Asrar-ut-Tanzil - Yaseen : 33
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ١ۖۚ اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ
وَاٰيَةٌ : ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الْاَرْضُ : زمین الْمَيْتَةُ ښ : مردہ اَحْيَيْنٰهَا : ہم نے زندہ کیا اسے وَاَخْرَجْنَا : اور نکالا ہم نے مِنْهَا : اس سے حَبًّا : اناج فَمِنْهُ : پس اس سے يَاْكُلُوْنَ : وہ کھاتے ہیں
اور ایک نشانی ان کے لئے مردہ زمین ہے کہ ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس میں سے اناج اگایاسو اس میں سے وہ کھاتے ہیں
رکوع نمبر 3: آیات 33 تا 50: اسرار و معارف : اللہ کی قدرت کاملہ کا ایک بڑا مظہر تو مردہ زمین ہے جس پر یہ رہتے بستے ہیں جب اس پہ خشک سالی آتی ہے تو وہ بالکل اجاڑ ہوجاتی ہے ہر طرف گرد اڑتی ہے مگر جب اللہ چاہتے ہیں تو اس کی گود زندگی سے بھر دیتے ہیں اور ذرے ذرے سے زندگی ابلتی ہے پھل پھول اناج پیدا ہو کر نہ صرف زمین کی زندگی کا ثبوت دیتے ہیں بلکہ خود انسانوں کو زندہ رکھنے کا سبب بن جاتے ہیں یہی تو ان کی روز مرہ کی غذا ہے۔ زمین کے بعض حصوں کو ہم نے سرسبزی عطا کردی ہے کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ خشک ہو کر ہری ہو ہم نے اس میں چشمے جاری کردئیے اور اس کا سینہ باغات سے سجا دیا کہ ان لوگوں کے پاس بھی ایسے کھجوروں اور انگوروں کے باغات ہیں جن کے پھلوں سے یہ لذیذ غذا حاصل کرتے ہیں اور انہیں پھلوں کو ملا کر کبھی پکا کر اور کبھی کسی اور طرح سے یہ کس قدر لذیذغذائیں تیار کرتے ہیں کیا یہ نعمتیں اور ان کے استعمال کا شعور نیز فرصت و مہلت اور لذت حاصل کرنے کی طاقت جس نے دی ہے اس کا شکر نہ کیا جائے گا ؟ یہ کیوں اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اللہ پاک ہے اس کی قدرت کاملہ میں کسی طرح کی کمی کا شائبہ تک نہیں اس نے بیشمار قسم کی مخلوق پیدا فرما دی ہے جن کے حلیے قدوقامت رنگ ، خصوصیات مختلف کوئی گن نہیں سکتا پھر ہر مخلوق کے اندر ایک نظام جو الگ ایک جہان ہے نباتات ہی کو دیکھو جو زمین سے اگتی ہے اس کا ایک ایک پتا پھل پھول یا وہ ذرات جو اس کے وجود میں شامل ہیں آگے ان سب کا اپنا ایک جہان ہے ایک ذرے میں کروڑوں ایٹم اور ہر ایٹم میں ایک الگ نظام موجود ہے۔ خود ان کے اپنے اجسام کے اندر۔ انسان سب ایک ہیں۔ ناک آنکھ کان ہاتھ پاؤں سب کے ہیں مگر اربوں انسانوں میں کوئی ایک کسی دوسرے سے نہیں ملتا پھر سب کی عقل شعور اور فکر الگ زندگی الگ صحت جدا علم و عمل اپنا اپنا اور پھر ان کے اندر ایک ایک خلیے میں الگ الگ جہان آباد ہیں اور کتنی ایسی مخلوق ہے جس تک انسانی نگاہ پہنچ ہی نہیں پائی ایک بہت بڑی نشانی رات کی ہے کہ اصل جہان تاریک ہے اللہ کی قدرت کاملہ نے سیارگان کو پیدا فرما کر اس میں دن کی روشنی بھیج دی جب وہ کھینچ لیتا ہے تو کہتے ہیں رات ہوگئی وار یہ شب و روز مھض اندھیرے اور روشنی کا کھیل ہیں بلکہ سورج اپنے مقرر شدہ مقام تک پہنچنے کے سفر پر ہے کہ اس رات دن کے کھیل نے