Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
فَلَعَلَّكَ : تو شاید آپ بَاخِعٌ : ہلاک کرنیوالا نَّفْسَكَ : اپنی جان عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے پیچھے اِنْ : اگر لَّمْ يُؤْمِنُوْا : وہ ایمان نہ لائے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات اَسَفًا : غم کے مارے
تو شاید آپ ﷺ گھونٹ ڈالیں گے اپنی جان کو ان کے پیچھے اس غم کی وجہ سے اگر وہ اس بات پر ایمان نہیں لاتے۔
فَلَعَلَّـکَ بَاخِعٌ نَّـفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا۔ (الکہف : 6) (تو شاید آپ ﷺ گھونٹ ڈالیں گے اپنی جان کو ان کے پیچھے اس غم کی وجہ سے اگر وہ اس بات پر ایمان نہیں لاتے۔ ) نہایت دلنواز انداز میں آنحضرت ﷺ کو تسلی اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے اور نہایت پیار کے ساتھ ایک ایسے غم پر آپ ﷺ کی دلجوئی کی جارہی ہے جس غم کی شدت کا عالم یہ ہے کہ اس سے اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ یہ کہیں آپ ﷺ کی جان ہی نہ لے لے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ ﷺ کا یہ غم اس بات پر ہوگا کہ مخالفین کی مخالفت میں شدت آتی جارہی ہے۔ اور آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں کی زندگی اس شہر میں اتنی مشکل بنادی گئی ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مخالفتوں کے ہجوم میں آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی روز بروز تنہا ہوتی جارہی ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انسانی فطرت کے حوالے سے اگرچہ یہ غم بہت بڑا غم ہے لیکن آنحضرت ﷺ اس غم کو خندہ پیشانی سے برداشت کررہے ہیں۔ آپ ﷺ جانتے ہیں کہ تکلیفوں کا آنا اور اذیت رسانی کا عمل دعوت الی اللہ کے راستے کی ایسی سنتیں ہیں جنھیں زندہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ اس لیے آپ ﷺ اسے نہایت شرح صدر کے ساتھ برداشت کررہے ہیں۔ آپ ﷺ کا حقیقی غم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جو عظمتوں کا سرچشمہ اور ہر طرح کی کبریائی کی مستحق ہے اس کی ذات اور صفات میں ان ظالم مشرکین نے نہ جانے کس کس کو شریک کر رکھا ہے۔ اور وہ ہر طرح کی افہام و تفہیم کے باوجود اپنی روش بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو چیلنج کررہے ہیں اور دوسری طرف ان کا حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی بڑی بڑی باتیں کہتے ہیں جس کا تصور بھی کپکپا دینے کے لیے کافی ہے۔ کبھی اس کے لیے بیٹا ثابت کرتے ہیں، کبھی کسی کو متبنیٰ ٹھہراتے ہیں اور کبھی فرشتوں کو اس کی بیٹیاں بتاتے ہیں جبکہ اپنے لیے بیٹیوں کو عار سمجھتے ہیں۔ اور اس پر بھی مزید جس بات سے حضور ﷺ کا دل پگھلتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ یقین سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ ظالم اگر اپنی روش سے باز نہ آئے تو یا تو دنیا میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوں گے، ورنہ آخرت میں تو یقینا جہنم میں جلیں گے۔ آپ ﷺ انتہائی دل گرفتگی کے ساتھ رب کریم کے حضور ہاتھ اٹھاتے ہیں کہ الٰہی میں جانتا ہوں کہ یہ لوگ کس قدر خطرناک راستے پر چل رہے ہیں جس کا انجام جہنم کی آگ کے سوا کچھ نہیں، لیکن میں کیا کروں، میں اپنی ساری کوششوں کے باوجود انھیں بدلنے پر قادر نہیں ہوسکا۔ اور کبھی سننے والوں کے سامنے اپنے اس غم کا اظہار اس طرح فرماتے ہیں کہ میری اور تمہاری مثال ایسی ہے کہ میں نے تاریکی میں آگ جلائی روشنی کے لیے اور پروانے آکر اس میں گرنے لگے۔ میں چاروں طرف ہاتھ مار رہا ہوں کہ بچ جاؤ یہ آگ ہے، اس میں گرو گے تو جل جاؤ گے، لیکن پروانے ہیں کہ وہ اس پر گرنے سے باز نہیں آتے۔ جیسے جیسے کافروں کے رویئے میں شدت آتی جارہی ہے ویسے ویسے آپ ﷺ کے غم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ چناچہ آپ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان قبول نہیں کرتے تو یہ آپ ﷺ کی ذمہ داری نہیں، ان کی اپنی ذمہ داری ہے اور وہ خود اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوئی کمی نہیں کی۔ آپ ﷺ نے بڑی سے بڑی صعوبت اٹھا کر بھی اپنا فرض انجام دیا اور ان کی تمام نفرتوں اور اذیتوں کے باوجود آپ ﷺ نے ان سے ہمدردی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے باوجود ان کا ایمان قبول نہ کرنا ان کے لیے فکرمندی کا باعث ہونا چاہیے، آپ ﷺ کے لیے نہیں۔ اس لیے آپ ﷺ ہرگز اس غم کو اپنے دل میں جگہ نہ دیجیے۔
Top