Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
فَلَعَلَّكَ : تو شاید آپ بَاخِعٌ : ہلاک کرنیوالا نَّفْسَكَ : اپنی جان عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے پیچھے اِنْ : اگر لَّمْ يُؤْمِنُوْا : وہ ایمان نہ لائے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات اَسَفًا : غم کے مارے
تیری حالت تو ایسی ہو رہی ہے کہ جب لوگ یہ بات بھی نہ مانیں تو عجب نہیں تو ان کے پیچھے مارے افسوس کے اپنی جان ہلاکت میں ڈال دے
اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ نہ ماننے والوں کے لئے افسوس سے ہلاک نہ ہوں : 6۔ ب خ ع ۔ کے معنی اپنے آپ کو ہلاک کردینے کے ہیں (علی اثارھم) کے معنی ہیں ان کے پیچھے ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے یا ایمان سے پھرجانے کے باعث ۔ نبی کریم ﷺ کی اس حالت کا ذکر قرآن کریم میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے مثلا سورة الشعراء میں ہے کہ (آیت) ” لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین “۔ (26 : 3) ” اے پیغمبر اسلام ! تم اس غم میں اپنی جان کھو دے گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائے ۔ “ اور سورة فاطر میں ارشاد فرمایا : (آیت) ” فلا تذھب نفسک علیھم حسرات “۔ ” ان لوگوں کی حالت پر رنج وافسوس میں تمہاری جان نہ گھلے “ (35 : 8) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں اپنی قوم کی گمراہی وضلالت ‘ اس کی اخلاقی پستی ‘ اس کی ہٹ دھرمی اور اصلاح کی ہر کوشش کے مقابلہ میں اس کی مزاحمت کا رنگ دیکھ دیکھ کر نبی کریم ﷺ برسوں اپنے شب وروز کس دل گداز وجاں گسل کیفیت میں گزارتے رہے ہیں ۔ جب اللہ کا بیٹا ماننے والی قوم کا ذکر کیا تو ساتھ ہی ان کے اس کفر پر اصرار کا بھی ذکر کردیا آج چودہ سو سال سے اسلام ان کے سامنے ہے مگر سوائے چند معدودے آدمیوں کے انہوں نے بظاہر اس کو قبول نہیں کیا اور اندر ہی اندر اس قوم کے ذی علم وفضل لوگوں نے قرآن کریم کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کرکے اس کے اصولوں کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کیا اور اپنے مذہب سے مقابلہ کر کے جان لیا کہ ہمارے ہاں تحریف ہے اور قرآن کریم کی تعلیم تحریف سے محفوظ ہے ۔ بظاہر زبان قال ان کو قومی اپچ آڑے آئی اس لئے وہ کچھ نہ کہہ سکے ان کے صاحب عقل لوگوں نے مذہب اور دنیوی زندگی کے اصولوں کو الگ الگ قرار دے دیا تاکہ مذہبی حیثیت کو بالکل الگ کر کے اس سے جان چھڑائی جاسکے ۔ اب مذہب کے لحاظ سے وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ ‘ اللہ کا تیسرا حصہ اور اللہ کا بیٹا ‘ عیسوی گروہ بندیوں کے لحاظ سے ہر گروہ نے جو تسلیم کیا بس تسلیم کرلیا اور صلیب کانشان گلے میں لٹکا کر مذہب سے جان چھڑائی اور گناہوں کے کفارہ کے لئے ان کے مزہبی رہنما جو فیصلہ دیں وہ کفارہ ادا کردیا اور دنیا کو الگ کرکے اس کے چلانے کے لئے خود ساختہ اصول قائم کر لئے اس لئے وہ مذہب سے بالکل آزاد ہوگئے ، کیوں ؟ اس لئے کہ ان کے لئے سوائے اس کے کہ کوئی اور آسان راہ نہیں تھی اور قومی نظریات خواہ کتنے بوگس اور جہل کیوں نہ ہوں ان سے چان نہیں چھڑائی جاسکتی اور اگر کوئی سرسری اس کی مخالفت میں زبان کھول دے تو اس کا جینا اس کے مرنے سے زیادہ مشکل ہوجاتا ہے اور بدقسمتی سے آج قوم مسلم کی اکثریت اور علمائے اسلام کی اکثریت کا بھی یہی ہے ، اس سے بےنیاز ہوجانا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے ۔
Top