Al-Qurtubi - Yaseen : 33
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ١ۖۚ اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ
وَاٰيَةٌ : ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الْاَرْضُ : زمین الْمَيْتَةُ ښ : مردہ اَحْيَيْنٰهَا : ہم نے زندہ کیا اسے وَاَخْرَجْنَا : اور نکالا ہم نے مِنْهَا : اس سے حَبًّا : اناج فَمِنْهُ : پس اس سے يَاْكُلُوْنَ : وہ کھاتے ہیں
اور ایک نشانی ان کیلئے زمین مردہ ہے کہ ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس میں سے اناج اگایا پھر یہ اس میں سے کھاتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے انہیں مردوں کے زندہ کرنے پر متنبہ کیا اور ان کے سامنے اپنی توحید اور کمال قدرت کا ذکر کیا یہ مردہ زمین ہے جسے نباتات اور نباتات سے دانہ نکالنے کے ساتھ اسے زندہ کیا اس دانہ سے تم غذا حاصل کرتے ہو اہل مدینہ نے المیتۃ کے لفظ کو مشدد پڑھا ہے جب کہ باقی قراء نے اسے مخفف پڑھا ہے یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ اور ہم نے اس زمین میں باغات بنائے کھجور اور انگروں کا خصوصی طور پر ذکر کیا کیونکہ یہ دونوں اعلی قسم کے پھل ہیں ان باغات میں ہم نے چشمے جاری کردیئے ثمرہ میں جو ضمیر ہے وہ عیون کے پانی کی لوٹتی ہے کیونکہ پھل اسی سے پیدا ہوتے ہیں یہ جرجانی ‘ مہدوی اور دوسرے علماء کا قول ہے۔ ایک قوم یہ کیا گیا ہے : جن کا ہم نے ذکر کیا وہ اس کے پھل کھائیں جس طرح ارشاد فرمایا : و ان لکم فی الانعام لعبرژ نسقیکم مما فی بطونہ) النحل (66: حمزہ اور کسائی نے اسے من ثمرہ پڑ ھا ہے۔ جبکہ باقی قراء نے اسے مفتوح پڑھا ہے۔ اعمش نے یہ لفظ ثاء کے ضمہ اور میم کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے اس بارے میں گفتگو الانعام میں گزر چکی ہے۔ وما عملتہ ایدیھم میں ما کا لفظ محل جر میں ہے کیونکہ اس کا عطف من ثمرہ پر ہے یعنی ممما عملتہ ایدیھم کو فیون نے اسے ھاء کے بغیر پڑھا ہے باقی قراء نے اپنے اصل پر حذف کے بغیر پڑھا ہے۔ کلام میں ضمیر عائد کا حذف اکثر ہوتا ہے کیونکہ اسم طویل ہوتا ہے) کیونکہ اسم موصول صلہ کے ساتھ ملکر ایک اسم کے حکم میں ہوتا ہے ( یہ بھی جائز ہے کہ ما نافیہ ہو اس کا اعراب میں کوئی محل نہ ہوا اسے صلہ اور ضمیر عائد کی کوئی ضرورت نہ ہو یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اگائی ہے وہ ان کے ہاتھوں کے پیدا کردہ نہیں ‘ یہ حضرت ابن عباس ‘ ضحاک اور مقاتل کا قول ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : اس کا معنی ہے ان پھلوں میں سے جون کے ہاتھوں کی کاوش کا نتیجہ ہیں اور میٹھی اور کھانے کے مختلف اقسام میں سے اور وہ چیزیں جو کسی خاص طریقہ سے دانوں سے بناتے ہو جس طرح روٹی اور تیل جو تلوں اور زیتون سے نکالا جتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ اس طرف راجع ہے جسے لوگ کھاتے ہیں ‘ یہی معنی حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ افلا یشکرون۔ کا مفعول نعمہ ہے کیا وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بجا نہیں لاتے۔ سبحن الذی اللہ تعالیٰ نے کفار کے قول سے اپنی پاکی بیان کی ہے کیونکہ کفار نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی قدرت کے آثار کو دیکھنے کے بعد غیر اللہ کی عبادت کی۔ اس کلام میں فعل امر کی تقدیر ہے مراد یہ ہے سجوہ و نزھوہ عما لا یلیتق بہ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اسی میں تعجب کا معنی ہے یعنی ان کافروں کے کفر پر تعجب ہے جو ان آیات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود اس کا انکار کرتے ہیں۔ جو کسی چیز پر تعجب کا اظہار کرتا ہے تو وہ سبحان اللہ کہتا ہے۔ ازواج کا معنی انواع واضاف ہیں ہر زوج صنف ہوا کرتا ہے کیونکہ وہ رنگ ‘ ذائقہ ‘ شکل ‘ چھوتے برے ہونے میں مختلف ہوتے ہیں ان کا اختلاف ہی ان کی ازواج ہے۔ قتادہ نے کہا : اس سے مراد مذکر اور مئونث ہے۔ مما تنبت الارض سے مراد نباتات ہے کیونکہ اس کی اقسام ہوتی ہے و من افسھم سے مراد ایسی اولاد ہے جو جوڑے جوڑے ہیں ان میں سے مذکر اور مئونث ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے خشکی ‘ سمندر ‘ آسمان اور زمین میں ایسی مخلوقات میں سے ہیں جنہیں تم نہیں جانتے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے پیدا فرماتا ہے اسے کوئی انسان نہ جانتا ہو اور فرشتے اسے جانتے ہوں۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ اس مخلوق کو کوئی دوسری مخلوق نہ جانتی ہو۔ اس آیت میں استدلال کی صورت یہ ہے کہ جب وہ پیدا کرنے میں منفرد ہے تو مناسب نہیں کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔
Top