Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
فَلَعَلَّكَ : تو شاید آپ بَاخِعٌ : ہلاک کرنیوالا نَّفْسَكَ : اپنی جان عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے پیچھے اِنْ : اگر لَّمْ يُؤْمِنُوْا : وہ ایمان نہ لائے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات اَسَفًا : غم کے مارے
سو ایسا تو نہیں کہ آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو غم کی وجہ سے ہلاک کردینے والے ہیں اگر یہ لوگ اس مضمون پر ایمان نہ لائیں
رسول اللہ ﷺ کو تسلی دینا ان آیات کے بعد اصحاب کہف کا قصہ شروع ہونے والا ہے مشرکین اور یہود رسول اللہ ﷺ سے طرح طرح کے سوال کیا کرتے تھے صحیح جواب پاتے تھے معجزات بھی دیکھتے تھے لیکن ایمان پھر بھی نہیں لاتے تھے۔ اصحاب کہف کا قصہ معلوم تو کرلیا لیکن اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ ایمان پھر بھی نہ لائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس سے رنج ہونا ظاہر تھا اس لیے قصہ سنانے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دے دی کہ آپ ان کے گمراہی پر جمع رہنے کی وجہ سے اپنی جان کو غمگین کرکے ہلاک نہ کریں آپ کے ذمہ پہنچانا ہے، منوانا آپ کے ذمہ نہیں ہے اس لیے پہلے ہی فرما دیا کہ شاید آپ ان کے پیچھے اپنی جان ہی کو ہلاک کردیں گے یعنی آپ ایسا نہ کریں یہ استفہام انکاری کے طور پر ہے مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک نہ کریں، اس میں لفظ شاید شک کے لیے نہیں ہے بلکہ محاورات میں جس طرح مخاطب کو قریب کرنے کے لیے بات کی جاتی ہے یہ اسی انداز کی بات ہے اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے سب کچھ جانتا ہے اسے کسی بات میں شک نہیں ہے۔ آپ کو تسلی دینے کے بعد یہ بتایا کہ ہم نے دنیا میں جو کچھ پیدا فرمایا ہے یہ ظاہری زیب وزینت ہے اور ہم نے اسے اس لیے پیدا کیا کہ لوگوں کو آزمائیں کہ اس زندگی میں کون اچھے سے اچھے عمل کرتا ہے، اگر دنیا میں کشش نہ ہوتی تو امتحان ہی کیا ہوتا ؟ لوگ دنیا میں لگ کر اپنے خالق کا بھول گئے اور خالق کو جو پیغام اس کے رسولوں نے پہنچایا اس کی طرف بڑھنے میں چونکہ دنیا کا نقصان محسوس کرتے ہیں اس لیے حق جانتے ہوئے حق کو قبول نہیں کرتے حالانکہ یہ دنیا تھوڑی سی ہے تھوڑے دن کی ہے اور حق کی جو دعوت دی جا رہی ہے اس کے قبول کرنے پر ہمیشہ کی نعمتوں والی جاودانی زندگی ملے گی، اس عارضی دنیا پر جان نہ دیں یہ لہلہاتی ہوئی کھیتی کی طرح سے ہے آج ہری بھری ہے اور کل کو کچھ بھی نہیں، کھیتوں کا انجام تو ہمیشہ دیکھتے ہیں ایک دن وہ آنے والا ہے کہ زمین پر جو کچھ ہے کچھ بھی نہ رہے گا اور صاف میدان ہوجائے گا۔ سورة طٰہٰ میں فرمایا ہے (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُھَا رَبِّیْ نَسْفًا فَیَذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرٰی فِیْھَاعِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا) (اور لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں سو آپ فرما دیجیے کہ میرا رب ان کو بالکل اڑا دے گا پھر زمین کو ایک ہموار میدان کردے گا کہ جس میں تو نہ ناہمواری دیکھے گا اور نہ تو کوئی بلندی دیکھے گا۔ )
Top