Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Yaseen : 33
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ١ۖۚ اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ
وَاٰيَةٌ
: ایک نشانی
لَّهُمُ
: ان کے لیے
الْاَرْضُ
: زمین
الْمَيْتَةُ ښ
: مردہ
اَحْيَيْنٰهَا
: ہم نے زندہ کیا اسے
وَاَخْرَجْنَا
: اور نکالا ہم نے
مِنْهَا
: اس سے
حَبًّا
: اناج
فَمِنْهُ
: پس اس سے
يَاْكُلُوْنَ
: وہ کھاتے ہیں
اور ایک نشانی ان کیلئے زمین مردہ ہے کہ ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس میں سے اناج اگایا پھر یہ اس میں سے کھاتے ہیں
آیت نمبر 33 تا 50 ترجمہ : اور ایک نشانی ان کے لئے مرنے کے بعد زندہ ہونے پر مردہ زمین ہے اٰیۃٌ لھُمْ خبر مقدم ہے اَلْمیتۃُ تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے کہ ہم نے اس کو پانی کے ذریعہ زندہ کیا والارض الخ مبتداء مؤخر ہے، اور ہم نے اس زمین سے غلہ مثلاً گندم پیدا کیا سو اس سے یہ لوگ کھاتے ہیں اور (نیز) ہم نے زمین میں کھجوروں اور اناروں کے باغات پیدا کئے اور اس میں کچھ چشمے جاری کئے تاکہ لوگ اس کے پھل کھائیں، ثمَرہ میں یعنی (ث، م) دونوں میں فتحہ اور ضمہ ہے، یعنی تاکہ مذکورہ کھجور وغیرہ کے پھلوں میں سے کھائیں اور ان پھلوں کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا تو پھر یہ لوگ اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے انعامات کا شکر ادا کیوں نہیں کرتے ؟ وہ پاک ذات ہے جس نے تمام زمینی نباتات (مثلاً ) غلہ وغیرہ کے اور خود ان کے اندر نرومادہ کے جوڑے اور ان عجیب و غریب مخلوقات کے جن کو وہ جانتے بھی نہیں جوڑے پیدا کئے اور خدا تعالیٰ کی قدرت عظیمہ پر ایک نشانی رات ہے کہ جس کے اوپر سے ہم دن کو اتار لیتے ہیں تو وہ یکایک اندھیرے میں داخل ہوجاتے ہیں اور منجملہ قدرت کی نشانیوں میں سے یا دوسری نشانی سورج ہے جو اپنے مستقر میں رواں دواں ہے کہ اس سے (سرِمو) تجاوز نہیں کرتا اور سورج کی یہ گردش اس کے ملک میں غالب باخبر خدا کی مقرر کردہ ہے اور چاند کی بھی اس کی رفتار کے اعتبار سے ہم نے ہر ماہ میں اٹھائیس منزلیں اٹھائیس راتوں میں مقرر کردیں، اگر تیس مہینہ دن کا ہوتا ہے تو چاند (آخری) دو راتوں میں پوشیدہ ترہتا ہے، اور اگر مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے تو چاند ایک رات پوشیدہ رہتا ہے حتی کہ چاند اپنی آخری منزل میں دیکھنے والے کو کھجور کی پرانی شاخ کے مانند نظر آتا ہے اور قمر پر نصب اور رفع دونوں جائز ہیں، یہ فعل (محذوف) کی وجہ سے منصوب ہے، جس کی بعد والا فعل (قَدَّرْنا) تفسیر کررہا ہے، یعنی چاند (آخری راتوں میں) کھجور کی شاخ کے مانند ہوجاتا ہے جب کہ وہ پرانی ہو کر پتلی اور ٹیڑھی اور زرد ہوجائے اور نہ آفتاب کی مجال کہ چاند کو جا پکڑے چناچہ رات، دن ختم ہونے سے پہلے نہیں آتی اور ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں گردش کررہا ہے، کلٌّ کی تنوین مضاف الیہ کے عوض میں ہے جو کہ وہ سورج چاند اور تارے