Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 68
اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْنَ٘
اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا : کیا پس انہوں نے غور نہیں کیا الْقَوْلَ : کلام اَمْ : یا جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا مَّا : جو لَمْ يَاْتِ : نہیں آیا اٰبَآءَهُمُ : ان کے باپ دادا الْاَوَّلِيْنَ : پہلے
کیا انہوں نے اس کلام میں غور نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آئی ہے جو ان کے اگلے باپ دادا کے پاس نہیں تھی
افلم یدبروا القول کیا ان لوگوں نے اس کلام (الٰہی) میں غور نہیں کیا۔ استفہام انکاری ہے اور نفی کا انکار اثبات ہوتا ہے۔ الْقَوْلَسے مراد ہے ‘ قرآن مجید۔ الف لام عہدی ہے ‘ یعنی وہ کلام جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا اور آپ ﷺ نے پیش کیا۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے تو قرآن پر خوب غور کر دیکھا ہے اور اس کے مقابلے کی بھرپور کوشش بھی کرلی ہے اور ایک چھوٹی سورت کی مثل بھی نہیں بنا سکے ہیں جس سے قرآن کا اعجاز ان پر واضح ہوگیا ہے اور یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہے۔ ام جآء ہم ما لم یات ابآء ہم الاولین۔ یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آئی ہے جو ان کے بڑوں کے پاس نہیں آئی۔ ام بمعنی بل ہے اور استفہامی ہمزۂ انکاری ہے۔ پورا مطلب اس طرح ہوا ‘ بلکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں آئی جو ان کے اوّل بزرگوں کے پاس نہ آئی ہو۔ بلکہ وہی چیز آئی ہے جو ان کے پہلے بڑوں (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) اور ان کے پاس آچکی ہے۔ یعنی نبوت اور کتاب ان کے اعلیٰ مورثوں کے پاس بھی آچکی ہے اور محمد ﷺ کے پاس بھی اللہ نے بھیجی۔ قریش کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی نبوت کا اقرار تھا اور رسول اللہ ﷺ : کی انہیں کی طرح تھے لہٰذا کوئی ناممکن (نئی) بات نہیں ہوئی۔
Top