Madarik-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 68
اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْنَ٘
اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا : کیا پس انہوں نے غور نہیں کیا الْقَوْلَ : کلام اَمْ : یا جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا مَّا : جو لَمْ يَاْتِ : نہیں آیا اٰبَآءَهُمُ : ان کے باپ دادا الْاَوَّلِيْنَ : پہلے
کیا انہوں نے اس کلام میں غور نہیں کیا ؟ یا ان کے پاس کچھ ایسی چیز آئی ہے جو ان کے اگلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی
کفار کا انکار چہ معنی دارد وہ ذاتی غیرت کی وجہ سے نہیں مانتے : 68: اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ (کیا انہوں نے کلام الٰہی میں غور نہیں کیا) کیا انہوں نے قرآن مجید میں غور نہیں کیا تاکہ ان کو علم ہوتا کہ وہ کھلا ہوا حق ہے پس وہ اس کی تصدیق کرتے اور اس کو سچا جانتے جو وہ لے کر آئے ہیں۔ اَمْ جَآ ئَ ھُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآ ئَ ھُمُ الْاَوَّلِیْنَ (یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آئی ہے جو ان کے بڑوں کے پاس نہیں آئی) امؔ بل کے معنی میں ہے اور استفہام انکاری ہے مطلب اس طرح ہے بلکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو ان کے اولین آباء کے پاس نہ آئی ہوئی ہو بلکہ وہی چیز آئی ہے پھر ان کا انکار اور اور اس کو اوپر اقراردینا چہ معنی دارد۔
Top