Baseerat-e-Quran - Yaseen : 33
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ١ۖۚ اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ
وَاٰيَةٌ : ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الْاَرْضُ : زمین الْمَيْتَةُ ښ : مردہ اَحْيَيْنٰهَا : ہم نے زندہ کیا اسے وَاَخْرَجْنَا : اور نکالا ہم نے مِنْهَا : اس سے حَبًّا : اناج فَمِنْهُ : پس اس سے يَاْكُلُوْنَ : وہ کھاتے ہیں
مردہ زمین ان کے لئے ایک نشانی ہے جس ہم نے ( بارش کے ذریعہ) زندہ کیا اور اس سے ہم نے غلہ (اناج) نکالا جسے وہ کھاتے ہیں
لغات القرآن : آیت نمبر 33 تا 44 :۔ حب ( دانہ) نخیل ( کھجور) اعناب ( عنب) (انگور) فجرنا ( ہم نے پھاڑ دیا) الازواج ( زوج) (جوڑے) العرجون ( کھجور کی ٹہنی ، شاخ) یرکبون (وہ سوار ہوتے ہیں) صریخ ( چیخ ، فریاد) تشریح : آیت نمبر 33 تا 44 :۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں اپنی بیشمار نعمتوں کو بکھیر رکھا ہے جو ایک ایسے نظام میں بندھے ہوئے ہیں کہ اپنی مرضی سے ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکتے۔ یہ اللہ کی ایسی نشانیاں ہیں جنہیں دن رات آدمی دیکھتا ہے لیکن ان پر غور نہیں کرتا ۔ اگر وہ ان تمام نعمتوں پر غور و فکر سے کام لے تو اس کے دل میں اس کائنات کے خالق کی ایسی عظمت چھا جائے کہ پھر اس کے سوا کسی کی عظمت کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی ۔ ہر انسان دیکھتا ہے کہ ایک زمین بالکل خشک اور سوکھی پڑی ہے جو ویران سی لگتی ہے لیکن جیسے ہی بارش برستی ہے تو اس سوکھی اور مردہ سی زمین میں زندگی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں اور کچھ دنوں میں وہ زمین ہری بھری دکھائی دینے لگتی ہے۔ درختوں پر ایک رونق سی آجاتی ہے ، کھجوریں اور انگور اگ آتے ہیں ۔ پھر انسانوں اور نباتات کو سر سبز و شاداب رکھنے کے لئے جگہ جگہ پانی کے چشمے بہنے لگتے ہیں جن کے ذریعہ کھیتوں ، درختوں اور بیلوں کے ذریعہ انسانوں اور تمام جان داروں کے رزق کا انتظام کردیا جاتا ہے۔ اللہ نے انسان کو یہ طریقہ سکھایا ہے کہ وہ زمین کو تیار کر کے اس میں بیج ڈال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سوال کیا ہے کہ کھیتوں کو تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں ؟ اس کی وضاحت نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے کہ انسان تو کھیتی باڑی میں ایک کام کرتا ہے لیکن نناوے کام تو اللہ کی قدرت سے ہوتے ہیں انسان اللہ کی پیدا کی ہوئی نعمتوں کو تربیت دیتا ہے لیکن وہ خود ان چیزوں کا خالق نہیں ہوتا ۔ خالق صرف اللہ ہی ہے اسی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ایک کھلی ہوئی نشانی ہے کہ زمین ، ہوا ، پانی سب ایک ہی فضاء میں ہیں لیکن ان سے پیدا ہونے والی چیزیں بالکل مختلف ہیں ، مزا مختلف ، شکل صورت مختلف ، کوئی پھل میٹھا ہے کوئی کھٹا ، کوئی نمکین ہے تو کوئی کڑوا ۔ اسی طرح انسانوں میں بھی یہی صورت ہے کہ ماں باپ اور گھر کا ماحول ایک جیسا لیکن صورت ، شکل اور مختلف ذہنوں اور مزاجوں میں اولاد پیدا ہوتی ہے۔ کوئی گورا کوئی کالا کوئی پیلا تو کوئی سرخ ۔ فرمایا کہ اسی طرح اللہ کی نشانیوں میں سے رات اور دن کا آنا جانا ہے۔ جب رات پر دن کی روشنی چھا جاتی ہے تو وہ روشن ہوجاتی ہے اور جب دن کی روشنی پر رات کی تاریکی چھا جاتی ہے تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوجاتا ہے۔ سورج اپنے مقرر راستے پر چل رہا ہے اور چاند اپنی رفتار اور انداز سے اپنی منزلیں طے کرتا ہے کبھی وہ گھٹتا ہے اور کبھی بڑھتا ہے کبھی وہ اس طرح ہوجاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی شاخ مڑ کر کمان بن جاتی ہے۔ چاند ، سورج اور ستارے سب کے سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح کنٹرول کر رکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے تک نہیں پہنچ سکتے۔ سورج اپنے مدار اور دائرے سے نکل کر چاند کے دائرے میں نہیں جاسکتا اور چاند اپنے مدار کو چھوڑ کر سورج کی طرف نہیں جاسکتا ۔ ایسے ہی جتنے بھی سیارے اور ستارے ہیں اللہ نے ان کے دائرے مقرر کردیئے ہیں وہ اب اللہ کی حمد وثناء تسبیح کرتے ہوئے اپنے اپنے دائرے میں گھوم رہے ہیں ۔ کروڑوں سال سے یہ نظام اسی طرح چل رہا ہے جو اللہ کی قدرت کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ فرمایا کہ خود انسان کی اپنی ذات میں بیشمار نشانیاں موجود ہیں ۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پر پانی کا عذاب آیا تو اس وقت کی معلوم دنیا اس پانی میں غرق ہوگئی اور سوائے سفینہ نوح (علیہ السلام) کے جو انسانوں اور جانوروں سے بھرا ہوا تھا ایک جان دار بھی زندہ رہ سکا لیکن اللہ کی قدرت سے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والے لوگ اور جان داروں کے جوڑے اس کشتی میں سوار کرا دیئے گئے تھے وہی بچ سکے ان کے علاوہ سب کے سب غرق کردیئے گئے ۔ اس طرح نسل انسانی کا سلسلہ باقی رہ سکا ۔ پھر وہی نسل انسانی پھیلتی اور بڑھتی چلی گئی ۔ فرمایا کہ اللہ نے اپنی قدرت کا ملہ سے انسانوں کے لئے ایسی ایسی سواریاں پیدا کیں اور آئندہ زمانے میں انسانی ضرورتوں کے لحاظ سے مختلف سواریاں پیدا کی جاتی رہیں گی ۔ سمندر میں ایک جہاز ایک تنکے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا مگر اللہ تعالیٰ نے پانی اور ہواؤں کو انسان کے اس طرح تابع کردیا کہ وہ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک اپنی ضرورت کا سامان اور لوگوں کو پہنچانے کا کام کرتے ہیں ۔ اسی طرح خشکی میں بھی اس نے طرح طرح کی سواریاں پیدا کی ہیں ۔ موجودہ دور میں انسانی ترقی کا راز فضاء ، ہوا ، سمندر اور خشکی پر چلنے والی سواریاں ہی ہیں جن سے ساری دنیا ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہیں لیکن ان فضاؤں ، خشکی اور تری کو انسان کے تابع کس نے کردیا ہے۔ یقینا اسی ایک اللہ نے جو کائنات کی ساری چیزوں کا خالق اور بنانے والا ہے۔ وہی شکر اور عبادت و بندگی کے لائق ہے ۔ اگر کوئی شخص ان کھلی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا معبود اور کار ساز اور مشکل کشا مانتا ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول اور بد نصیبی ہے۔
Top