Al-Quran-al-Kareem - Al-Kahf : 6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
فَلَعَلَّكَ : تو شاید آپ بَاخِعٌ : ہلاک کرنیوالا نَّفْسَكَ : اپنی جان عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے پیچھے اِنْ : اگر لَّمْ يُؤْمِنُوْا : وہ ایمان نہ لائے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات اَسَفًا : غم کے مارے
پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کرلینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ۔۔ : ”بَاخِعٌ“ ”بَخَعَ یَبْخَعُ نَفْسَہُ“ اس نے اپنے آپ کو غم سے مار ڈالا۔ ”لَعَلَّ“ کا لفظ محبوب چیز کے لیے بولا جائے تو ترجی، یعنی امید کرنا مراد ہوتا ہے اور ایسی چیز کے لیے بولا جائے جس کا خطرہ ہو تو اسے اشفاق یعنی ڈرنا کہا جاتا ہے، یہاں یہی مراد ہے۔ اس آیت سے مقصود آپ ﷺ کو تسلی دینا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پر آپ اپنے آپ کو رنج و غم سے کیوں گھلا رہے ہیں ؟ اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے کا کس قدر صدمہ تھا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ”بَاخِعٌ نَّفْسَكَ“ (اپنے آپ کو ہلاک کرلینے والے) کے الفاظ استعمال فرمائے۔ مزید دیکھیے سورة شعراء (3) ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّمَا مَثَلِيْ وَمَثَلُ النَّاسِ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَہُ جَعَلَ الْفَرَاشُ وَھٰذِھِ الدَّوَابُّ الَّتِيْ تَقَعُ فِي النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَنْزِعُھُنَّ وَیَغْلِبْنَہُ ، فَیَقْتَحِمْنَ فِیْھَا، فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَاَنْتُمْ تَقْتَحِمُوْنَ فِیْھَا) ”میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک آگ خوب بھڑکائی، جب اس نے اس کے اردگرد کو روشن کردیا تو پروانے اور اس قسم کے جانور اس آگ میں گرنے لگے۔ وہ اس میں گرتے تھے اور وہ شخص انھیں روکتا تھا اور وہ اس سے زبردستی آگ میں گھستے تھے۔ تو میں آگ سے بچانے کے لیے تمہاری کمروں کو پکڑنے والا ہوں اور تم زبردستی اس میں گھستے ہو۔“ [ بخاری، الرقاق، باب الانتھاء عن المعاصي : 6483۔ مسلم : 16؍2284 ] مزید دیکھیے سورة فاطر (8) ، نمل (70) اور نحل (27) ”عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ“ ان کے قدموں کے نشانات پر، یعنی ان کے پیچھے۔ ”اَسَفًا“ بہت زیادہ فکر و غم، یہ مفعول ہے، یعنی غم کی وجہ سے۔
Top