Madarik-ut-Tanzil - Yaseen : 33
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ١ۖۚ اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ
وَاٰيَةٌ : ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الْاَرْضُ : زمین الْمَيْتَةُ ښ : مردہ اَحْيَيْنٰهَا : ہم نے زندہ کیا اسے وَاَخْرَجْنَا : اور نکالا ہم نے مِنْهَا : اس سے حَبًّا : اناج فَمِنْهُ : پس اس سے يَاْكُلُوْنَ : وہ کھاتے ہیں
اور ایک نشانی ان کیلئے زمین مردہ ہے کہ ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس میں سے اناج اگایا پھر یہ اس میں سے کھاتے ہیں
33: وَ ٰایَۃٌ لَّھُمْ (اور ایک نشانی ان کے لئے) اور ایک نشانی اس بات پر دلالت کرنے کیلئے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کریں گے مردہ زمین کو آباد کردینا ہے۔ ایۃ مبتدأ اور لھمؔ خبر ہے۔ نمبر 2۔ ایۃ مبتدأ ہونے کی وجہ سے مرفوع ہو اور لہمؔ اس کی صفت ہے اور الارض المیتۃ اس کی خبر ہے۔ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ (مردہ زمین) خشک زمین۔ قراءت : مدنی نے المیتۃ کو تشدید سے پڑھا ہے۔ اَحْیَیْنٰھَا (ہم نے اس کو زندہ کیا) بارش سے۔ نحو : نمبر 1۔ یہ جملہ مستانفہ ہے۔ جو کہ زمین کے مردہ ہونے کا نشانی ہونا بیان کرنے کیلئے لایا گیا اور اسی طرح نسلخ بھی مستانفہ ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ نسلخ کو الیلؔ اور احیینھٰا کو الارض کی صفت قرار دیں۔ کیونکہ یہاں مراد جنس لیل اور جنس ارض ہے۔ کوئی معین ارض و لیل مراد نہیں۔ اس لئے افعال کو ان کی صفت بنانے میں نکرات جیسا سلوک کیا گیا ہے۔ فعل کے اس قسم کے معارف کی صفت بننے میں اشکال نہ رہا۔ اس کی مثال کلام عرب میں موجود ہے۔ وَلَقَدْ اَمُرّ علٰی اللئیم یسبُنِی اللئیم کی صفت یسبُّنِیہے۔ وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا (اور ہم نے اس میں سے غلے نکالے) یہاں جنس (حبّاؔ) غلہ مراد ہے۔ فَمِنْہُ یَاْکُلُوْنَ (پس ان میں سے لوگ کھاتے ہیں) ۔ وجہ تقدیم : منہؔ ظرف کو مقدم کر کے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ غلہ ہی وہ چیز ہے جس سے گزران زندگی کا بڑا حصہ متعلق ہے اور اسی کے استعمال سے انسانی جسم کی اصلاح و درستی ہے جب یہ کم ہوجائے تو قحط پڑجائے اور نقصان واقع ہو اور جب نایاب ہو تو ہلاکت سر آسوار ہو اور مصائب اتر پڑیں۔
Top