Mafhoom-ul-Quran - Al-Kahf : 6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
فَلَعَلَّكَ : تو شاید آپ بَاخِعٌ : ہلاک کرنیوالا نَّفْسَكَ : اپنی جان عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے پیچھے اِنْ : اگر لَّمْ يُؤْمِنُوْا : وہ ایمان نہ لائے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات اَسَفًا : غم کے مارے
(اے پیغمبر ! ﷺ اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے رنج کر کے اپنے آپ کو ہلاک کردیں گے۔
لوگوں کے ایمان نہ لانے پر رسول ﷺ کا افسوس تشریح : ان آیات میں ایک بہترین انسان کی خصوصایت بیان کی گئی ہیں۔ کہ وہ کس حد تک فرض شناس، محسن انسانیت، خلقت رحمن سے پیار کرنے والا ان کو ہر مصیبت اور پریشانی سے بچانے والا، ہمدرد، مخلص اور مہربان ہے ان کی بھلائی کے لیے ہر وقت بےچین اور بےسکون رہتا ہے ان کو دنیا و آخرت کی مصیبتوں سے بچانے کے لیے دن رات محنت اور کوشش کرتا رہتا ہے اور یہ محبوب الٰہی کون ہوسکتا ہے ؟ یہ ہیں پیارے رسول ﷺ اللہ ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ آپ کیوں اس قدر فکر مند ہو رہے ہیں کہ اپنی جان تک کو تنگ کر رکھا ہے۔ آپ کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے آگے ان لوگوں کا اپنا کیا اپنے کام آئے گا۔ آپ ان کے اعمال کے ذمہ دار ہرگز نہیں۔ اس طرح کی تسلی کے الفاظ قرآن پاک میں کئی دفعہ آچکے ہیں۔ پھر الہ العلمین اپنے طریق کار کا ذکر اس انداز میں کرتے ہیں کہ زمین کی آرائش کا سامان ایک تو انسان کے فائدہ کے لیے اور دوسرے اس کی آزمائش کے لیے کیا گیا ہے۔ آرائش سے مراد پھل پھول، ندی نالے، پہاڑ، صحرا اور بیشمار حسین مناظر جو صبح کے طلوع اور شام کے غروب ہوتے وقت دیکھے جاتے ہیں ایسے ایسے حسین منظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ جن کو مصور اپنے ہاتھوں سے تصویر کشی کر کے شہرت کماتا ہے اور پھر کبھی ان کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرلیتا ہے۔ تو اللہ نے یہ تمام حسن و آرائش زمین کو بےمقصد عطا نہیں کیے بلکہ لوگ ان تمام چیزوں سے بیشمار فائدے اٹھاتے ہیں اور اللہ کا یہ دستور ہے کہ وہ انسان کو ہر نعمت دے کر آزماتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ ہر صورت اللہ کی رضا سے شکر ادا کرتے ہوئے اس کی ہر نعمت کو انتہائی احتیاط اور ایمانداری سے بالکل مناسب طریقہ سے یوں استعمال کرے کہ نہ تو ضائع ہو اور نہ ہی ناجائز جگہ پر استعمال ہو۔ مثلاً سبزے کو اللہ نے زمین کا زیور کہا ہے۔ ہمارے کئی مہربان جنگل سے درخت چوری کرتے ہیں اور پھر جنگل میں آگ لگا دیتے ہیں۔ ان کو نہ تو اللہ کا خوف آتا ہے اور نہ ہی ملکی اور انسانیت کے اس نقصان کا خیال آتا ہے جو وہ اپنے چھوٹے سے گناہ کو چھپانے کے لیے ماچس کی ایک تیلی سے کردیتے ہیں۔ ان کو ذرا خیال نہیں آتا کہ وہ اس قدر ظلم اور بربادی کر رہے ہیں۔ یہ درخت جو کئی سالوں کے بعد جوان ہو کر ملکی سرمایہ بنے تھے یوں جل کر راکھ ہوگئے ہیں۔ یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے اسی طرح بیشمار طریقوں سے انسان زمین کے حسن کو برباد کرتا ہے اور اپنے لیے عذاب کا سامان مہیا کرتا رہتا ہے۔ ہر شخص کو اس قسم کے ظلم اور گناہ سے خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی بچاتے رہنا چاہیے۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے۔ آمین اور پھر اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ اس کی قدرت اور عذاب سے ڈرو کیونکہ جب چاہے گا اس زمین کی تمام رونقیں اس کا تمام حسن ملیامیٹ ہوجائے گا اور یہ زمین چٹیل میدان کی طرح بےآب وگیاہ و ویران اور بنجر ہوجائے گی۔ اللہ کا خوف اور گناہوں سے بخشش مانگتے رہنا چاہیے۔ انسان کی اتنی ہی حیثیت ہے اور اسی میں خیرو برکت ہے۔
Top