Tadabbur-e-Quran - Yaseen : 33
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ١ۖۚ اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ
وَاٰيَةٌ : ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الْاَرْضُ : زمین الْمَيْتَةُ ښ : مردہ اَحْيَيْنٰهَا : ہم نے زندہ کیا اسے وَاَخْرَجْنَا : اور نکالا ہم نے مِنْهَا : اس سے حَبًّا : اناج فَمِنْهُ : پس اس سے يَاْكُلُوْنَ : وہ کھاتے ہیں
اور ایک بہت بڑی نشانی ان کے لئے مردہ زمین ہے۔ اس کو ہم نے زندہ کیا اور اس سے غلے اگائے پس اس میں سے وہ کھاتے ہیں۔
4۔ آگے کا مضمون۔ آیات 33۔ 50 آگے آفاق کی نشانیوں سے رسول کی دعوت اور اس کے انداز کی تائید کی ہے اور ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے جو کائنات کی ان تمام نشانیوں سے آنکھیں بند کئے ہوئے کسی نئی نشانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گویا اوپر کی تاریخی شہادت کے بعد کلام ازسر نو تمہید سے متصل ہوگیا ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی تھی کہ ان کی اصلی بیماری یہ ہے کہ استکبار ان کو اوپر یا نیچے کی کسی نشانی کی طرف متوجہ نہیں ہونے دے رہا ہے ورنہ ان کے آگے اور پیچھے نشانیوں کی کمی نہیں ہے۔ ان کے اس رویہ اور اس کے انجام کی مثال قوم فرعون سے دینے کے بعد پھر ان کو آسمان و زمین کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ 5۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت آیت 33۔ 35 یہ سب سے پہلے زمین کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مردہ زمین کی ازسر نور زندگی سے قیامت، توحید اور آسمانی ہدایت کے نزول پر جن گوناگوں پہلوئوں سے استشہاد کیا ہے اس کی تفصیل پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے۔ یہاں ربوبیت کے پہلو کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے اور پھر خدا کی شکر گزاری کے حق کا مطالبہ کیا ہے جو بندوں پر لازماً عائد ہوتا ہے۔ اس شکر کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ بندے تنہا اپنے رب ہی کی بندگی کریں اس لئے کہ ان نعمتوں میں سے کوئی نعمت بھی نہ تو انسان کی اپنی سعی و تدبیر سے وجود میں آئی ہے اور نہ کوئی دوسرا ان کو وجود میں لانے والا بنا ہے۔ ’ وایۃ لھم الارض منالمیتتہ ‘ لفظ ایۃ ‘ کی تنکیر تفخیم شان پر دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو اگر کسی نشانی کی طلب ہے تو اس کے لئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے لئے ایک سب سے بڑی نشانی ان کے پائوں کے نیچے بچھی ہوئی یہ زمین ہی ہے۔ یہ بالکل مردہ ہوتی ہے، ہم اپنی بارش بھیج کر اس کو زندہ کرتے اور پھر اس سے غلے پیدا کرتے ہیں اور ان غلوں ہی پر ان کی معاش کا انحصار ہے۔ پھر یہ غور کریں تو ان کو معلوم ہوگا کہ ہم نے ان کی معاش کے لئے صرف غلے ہی کا انتظام نہیں کیا ہے بلکہ ہم نے اس میں ان کے لئے کھجور اور انگور اور دوسرے پھلوں کے باغ بھی اگائے ہیں اور ان باغوں کو شاداب رکھنے کے لئے چشمے بھی جاری کردیے ہیں۔ ’ لیاکلوا من ثمرہ لا وما عملتہ ایدیھم ط افلا یشکرون ‘۔ یہ اس تمام اہتمام ربوبیت کا حق بیان فرمایا ہے کہ یہ سارا اہتمام ہم نے اس لئے کیا کہ بندے ہماری نعمتوں سے بہرہ مند ہوں اور اس امر پر دھیان کریں کہ یہ ان کے ہاتھوں کی کارفرمائی نہیں ہے بلکہ ایک ربِ رحیم و کریم و منعم کی بخشش ہے جس نے ان کو بغیر کسی استحقاق کے ان نعمتوں سے بہرہ مند کیا ہے کہ وہ اس کے شکر گزارو فرمانبردار بنیں۔ لیکن ان کی ناسپاسی کا یہ حال ہے کہ یہ تمام نعمتوں سے فائدہ تو اٹھا رہے ہیں لیکن جب ان کو خدا کی شکر گزاری کی دعوت دی جاتی ہے تو اکڑتے اور نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ’ من ثمرہ ‘ کی ضمیر کے مرجع کے بارے میں اہل تاویل کا اختلاف ہے۔ اکثر لوگوں نے اس کا مرجع اللہ تعالیٰ کو مانا ہے۔ (یعنی لوگ) اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے پھل کھائیں اور اس کے شکر گزار ہیں)۔ اس تاویل میں مجھے تکلف محسوس ہوتا ہے۔ اوپر سے اسلوب کلام متکلم کا چلا آرہا ہے اس وجہ سے اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے یہاں ’ من ثمرہ ‘ کے بجائے ’ من اثمارنا ‘ یا اس کے ہم ملطب کوئی اور اسلوب ہوتا اگرچہ یہ بھی کچھ موزوں نہ ہوتا۔ میرے نزدیک اس ضمیر کا مرجع ’ ارض ‘ ہی ہے جس کا ذکر اوپر سے چلا آرہا ہے لیکن اس کے لئے یہاں ضمیر مذکور اس اسلوب پر آئی ہے جس کو اہل ادب ’ علی سبیل لتاویل ‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ عربی زبان میں یہ قاعدہ ہے کہ بعض مرتبہ ضمیر لفظ کے ظاہر کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس کے مفہوم کے اعتبار سے آتی ہے۔ اس کی متعد دمثالیں پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہیں۔ یہاں ’ ارض ‘ کے لئے مذکر ضمیر استعمال کرکے یہ اشارہ فرمادیا کہ اس ’ بلدطیب ‘ مراد ہے۔ اس لئے کہ بارش ہونے کو تو ہر خشک و تر اور ہر بنجر اور زرخیر زمین پر ہوتی ہے لیکن بار آور وہی زمین ہوتی ہے جو زرخیر ہوتی ہے۔ یہ مضمون سورة اعراف میں اس طرح بیان ہوا۔ ’ والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ والذی خبث لا یخرج الا نکدار (اعراف : 87) (اور جو زمین زرخیز ہوتی ہے اس کی نباتات تو اس کے رب کے حکم سے خوب ایچتی ہیں اور جو زمین ناقص ہوتی ہے اس سے ناقص ہی چیز اگتی ہے)۔ ’ وما عملتہ ایدیھم ‘۔ یہ جملہ معترضہ کے محل میں ہے اور یہ ایک نہایت اہم یاددہانی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان پھلوں کو کھائیں اور یہ یاد رکھیں کہ ان کو وجود میں لانے والے وہ نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی حقیقت کا تذکر ہی آدمی کے اندر شکر کا جذبہ ابھارتا ہے اور یہی شکر تمام دین کی بنیاد ہے۔ جو لوگ اس حقیقت سے بیخبر ہوتے ہیں وہ اللہ کی نعمتوں کو اپنے استحقاق اور اپنی قابلیت و صلاحیت کا کرشمہ سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خدا کے شکر گزار بدے بننے کے بجائے استکبار میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یہ استکبار اپنی فطرت کے اعتبار سے شرک اور تمام فساد فی الارض کا پیش خیمہ ہے۔
Top