Ruh-ul-Quran - Yaseen : 33
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ١ۖۚ اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ
وَاٰيَةٌ : ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الْاَرْضُ : زمین الْمَيْتَةُ ښ : مردہ اَحْيَيْنٰهَا : ہم نے زندہ کیا اسے وَاَخْرَجْنَا : اور نکالا ہم نے مِنْهَا : اس سے حَبًّا : اناج فَمِنْهُ : پس اس سے يَاْكُلُوْنَ : وہ کھاتے ہیں
اور ان لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی نشانی مردہ زمین ہے، ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلے اگائے، پس اس میں سے وہ کھاتے ہیں
وَاٰیـَۃٌ لَّھُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ صلے ج اَحْیَیْنٰـھَا وَاَخْرَجْنَا مِنْھَا حَبًّا فَمِنْہُ یَاْکُلُوْنَ ۔ وَجَعَلْنَا فِیْھَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّرْنَا فِیْھَا مِنَ الْعُیُوْنِ ۔ لِیَاکُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖ لا وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْہِمْ ط اَفَلاَ یَشْکُرُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 33 تا 35) (اور ان لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی نشانی مردہ زمین ہے، ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلے اگائے، پس اس میں سے وہ کھاتے ہیں۔ اور ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس میں چشمے جاری کردیے۔ تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں، یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں، تو کیا وہ شکر نہیں کرتے۔ ) اس سورة کے آغاز میں آنحضرت ﷺ کی اصل حیثیت، قرآن کریم کی آپ کی رسالت پر گواہی اور آپ کے فرضِ منصبی کو بیان کرنے کے بعد قریش مکہ کے رویے پر تنقید فرمائی گئی۔ اور آپ کے فرضِ منصبی کی نزاکتوں کو واضح کرنے کے لیے تاریخی استشہاد کے طور پر گزشتہ کسی دور میں مبعوث ہونے والے رسولوں کی تبلیغی کاوشوں اور ان کی قوم کے ردعمل کو واضح کرتے ہوئے قریش کو آئینہ دکھاتے ہوئے اس قوم کا بھیانک انجام بیان کیا گیا ہے تاکہ قریش اور دیگر اہل عرب اچھی طرح اندازہ کرسکیں کہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں وہ جو طرزعمل اختیار کرچکے ہیں اس کا نتیجہ تاریخ کے مختلف ادوار میں کیا نکلتا رہا ہے اور آج بھی اگر وہی طرزعمل اختیار کیا گیا تو اللہ تعالیٰ کی سنت میں چونکہ تبدیلی نہیں آتی اس لیے آج بھی اس انجام سے مختلف کسی اور انجام کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہوگا۔ چناچہ اس یاددہانی اور وارننگ کے بعد اب اس دعوت کے بنیادی نکات کو دلائل کے ساتھ واضح فرمایا جارہا ہے تاکہ جو شخص بھی راہ راست پر آنا چاہے وہ علم کی پوری روشنی کے ساتھ آئے۔ اور جو گمراہی کی موت مرنا چاہے اسے یہ شکایت نہ ہو کہ حق ہم پر پوری طرح واضح نہیں کیا گیا تھا۔ توحید پر ربوبیت سے دلیل مذہب کی تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی رسول کسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے ہیں تو اس قوم نے اپنے انکار کو ہمیشہ نشانیوں کے مطالبے کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی اور اپنی ہٹ دھرمی اور استکبار کو یہ کہہ کر جواز بخشا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا رسول واقعی اپنی دعوت میں سچا ہے تو اسے ہماری منہ مانگی نشانیاں دکھانے سے انکار نہیں ہونا چاہیے۔ قریش مکہ بھی ایسے ہی ہتھکنڈوں سے آنحضرت ﷺ کی دعوت کو بےاثر کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ چناچہ پروردگار نے ان سے نہایت سامنے کی بات فرمائی ہے کہ اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کے رسول کی دعوت کی حقانیت کے لیے نشانیاں مطلوب ہیں تو نشانیاں تو ان کے گردوپیش اور ان کے سامنے پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی ہٹ دھرمی اور استکبار انہیں ان نشانیوں کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا۔ چناچہ سب سے پہلے ایک ایسی نشانی کو بیان کیا جارہا ہے جس سے کوئی انسان بھی غافل نہیں رہتا۔ اس لیے کہ ایسا کون سا شخص ہوگا جس کا زمین سے سابقہ نہ رہتا ہو۔ اس لیے سب سے پہلے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم ذرا زمین کو دیکھو کہ زمین اپنی تمام تر وسعتوں اور اپنے دامن میں کھولتا ہوا لاوا رکھنے کے باوجود تمہارے قدموں میں اس طرح بچھی ہوئی ہے کہ جس سے زیادہ سرافگندگی اور عاجزی کا اظہار ممکن نہیں۔ انسان اس پر دوڑتا بھاگتا ہے، بڑی بڑی گاڑیاں چلاتا ہے، گہرے نالے کھودتا ہے، بڑی بڑی عمارتیں اس کی سطح پر اٹھاتا ہے، بڑے بڑے ڈیم بناتا ہے، لیکن زمین نے آج تک انسان کی ان کارروائیوں کو بروئے کار لانے سے کبھی انکار نہیں کیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس میں سختی اس قدر ہے کہ بڑے سے بڑا بوجھ اٹھا لیتی ہے۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی اس کے سینے پر ایستادہ ہیں۔ لیکن جب کوئی شخص اس پر سونے کے لیے لیٹ جاتا ہے تو اس کی نرمی اسے اس طرح اپنی آغوش میں لے لیتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں ماں کی آغوش میں سو رہا ہوں۔ لیکن اس سب سے بڑھ کر جس نشانی کی طرف یہاں توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب کہیں نزول باراں میں تاخیر ہوجاتی ہے تو ایک مدت گزرنے کے بعد ہر طرف دھول اڑتی دکھائی دیتی ہے، جوہڑ سوکھ جاتے ہیں، کسی مینڈک کے ٹرانے کی آواز نہیں آتی، زمین گھاس کی پتی تک کو ترس جاتی ہے، انسانی بستیاں قحط کا شکار ہوجاتی ہیں اور چارہ نہ ملنے کی وجہ سے جانور مرنے لگتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس زمین پر اب زندگی گزارنا ممکن نہیں رہا کہ اچانک گھٹا اٹھتی ہے اور چھم چھم بارش ہونے لگتی ہے۔ چند دنوں میں وہ زمین جس پر ہر طرف موت کا پہرہ تھا ہر طرف مجسم زندگی میں تبدیل ہوجاتی ہے، سوکھے ہوئے درختوں میں کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں، زمین کا بڑا حصہ مخملی لباس پہن لیتا ہے، کاشتکاروں کی محنت رنگ لانے لگتی ہے اور جن غلوں پر انسان کی معاش کا انحصار ہے ان کی فصلیں لہلہانے لگتی ہیں اور جابجا کھجور، انگور اور دوسرے پھلوں کے باغات اپنی بہار دینے لگتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے وجود کی نشانی اور کیا ہوگی۔ اس سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کا خالق زمین پر بسنے والوں کی ضروریات سے غافل نہیں، اسی طرح اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح وہ اپنی تخلیق میں کسی کا محتاج نہیں بلکہ ہر مخلوق اس کی محتاج ہے، اسی طرح کائنات کا نظام و انصرام چلانے اور مخلوقات کی ضروریات پوری کرنے میں بھی وہ کسی کا محتاج نہیں۔ وہ اپنی ذات میں بھی وحدہ لاشریک ہے اور اپنی صفات میں بھی۔ اس نے اپنی بیشمار نعمتیں دے کر انسان میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی نہیں کیونکہ وہ نہ زمین میں قوت روئیدگی پیدا کرسکتا ہے اور نہ وہ کسی اور نعمت کو ازخود وجود بخش سکتا ہے۔ انہیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں یہ ساری نعمتیں محض اپنے فضل و کرم سے عطا کیں۔ اور بغیر کسی استحقاق کے ہمیں ان نعمتوں سے بہرہ مند فرمایا ہے۔ افسوس تو ان بندوں پر ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کھاتے، استعمال کرتے لیکن اس کی شکرگزاری کرنے کی بجائے اکڑتے اور نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ضمیر کا مرجع ؟ لِیَاکُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖ بعض اہل علم نے ضمیر کو مذکر دیکھ کر اس کا مرجع اللہ تعالیٰ کو ٹھہرایا ہے لیکن سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے یہ تکلّف معلوم ہوتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس کا مرجع ارض کو بنایا جائے۔ رہی یہ بات کہ ضمیر مذکر ہے اور ارض (زمین) مونث ہے۔ اس لیے ضمیر اور مرجع میں موافقت نہیں رہتی۔ لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ عربی زبان میں بعض دفعہ ضمیر لفظ کے ظاہر کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس کے مفہوم کے اعتبار سے آتی ہے اور اسے اہل ادب علی سبیل التأویل سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہاں بھی ارض البلدالطیب کے معنی میں ہے۔ قرآن کریم نے سورة الاعراف میں اسے اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔ ارشاد باری ہے : وَالْبَلَدُالطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُـہٗ بِاِذْنِ رَبِہٖ وَالذَّیْ خَبُثَ لاَ یَخْرُجُ اِلاَّنَـکِدًا (الاعراف : 58) ” اور جو زمین زرخیر ہوتی ہے اس کی نباتات تو اس کے رب کے حکم سے خوب اپجتی ہیں اور جو زمین ناقص ہوتی ہے اس سے ناقص ہی چیز اگتی ہے۔ “ وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْہِمْاس کا ایک ترجمہ تو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے لیکن ایک دوسرا ترجمہ بھی ہوسکتا ہے اور وہ بھی صحیح ہے۔ وہ یہ ہے تاکہ یہ کھائیں اس زمین کے پھل اور وہ چیزیں جو ان کے اپنے ہاتھ بناتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نعمتوں سے انسان مختلف نعمتیں اور غذائیں بناتا ہے۔ غلے سے روٹی، سبزیوں سے سالن پھر آٹے اور بیسن سے مختلف قسم کی مٹھائیاں، مختلف پھلوں سے مربے، اچار، چٹنیاں اور ایسی ہی اور بیشمار چیزیں وغیرہ۔ یہ بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل کا کرشمہ ہے۔ اس لحاظ سے ان مصنوعی نعمتوں پر بھی اللہ تعالیٰ ہی کا شکر لازم ہے۔
Top