ہر شے کی عمر ، پیدائش اور موت کے اوقات کو اس تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو اپنے مقررہ انجام کی طرف یعنی یوم حشر کی طرف بڑھ رہا ہے یہ سفر اور اس پر بغیر کسی لمحہ کے فرق کے چلنا سورج کی مجبوری ہے کہ اس کے لیے اللہ نے جو بہت غلبہ رکھنے والا ہے یہ مقرر کردیا ہے یہاں پر مفسرین کرام نے سورج کے کچلنے یا ساکن ہونے کے فلسفے پر بھی بہت کچھ لکھا ہے مگر بےغبار بات یہی ہے کہ قرآن حکیم کا مضوع سائنس میں اصلاح خلق ہے جس کا تعلق قیامت سے ایمان پر بھی ہے تو سورج کا طلوع غروب جس طرح بیشمار اشیاء اور جانداروں کی تخلیق کا سبب اور ان کے دنیا میں آنے کا وقت لانے کا سبب ہے ایسے ہی ان کے وقت پورا کرکے رخصت کی گھڑی لانے کا سبب بھی ہے اور یہ عمل ہر آن قیامت قیامت کو قریب تر کر رہا ہے۔ یہی حال چاند کا ہے کہ اس کی منازل بھی متعین ہیں ہر منزل کا نتیجہ یہی ہے کہ مخلوق کی آمدورفت کو متاثر کر رہی ہے ہاں وہ گھٹتا بڑھتا بھی ہے کہ گھٹتے گھٹے ایک خشک سی ٹہنی سا ہوجاتا ہے اور پھر نئے سرے سے طلوع ہو کر بڑھنے لگ جاتا ہے۔ شمس و قمر کی ان منازل یا حرکات پر ایک پورے علم کی بنیاد رکھی گئی ہے جسے علم نجوم کہا جاتا ہے جہلا نے اس کے بہت سے اثرات مان رکھے ہیں جبکہ دوسرا فریق اسے کفر و شرک تک کہنے میں باک محسوس نہیں کرتا حق یہ ہے کہ شمس و قمر کی حرکات کا عالم تخلیق سے تعلق تو اللہ نے طے کردیا اور ہے اگر اگر انسانی عقل نے اس کے اندازے بھانپ لیے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ کسی واقعہ کی سن گن اور کے ظہور پذیر ہونے سے قبل اندازا جان سکیں گے اور بس یہ ممکن نہیں کہ انسان ان کی تاثیر کو بدل دے یا ان کی رفتار کو متاثر کرے اس کی مثال صرف ایک نباض کی ہے کہ نبض پر ہاتھ رکھ کر جسم کی صحت وبیماری یا اس کی وجوہات کا اندازہ کرلیتا ہے جو ٹھیک بھی ہوسکتا ہے اور نہیں بھی۔ ایک بہترین مثال ہلاکو خان کے دربارکا واقعہ ہے جب اس نے درباری نجومی پہ سوال کیا کہ کیا علم نجوم کے سبب آنے والے کسی ناخوشگوار واقعہ کو روکا یا تبدیل کیا جاسکتا ہے اس نے کہا ممکن نہیں تو بولا اس علم کا فائدہ ؟ اس نے عرض کیا کل جب آپ دربار کریں تو کسی کو حکم دیجیے بالائی منزل سے تانبے کا تھال دربار میں پھینک دے پھر جواب دے سکوں گا دوسرے دن اہل دربار تو بادشاہ کے جلال میں کھوئے تھے کہ ایک زوردار گونچ سے تھال گرا سب پریشان ہوگئے بہادروں نے تلواریں سونت لیں کمزور دل بھاگ نکلے جبکہ بادشاہ اور نجومی پرسکون تھے تو اس نے عرض کیا یہ حاصل ہے کہ اگر کسی حادثے کا امکان ذہن میں ہو تو اس کا وقوع پریشانی پیدا نہیں کرتا اور بس۔ ان کے اوقات اس قدر سختی سے مقرر ہیں کہ اگر ان میں لمحوں کا فرق آتا تو صدیوں میں دنیا تباہ ہوجاتی مگر سورج کی جرات نہیں کہ چاند کو جا پکڑے یا دن رات کو عبور کرجائے ہرگز نہیں جبکہ سب سیارے اسی ایک فضا میں تیر رہے ہیں مگر نہ ٹکراتے ہیں نہ اوقات تدبیل کرتے ہیں اپنی مقررہ منزل کو گامزن ہیں۔ کیا انہیں اس میں بھی قدرت کا کرشمہ نظر نہیں آتا کہ ہر طرف سمندروں کی میلوں گہرائیاں پھیلا کر ایک محفوظ کشتی کی طرح زمین کو اس مٰں سجا دیا ہے جس پر نسل ا انسانی آبادی کے مزے لے رہی ہے اسی طرح جانداروں کے علاوہ بےجان مشینوں کو بھی ان کی سواری کے لیے بنا دیا ہے۔ اللہ نے عقل دی جس سے انسان نے ایجادات کیں۔ اللہ نے ہر شے پیدا کی جسے جوڑ کر سواری کے اسباب لاری کا ریل سمندری اور ہوائی جہاز یہ سب کچھ بنا لیا اگر اللہ چاہے تو ساری زمین کو غرق کردے وہ چاہے تو ان کی سواریوں کو تباہ کردے تو اس کے مقابلے میں تو کوئی ان کی فریاد بھی نہیں سن سکتا اور نہ مدد ہی کرکے چھڑا سکتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی رحم کرے اور کام چلتا ہے مگر کب تک کہ اس نے بھی ایک آخری لمحہ مقرر کردیا ہے لہذا ہر شخص اللہ کی دی ہوئی فرصے کے لمحات میں دنیا سے استفادہ بھی کرسکتا ہے۔ یہی بات جب ان سے کہی جائے کہ اللہ کے عذاب سے ڈرو جو دنیا کی زندگی مٰں بھی آسکتا ہے اور کفر پر مرنے سے آخرت میں تو ضرور سامنا ہوگا۔ آج حق قبول کرلو تو اللہ کی رحمت کو پاسکتے ہو اور اس کے غضب سے بچ سکتے ہو مگر ایسے بدبخت کہ جب بھی کوئی دلیل پیش کی جائے اسے ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ مذاق اڑاتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ دولت اور نعمتیں اللہ نے بخشی ہیں ان میں سے اسی کی راہ پر خرچ کرو تو کفار مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھلا جن کو اللہ نے رزق نہیں دیا ان کو ہم کیوں کھانے پینے کو دیں تم لوگ جو ہمیں کھانے پینے کی دعوت دے رہے ہو غلط کر رہے ہو حالانکہ بات درست رزاق اللہ ہی ہے اور اس نے مخلوق کا رزق اسباب کے تابع مخلوق تک پہنچایا ہے لہذا اگر کوئی امیر کسی فقیر کو دیتا ہے یا مالک مزدور کو اور نوکر کو تو رزق اللہ کی طرف سے تھا جیسے زمین سے اناج درخت سے پھل دیتا ہے ایسے اس کی جیب سے انہیں سکے عطا کردئیے اور انہیں اس کا کام کرنا پڑا یہ نظام عالم کے چلنے کا سبب ہے لہذا جو کسی کا حق روکتا ہے وہ گویا نظام عالم کی تباہی کا سبب بن رہا ہے نیز یہاں حضرت استاذی المکرم (رح) کا ایک جمہ حاشیے پر درج ہے جسے نقل کرنا سعادت ہے۔ کفار کا انفاق غیر پر تبرع و احسان میں داخل ہے جس کا فائدہ کفار کو بھی ہوتا ہے۔ سبحان اللہ کیا خوبصور تتحقیق ہے واقعی کبھی تو کافر کو اس کے بدلے ایمان نصیب ہوجاتا ہے ورنہ دنیا کا فائدہ ضرور ہوتا ہے ۔ اور کہتے ہیں یار یہ قیامت قیامت سے ڈراتے رہتے ہو کہاں ہے وہ قیامت اگر تمہاری بات سچ ہے تو آ کیوں نہیں چکتی۔ مگر انہیں تکلیف نہیں کرنی پڑے گی وہ اپنے وقت مقررہ پر خود آجائے گی اور ان کی حیثیت تو یہ ہے کہ پہلی چنگھاڑ پر ہی چوکڑی بھول جائیں گے اور ایک دوسرے سے لڑیں گے کہ مجھے تو تیری باتوں نے کفر پہ لگایا اور تو میری تباہی کا سبب ہے مگر فرصت گزر چکی ہوگی کسی کے پاس وقت نہ ہوگا کہ کچھ کہہ ہی مرے یا کسی سے مل تو لے اپنے پیاروں کے پاس واپس پہنچ سکے ہرگز نہیں۔ بس ایک کڑک ہوگی جو سب کچھ تباہ کردے گی۔
Top