Mualim-ul-Irfan - Yaseen : 33
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ١ۖۚ اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ
وَاٰيَةٌ : ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الْاَرْضُ : زمین الْمَيْتَةُ ښ : مردہ اَحْيَيْنٰهَا : ہم نے زندہ کیا اسے وَاَخْرَجْنَا : اور نکالا ہم نے مِنْهَا : اس سے حَبًّا : اناج فَمِنْهُ : پس اس سے يَاْكُلُوْنَ : وہ کھاتے ہیں
ان لوگوں کے لیے ایک نشانی مردہ زمین ہے جسے ہم نے زندہ کردیا اور نکالا اس سے اناج ، پس اس سے وہ کھاتے ہیں
ربط آیات رسالت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک بستی والوں کا حال بیان کیا کہ ان کے پاس تین رسول آئے تاکہ ان کو توحید کی دعوت دیں مگر ان اہل بستی نے ان رسولوں یا مبلغین کے ساتھ سخت بدسلوکی کی حتی کہ ان کے قتل کے درپے ہوئے ان مرسلین کی تائید میں شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور قوم کو سمجھایا کہ ان رسولوں کی پیروی کرتے ہوئے شرک سے تائب ہو جائو اور توحید خداوندی کو اختیار کرو تو بستی والے اس مرد مومن کے بھی خلاف ہوگئے اور اسے قتل کر ڈالا ، پھر ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خوفناک چیخ کی صورت میں عذاب آیا جس سے سارے بستی والے ہلاک ہوگئے۔ ضمناً اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید فرمائی اور توحید کا اثبات پیش کیا۔ جزائے عمل کا بیان بھی ہوا۔ اللہ نے فرمایا کہ جب بھی کسی قوم کے پاس اللہ کا نبی آیا تو قوم نے اس کے ساتھ ٹھٹھا ہی کیا اور اس کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ مشرک لوگ نبی آخر الزمان کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے بہت سی قوموں کو اسی جرم کی پاداش میں ہلاک کیا۔ ان سب کو ایک دن ہمارے روبرو حاضر ہونا ہے جب ان کے عقائد و اعمال کے متعلق حتمی فیصلے ہوں گے۔ اب اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بعض دلائل بیان فرمائے ہیں جن سے وقوع قیامت اور توحید کا اثبات سمجھ میں آسکتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وایۃ لھم الارض المیتۃ ان لوگوں کے لیے مردہ زمین بھی بطور ایک نشانی کے ہے احیینھا جس کو ہم نے زندہ کیا واخرجنا منھا حبا پھر اس سے اناج نکالا یعنی دانے پیدا کئے۔ فمنہ یاکلون پس یہ لوگ اسی اناج کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی روئیدگی کا بہت سے مقامات پر ذکر کیا ہے کہ آسمان کی طرف سے پانی برسا کر ہم نے زمین کو روئیدگی بخشی اور پھر اس سے پھل پھول ، اناج ، سبزہ اور چارہ پیدا کیا۔ یہ آیت توحید خداوندی کی دلیل ہے کہ آسمان کی طرف سے جہاں اور جس قدر چاہے پانی برسا کر مردہ زمین کو زندہ کرنا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور اس میں کسی دوسری ذات کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اور یہی آیت وقوع قیامت کی دلیل اس طرح باتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ بارش کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے ، اسی طرح وہ قیامت والے دن تمام مردوں کو بھی زندہ کرکے اپنے سامنے لاکھڑا کرے گا۔ بزرگان دین یہ بھی فرماتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ خشک زمین کو تر و تازہ کردیتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنی مہربانی کے ساتھ مردہ دلوں یعنی گمراہ دلوں کو نور ہدایت ، ایمان اور توحید کی توفیق بخش کر ان میں روحانی زندگی پیدا کرتا ہے۔ جب اس میں اطاعت کا بیج پڑجاتا ہے تو اسے روحانی غذا بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ فرمایا ہم نے مردہ زمین کو زندہ کرکے اس میں سے اناج اگایا۔ اس کے علاوہ وجعلنا فیھا جنت من نخیل واعناب ہم نے اس زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات لگائے۔ وفجرنا فیھا من العیون اور آبی ضروریات کے لیے زمین میں چشمے بھی جاری کردیے۔ دریائوں ، نہروں اور چشموں کے پانی سے جانداروں کی پینے اور دھونے کی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور یہی پانی کھیتی باڑی کے کام آتا ہے جس سے تمام جانداروں کی غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں جس طرح زمین میں پانی بہنے سے خوبصورت باغات پیدا ہوتے ہیں ، اسی طرح ذوق و شوق کے ساتھ ذکر الٰہی کرنے والوں کے دلوں میں حکمت و دانائی کے چشمے جاری ہوتے ہیں اور انسانوں کے دلوں میں باغ و بہار پیدا ہوتے ہیں۔ فرمایا اناج اور باغات پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے لیاکلوا من ثمرہ تاکہ انسان اور جانور ان کا پھل کھائیں جو کہ ان کی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کا فیضان ہے وگرنہ وما عملتہ ایدیھم ان لوگوں کے ہاتھوں نے کچھ بھی نہیں بنایا یہ خود سوچیں کہ کیا بارش برسا کر دریا ، نہریں اور چشمے انہوں نے جاری کیے ہیں ؟ کیا پھل ، پھول ، اناج اور سبزہ انہوں نے پیدا کیا ہے ، کیا کھجوروں اور انگوروں کی پیداوار ان کا کارنامہ ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہی پیدا کردہ ہے۔ جب یہ بات ہے تو افلا یشکرون یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا شکر کیوں نہیں ادا کرتے ؟ انسانوں کا فرض تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی لاتعداد نعمتوں کو استعمال کرنے کے بعد اس کا شکر بھی ادا کرتے مگر اللہ نے فرمایا کہ اس کے شکرگزار بندے بہت کم ہیں اور اکثر لوگ ان نعمتوں کا کفران ہی کرتے ہیں۔ اگلی آیت میں اللہ نے اپنی قدرت کی ایک اور نشانی بیان فرمائی ہے۔ سبحن الذی خلق الازوج کلھا پاک ہے وہ ذات جس نے پیدا کیے جوڑے سب کے سب۔ ان میں سے بعض جوڑے وہ ہیں مما تنبت الارض جنہیں زمین اگاتی ہے زمین سے اگنے والی چیزوں میں اناج ، پھل ، پھول ، درخت ، پودے اور دیگر نباتات ہیں۔ اللہ نے ہر ایک کے جوڑے بنائے ہیں جن سے ان کی نسل آگے چلتی ہے۔ ہر درخت ، پودے اور سبزے کے نر و مادہ ہوتے ہیں جو کہ بار آور ہو کر جانداروں کے لیے خوراک مہیا کرتے ہیں۔ ومن انفسھم اور خود ان کی جانوں میں بھی جوڑے پیدا کیے ہیں۔ اللہ کی مخلوق انسانوں ، جنوں ، چرندوں ، پرندوں وغیرہ سب کو اللہ نے جوڑے جوڑے پیدا کیا ہے اور پھر نر و مادہ کے ملاق سے ان کی نسل آگے چلائی ہے۔ اگر جوڑوں کی بجائے صرف نر یا صرف مادہ ہوتے تو بقائے نسل ممکن نہ ہوتی۔ اور فرمایا ہم نے ان چیزوں کے بھی جوڑے بنائے۔ ومما لا یعلمون جن کو یہ انسان جانتے ہی نہیں۔ اللہ کی کتنی ہی مخلوق ہے جو زمین کی پشت پر ہمارے سامنے چلتی پھرتی ہے اور لاتعداد مخلوق ایسی بھی ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے اور ہم اسے جانتے تک نہیں زمین کی تہوں اور سمندروں کی گہرائیوں میں بسنے والے کتنے کیڑے مکوڑے ہیں جن کے نام تک سے ہم واقف نہیں۔ اللہ نے ان کو بھی جوڑوں کی شکل میں پیدا کرکے بقائے نسل کا انتظام کردیا ہے تو فرمایا ہم نے زمین میں ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے۔ ان معروف جوڑوں کے علاوہ بعض غیر مرئی جوڑے بھی اللہ نے بنائے ہیں نیکی اور بدی ، معروف اور منکر ، اندھیرا اور اجالا سب جوڑے ہی تو ہیں۔ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ چناچہ نیکی کی پہچان بدی سے اور روشنی کی پہچان اندھیرے کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جس طرح اللہ نے ان سب چیزوں کو پہلی دفعہ پیدا کیا ہے ، اسی طرح مرنے کے بعد انسانوں کو دوبارہ بھی زندہ کرے گا۔ وہ ذات خداوندی ہر عیب ، نقص اور شرک سے پاک ہے سبحن اللہ عما یشرکون (الطور 43) اللہ تعالیٰ ہر کمزوری سے منزہ ہے ، وہ ذات ان تمام چیزوں سے بلندو برتر ہے۔ آگے اللہ نے اپنی قدرت کی ایک اور نشانی بیان فرمائی ہے وایۃ لھم الیل رات بھی ان لوگوں کے لیے بطور ایک نشان قدر ت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے رات اور دن کا ایسا نظام قائم کر رکھا ہے کہ جب انسان دن بھر کی مشقت سے تھک جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ رات کو لے آتے ہیں تاکہ وہ اس دوران میں آرام کرکے اپنی تحلیل شدہ قویٰ بحال کرسکیں۔ چناچہ جب لوگ آرام کرنا چاہتے ہیں تو فرمایا نسلخ منہ النھار تو ہم اس رات کو دن سے کھینچ لیتے ہیں۔ جب دن کے بعد رات چھا جاتی ہے فاذاھم مظلمون تو اچانک لوگ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کا نظام خاص تناسب کے ساتھ قائم کر رکھا ہے۔ سورة الفرقان میں ہے وھوالذی جعل الیل والنھار خلقۃ (آیت 62) اللہ کی ذات وہ ہے جس نے رات اور دن کو آگے پیچھے آنے والا بنایا ہے۔ اللہ کے شکر گزار بندے دونوں اوقات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر کوئی دن کے وقت غلطی ہوجاتی ہے تو رات کو معافی مانگ لیتے ہیں ، اور اگر رات میں کوئی کوتاہی ہوئی تو اس کی تلافی دن کے وقت کرلیتے ہیں۔ الغرض ! رات اور دن اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہیں جن میں غور و فکر کرکے انسان اللہ کی وحدانیت کو پہچان سکتے ہیں۔ جس طرح رات اور دن کا نہایت موزوں نظام قائم ہے ، اسی طرح فرمایا والشمس تجری لمستقرلھا اور سورج بھی اپنے مستقر یعنی ٹھہرائے ہوئے راستے پر چل رہا ہے۔ اگر مستقر سے مراد مستقر زمانی ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ سورج اپنے مقررہ وقت تک محو سفر ہے اور قیام تکو اپنے مستقر پر پہنچ کر ختم ہوجائے گا۔ اللہ کا فرمان ہے اذا الشمس کورت (التکویر 1) جب سورج بےنور کردیا جائے گا ، یہ اس وقت تک اپنی رفتار سے چلتا ہے گا اور اگر مستقر سے مراد مستقر مکانی ہو تو معنی یہ ہوگا کہ سورج اپنے مدار میں مقررہ رفتار سے سفر کر رہا ہے ۔ حضور ﷺ کا فرمان (ابن کثیر ص 571 ج 3 و معالم التنزیل ص 203 ج 3 و قرطبی ص 27 ج 15) ہے کہ سورج اپنی منزل کی طرف چلتا رہتا ہے اور ہر رات عرش عظیم کے نیچے بارگاہ رب العزت میں سجدہ ریز ہوتا ہے اور اپنی رفتار کو جاری رکھنے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملتی ہے اور وہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے ، پھر ایک دن آئے گا کہ حسب معمول سورج اللہ تعالیٰ سے اپنے سفر کے تسلسل کی اجازت طلب کرے گا تو حکم ہوگا کہ اپنی حرکت کو معکوس کردو ، چناچہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا اور دوپہر تک کا وقت ہوجائے گا۔ لوگوں میں دہشت پیدا ہوجائے گی ، وہ خوف کے مارے ایمان کا اقرار کریں گے مگر اس وقت کا ایمان لانا قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان کی کوئی نیکی قبول ہوگی۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جب سورج اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی رفتار روک کر ہی ایسا کرتا ہوگا جس کی وجہ سے اس کے معمول میں فرق آنا لازمی ہے مگر ایسا نہیں ہوتا اور آج تک سورج کی رفتار میں سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے برابر بھی فرق نہیں آیا۔ اخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کے جواب میں مفسرین کرام (روح المعانی ص 14 ج 23) بیان کرتے ہیں کہ سورج کی سجدہ ریزی کی مثال ایسی ہی ہے جسے کوئی شخص خواب میں کئی ایک امورز انجام دیتا ہے مگر جس میں اس کے دل کی حرکت اور اس کے ساتھ زندگی کا تعلق برابر قائم رہتا ہے اور اس میں سرمو فرق نہیں آتا۔ اسی طرح سورج بھی اپنے کام میں خلل ڈالے بغیر اللہ تعالیٰ کو ہر رات سجدہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) اور بعض دیگر صاحب علم و حکمت حضرات فرماتے ہیں کہ سورج اپنے سفر کے دوران ہر ہر لمحہ سفر کے تسلسل کی اجازت طلب کرتا ہے اور بغیر اجازت ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھتا۔ فرماتے ہیں کہ اسی اجازت طلب کا نام ہی سجدہ ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں آیا ہے۔ پرانے یونانی ماہرین فلکیات سات سیارے سورج ، چاند ، مریخ ، زہرہ ، مشتری ، زحل اور عطارد دریافت کئے تھے ، مگر موجودہ زمانے کے سائنسدانوں نے دو مزید سیارے نپچوں اور اور انوس بھی دریافت کرلیے ہیں جس سے ان کی تعداد بڑھ کر نو ہوگئی ہے۔ ان سب کا تعلق نظام شمسی سے ہے اور یہ سارا نظام کہکشاں کا ایک حصہ ہے۔ باریک باریک ستاروں سے مل کر بننے والی سڑکیں کہکشاں کہلاتی ہیں۔ ہر کہکشاں میں کروڑوں بلکہ اربوں ستارے ہوتے ہیں اور پورا نظام شمسی کسی ایک کہکشاں کا جزو ہے۔ اس نظام میں سب سے بڑا سیارہ سورج ہے اور باقی سارے سیارے اس کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ ہماری زمین سے تو اس نظام کا صرف ایک ہی چاند نظر آتا ہے مگر حقیقت میں سورج کے گرد اکتیس چاند محو گردش ہیں۔ زمین سے قریب ترین سیارہ چاند ہے جو یہاں سے دو لاکھ چالیس ہزار میل دور ہے۔ اگر ان دونوں کا درمیان فاصلہ اس سے زیادہ ہوتا تو وہ فوائد حاصل نہ ہوسکتے جو اس وقت ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر چاند اور زمین کا درمیانی فاصلہ صرف پچاس ہزار میل ہوتا تو سمندر سے پانی کی اتنی لہریں اٹھتیں کہ پوری زمین کا کاروبار درہم برہم ہوجاتا کیونکہ اس وقت سمندروں میں جو مدوجزر پیدا ہو رہا ہے وہ چاند کی دو لاکھ چالیس ہزار میل کی دوری کے اثرات سے پیدا ہو رہا ہے۔ اگر یہ فاصلہ کم ہوجائے تو چاند کے سمندر پر اثرات کی مقدار بڑھ جائے گی اور پانی پورے کرہ ارض پر پھیل جائے گا۔ ہماری یہ زمین ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہی ہے جس کی وجہ سے رات دن اور مختلف موسم پیدا ہوتے ہیں۔ یہ موزوں ترین رفتار ہے کہ زمین پر رہنے والے جانداروں کے مناسب حال ہے۔ اگر یہی رفتار دس ہزار میل فی گھنٹہ ہوجائے تو دن اور رات صرف سوا سوا گھنٹے کے رہ جائیں اور ان حالات میں زمین کے باشندوں کا ستقرار ختم ہو کر رہ جائے اور وہ کوئی کام نہ کرسکیں۔ اس کے برخلاف اگر زمین کی رفتار صرف ایک سو میل فی گھنٹہ تک کم ہوجائے تو ایک سو بیس گھنٹے کا دن اور اتنی لمبی ہی رات ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ اتنا لمبا عرصہ سورج کی تپش سے زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا اور رات اتنی لمبی ہوتی کہ جانداروں کو منجمد کرکے رکھ دیتی اور زندگی کا سارا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جاتا۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے زمین اور دیگر سیاروں کی رفتار اس طریقے پر مقرر کی ہے جو جانداروں کی زندگی کے لیے موزوں ترین ہے۔ فضا میں نظر آنے والے ستاروں کی تعداد اربوں اور کھربوں تک ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ مدار میں مقررہ رفتار سے چل رہے ہیں۔ اس زمین پر تو ٹریفک میں ذرا سی بےقاعدگی ہوجائے تو بیشمار گاڑیاں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں۔ مگر ستاروں اور سیاروں کا اتنا بہترین نظام اللہ نے قائم کیا ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ چل رہا ہے مگر آج تک کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ جب تک اللہ کو منظور ہے۔ یہ نظام چلتا رہے گا اور جب وہ چاہے گا اس کو ختم کرکے عالم بالا کا نظام لے آئے گا۔ فرمایا ذلک تقدیر العزیز العلیم یہ غالب اور علم والے خدا کا ٹھہرایا ہوا اندازہ ہے جس کے مطابق یہ سارا نظام کام کر رہا ہے۔ فرمایا والقمر قدرنہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم سورج کی طرح ہم نے چاند کی بھی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں حتی کہ وہ چلتے چلتے پرانی ٹہنی کی طرح دبلا پتلا ہوجاتا ہے۔ پھر بڑھتے بڑھتے پورا چاند ہوجاتا ہے اور اس کے بعد پھر گھٹتے گھٹتے باریک سی شاخ کے مانند ہوجاتا ہے۔ فرمایا سورج اور چاند کا یہ نظام اس طریقے سے مقرر کیا گیا ہے لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر کہ سورج چاند کو نہیں پہنچ سکتا ولا الیل سابق النھار اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے بلکہ وکل فی فلک یسبحون ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں چل رہا ہے۔ حضرت شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں (موضح القرآن ص 530) کہ بطلیموس کا یہ نظریہ غلط ہے کہ چاند دوسرے آسمان پر ہے اور سورج چوتھے آسمان پر ، بلکہ یہ سارے سیارے آسمانوں سے نیچے فضا میں تیر رہے ہیں۔ یہاں پر فلک سے مراد آسمان نہیں بلکہ مدار مراد ہے جس میں یہ سارے گردش کر رہے ہیں۔
Top