Tafseer-e-Saadi - Al-Muminoon : 68
اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْنَ٘
اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا : کیا پس انہوں نے غور نہیں کیا الْقَوْلَ : کلام اَمْ : یا جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا مَّا : جو لَمْ يَاْتِ : نہیں آیا اٰبَآءَهُمُ : ان کے باپ دادا الْاَوَّلِيْنَ : پہلے
کیا انہوں نے اس کلام میں غور نہیں کیا ؟ یا ان کے پاس کچھ ایسی چیز آئی ہے جو ان کے اگلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی
(آیت 68) ” کیا انہوں نے قرآن میں غورو فکر اور تدبر نہیں کیا ؟ “ اگر انہوں نے قرآن میں تدبر کیا ہوتا تو وہ ان کے ایمان کا موجب اور ان کو کفر منع کرنے کا باعث بنتا ‘ مگر ان پر جو مصیبت نازل ہوئی ہے اس کا سبب ان کا قرآن سے اعراض ہے اور یہ آیت اس امر کی دلیل ہے کہ قران میں تدبر و تفکر ہر بھالئی کی طرف دعوت دیتا ہے اور ہر برائی سے بچاتا ہے اور جس چیز نے ان کو قرآن میں غورو فکر کرنے سے روک رکھا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ (ام جاہ ھم ما لم یات اباہ ھم الاولین) یعنی یا اس بات نے ان کو ایمان لانے سے روک رکھا ہے کہ ان کے پاس رسول آیا اور ایک ایسی کتاب ان کے پاس آئی جو ان کے اباء و اجداد کے پاس نہیں آئی تھی لہذا یہ اپنے گمارہ آباء و اجداد کی راہ پر چلنے پر راضی ہوگئے۔ جو چیز اس راہ کے خلاف تھی انہوں نے اس کی مخالفت کی لہذا انہوں نے اور ان جیسے دوسرے کفار نے یہی کہا تھا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے۔ (وکذلک ما ارسلنا من قبلک فی قریۃ من نذیر الا قال مترفوھا انا وجد نا اباء نا علی امۃ و انا علی اثرھم مقتدون) (الزخرف : (23/43” اسی طرح آپ سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی ڈرانے والا بھیجا تو اس کے خوشحال لوگوں نے کہا ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک طریقے پر پایا ہے ہم تو انہیں کی پیروی کر رہے ہیں۔ “ اور ان کے جواب میں ہر رسول نے فرمایا : (اولو جئتکم باھدی مما وجد ثم علیہ اباء کم) (الزخرف : (44/43” کیا تم اسی طریقے پر چلتے چلے جاؤ گے خواہ میں تمہیں اس راستے سے بہتر راستہ بتاؤں جس پر تم نے آباء و اجداد کو پیا ہے “ اگر تمہارا مقصد حق جوئی ہے تو کیا تم اس کی پیروی کرو گے ؟ اور انہوں نے اپنی نیتوں کے مطابق جواب دیا : انا بما ارسلتم بہ کفرون (الزخرف 24/43:” بلاشبہ تمہیں جس چیز کے ساتھ بھیجا گیا ہے ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔ “ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (ام لم یعرفوا رسولھم فھم لہ منکرون ) ” یا کیا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا کہ وہ اس کا انکار کر رہے ہیں۔ “ یعنی کیا اس چیز نے انہیں اتباع حق سے روک رکھا ہے کہ ان کے رسسول محمد مصطفیٰ ﷺ ان کے ہاں غیر معروف ہیں اور وہ آپ ﷺ کو نہیں پہچانتے ‘ اس لیے ان کو ماننے سے انکار کار رہے ہیں ؟ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں جانتے نہ اس کی صداقت کے بارے میں ہمیں کچھ علم ہے۔ ہمیں چھوڑ دو ہم اس کے احوال کے بارے میں غور کریں اس کے متعلق لوگوں سے معلومات حاصل کریں۔ نہیں ! ایسی بات نہیں ہے بلکہ وہ رسول اللہ ﷺ کو اچھی طرح جانتے ہیں ‘ اس لیے ان کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں ؟ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں جانتے نہ اس کی صداقت کے بارے میں ہمیں کچھ علم ہے۔ ہمیں چھوڑ دو ہم اس کے احوال کے بارے میں غور کریں اس کے متعلق لوگوں سے معلومات حاصل کریں۔ نہیں ! ایسی بات نہیں ہے بلکہ وہ رسول اللہ ! ﷺ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ کو ان کا چھوٹا اور بڑا ہر شخص جانتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آپ اخلاق جمیلہ کے حامل ہیں وہ آپ کے صدق و امانت کو خوب پہچانتے ہیں حتیٰ کہ وہ آپ کو بعثت سے قبل ” الامین “ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ جب آپ ان کے پاس حق عظیم اور صدق مبین لے کر آئے تب انہوں نے آپ کی تصدیق کیوں نہ کی ؟ (ام یقولون بہ جنۃ ) ” یا وہ کہتے ہیں کہ اسے جنون لاحق ہے “ اس لیے وہ ایسی باتیں کر رہا ہے اور مجنون کی باتوں پر کان دھرا جاتا ہے نہ اس کی باتوں کا اتبار ہی کیا جاتا ہے کیونکہ وہ باطل اور احمقانہ باتیں منہ سے نکالتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : ( بل جاء ھم بالحق) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول ﷺ ان کے پاس حق ( امر ثابت) لے کر آئے ہیں جو سراسر صدق و عدل پر مبنی ہے جس میں کوئی اختلاف ہے نہ تناقض۔ تب وہ شخص جو یہ چیز لے کر آیا ہو وہ کیسے پاگل ہے ؟۔۔۔۔ بلکہ وہ تو علم و قعل اور مکارم اخلاق کے اعتبار سے درجہ کمال پر فائز ہے۔ اس میں گزشتہ مضمون سے انتقال ہے یعنی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو ایمان لانے سے صرف اس چیز نے منع کیا ہے کہ آپ ﷺ ( بل جاء ھم بالحق واکثرھم للحق کرھون) ” ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان کی اکثریت حق کو ناپسند کرنے والی ہے۔ “ اور سب سے بڑا حق جو آپ ﷺ ان کے پاس لے کر آئے ہیں ‘ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص اور غیر اللہ کی عبادت کو ترک کرنا ہے اور ان کا اس بات کو ناپسند کرنا اور اس سے تعجب کرنا معلوم ہے۔ پس رسول ﷺ کا حق لے کر آنا اور ان کا حق کو ناپسند کرنا دراصل حق کی تکذیب کرنا ہے۔ یہ کسی شک کی بنا پر ہے نہ رسول ﷺ کی تکذیب کی وجہ سے ‘ بلکہ یہ انکار حق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (فانھم لا یکذبونک ولکن الظلمین بایت اللہ یجحدون) (الانعام :33/2” یہ آپ ﷺ کو نہیں جھٹلا رہے ‘ بلکہ ظالم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کر رہے ہیں۔ “ اگر یہ کہا جائے کہ حق ان کی خواہشات نفس کے موفق کیوں نہیں تاکہ وہ ایمان لے آتے اور جلدی سے حق کی اطاعت کرتے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یوں جواب عطا فرمایا : (ولو اتبع الحق اھواء ھم لفسدت السموت والارض ) ” اگر حق ( دین ہی ان کی خواہشتات کی پیروی کرنے لگ جائے تو ‘ تو آسمانوں اور زمین کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے۔ “ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی خواہشات نفس ‘ ظلم ‘ کفر اور فساد پر مبنی اخلاق و اعمال سے متعلق ہوتی ہیں۔ پس اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگے تو آسمان و زمین ظلم اور عدل عدم عدل کی بنا پر درست ہیں۔ (بل اتینھم بذکر ھم ) ” یعنی ہم ان کے پاس یہ قرآن لے کر آئے جو ان کو ہر قسم کی بھلائی کی نصیحت کرتا ہے۔ یہ ان کا فخرو شرف ہے۔ اگر وہ اس کو قائم کریں گے تو لوگوں کی سیادت کریں گے۔ (فھم عن ذکرھم معرضون ) ” وہ اپنے ذکر ( نصیحت) سے روگردانی کر رہے ہیں “ اپنی بدبختی اور عدم توفیق کی وجہ سے (نسوا اللہ فنسیھم) (التوبۃ (67/9” انہوں نے اللہ کو بھلا دیا اور اللہ نے ان کو اپنے تئیں بھلوا دیا “ پس قرآن عظیم اور اس کو لانے والی ہستی سب سے بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی ہے مگر انہوں نے اس عظیم نعمت کو ٹھکرا دیا اور اس سے روگردانی کی کیا اس ایمان سے محرومی کے بعد اس سے بڑی کوئی حرماں نصیبی ہے ؟ اور کیا اس کے پیچھے انتہائی درجے کا خسارہ نہیں ؟ (آیت (72) (ام تسئلھم خرجا) اے محمد ! ﷺ کیا ان کو آپ کی اتباع سے اس چیز نے روکا ہے کہ آپ ان سے اس کام پر کوئی اجرت طلب کرتے ہیں ؟ (فھم من مغرم مثقلون) (الطور (40/52:” کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے “ اور اس طرح آپ کی اطاعت سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ آپ ﷺ ان سے اجرت اور خراج طلب کرتے ہیں ؟ معاملہ یوں نہیں بلکہ (فخراج ربک خیر و ھو خیر الرزقین ) ” آپ کے رب کی اجرت بہت بہتر ہے اور وہ بہترین روزی رساں ہے۔ “ یہ اسی طرح کا قول ہے جس طرح انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اپنی اپی قوم سے فرمایا : (یقوم لا اس 4 لکم علیہ اجر) (ھود (51/11:” اے میری قوم میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا “ (ان اجری اللا علی اللہ ہے) (ھود (51/11:” اے میری قوم میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا “ (ان اجری الا علی اللہ) (ھود (29/11: ” اے میری قوم میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا “ (ان اجری الا علی اللہ) (ھود (29/11: ” میرا صلہ تو اللہ کے پاس ہے۔ “ یعنی انبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرف سے لوگوں کو دعوت دینے میں یہ لالچ نہیں ہوتا کہ انہیں لوگوں کی طرف سے مال و دولت حاصل ہوگا۔ وہ تو صرف خیر خواہی اور ان کے اپنے فائدے کی خاطر ان کو دعوت دیتے ہیں بلکہ انبیاء ومرسلین مخلوق کے لیے ‘ خود ان سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو ان کی امتوں کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے اور تمام احوال میں ہمیں بھی ان کی اقتداء سے بہرہ مند کرے۔
Top