چلا گیا اور اب دنیاوی لحاظ سے یہ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں کہلاتی ہیں۔ اب سائنس اور ٹیکنالوجی ان کے پاس ہے اور مسلمان تہی دست ہوچکے ہیں۔ وجہ یہ ہے انہوں نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اس میں غوروفکر کرنا ترک کردیا ہے۔ نہ اس کے پروگرام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ ان میں بہت سی کمزوریاں پیدا ہوچکی ہیں اور اب یہ اغیار کے زیر اثر ہیں۔
Top