ہیں، شمس وقمر وغیرہ کو ذوی العقول وغیرہ کے درجہ میں اتار لیا گیا ہے، اور ان کے لئے ہماری قدرت کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کی ذریت یعنی انکے آباء و اجداد کو بھری ہوئی کشتی یعنی نوح کی کشتی میں سوار کیا اور ایک قراءت میں ذرِّیۃ کے بجائے ذرِّیَاتٌ ہے اور ہم نے ان کے لئے اس جیسی یعنی نوح کی کشتی جیسی چیزیں پیدا کیں، اور وہ چھوٹی بڑی کشتیاں ہیں، جن کو لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سکھانے سے نوح (علیہ السلام) کی کشتی جیسا بنالیا جن پر یہ لوگ سوار ہوتے ہیں، اور اگر ہم چاہیں تو ان کو کشتیوں کی ایجاد کے باوجود غرق کردیں پھر نہ تو ان کا کوئی فریادرس ہو اور نہ ان کو خلاصی دی جائے مگر یہ ہماری مہربانی ہے اور ان کو ایک وقت تک فائدہ دینا منظور ہے یعنی ان پر ہماری مہربانی اور ان کو لذت اندوزی کا موقع دینا ہی خلاصی (نجات) دے سکتا ہے اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ تم اس عذاب سے ڈرو جو دوسروں کے مانند، دنیا کا عذاب تمہارے سامنے ہے اور تمہارے پیچھے ہے یعنی آخرت کا عذاب تاکہ تم پر رحم کیا جائے تو انہوں نے اعراض کیا اور ان کے پاس ان کے رب کی جانب سے کوئی نشانی نہیں آتی مگر یہ کہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے تم کو جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرو یعنی فقراء صحابہ نے ان سے کہا تھا کہ خدا کے عطا کردہ اموال میں سے ہمارے اوپر خرچ کرو تو ان کافروں نے مومنوں سے بطور استہزاء کہا کیا ہم ایسے لوگوں کو کھانا کھلائیں اگر اللہ چاہتا تو خود ان کو کھلاتا جیسا کہ اے مومنو ! تمہارا اعتقاد ہے (اے مومنو ! ) اس (اعتقاد) کے باوجود تمہارا ہم سے کھانا طلب کرنا صریح غلطی ہے اور ان (کافروں) کے کفر کی صراحت کا یہ عظیم موقع ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم وعدۂ بعث میں سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدۂ کب پورا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ تو ایک چیخ کے منتظر ہیں اور وہ اسرافیل کا نفخۂ اولیٰ ہے اور وہ ان کو اس حالت میں آپکڑے گی کہ وہ باہم لڑجھگڑ رہے ہوں گے یَخِصِّمُوْنَ تشدید کے ساتھ، اس کی اصل یَخْتَصِمُوْنَ ہے تا کی حرکت خا کی طرف منتقل کردی گئی اور ت کو صاد میں مدغم کردیا گیا، اور وہ اس چیخ سے غافل ہوں گے باہم جھگڑے کی وجہ سے اور فروخت اور کھانے پینے وغیرہ میں مشغول ہونے کی وجہ سے، اور ایک قراءت میں یَخْصِمُوْنَ بروزن یَضْرِبُوْنَ ہے سو ان کو نہ تو وصیت کرنے کا موقع ملے گا اور نہ وہ اپنے اہل کی جانب اپنے بازاروں اور مشغلوں سے لوٹ سکیں گے بلکہ بازاروں اور مشغلوں ہی میں مرجائیں گے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : وَاٰیَۃٌ لھُم الْاَرْضُ المیتَۃُ اَحْیَیْنَاھَا، اٰیَۃٌ خبر مقدم ہے اور یہ تقدیم اہتمام کے لئے ہے، تنوین تعظیم کے لئے ہے ای وعلامۃٌ عظیمَۃٌ ودلاَلۃٌ واضِحۃٌ علی إحیاء بعد الموت۔ قولہ : لھُمْ ای اھل مکۃ . لھم اٰیۃٌ کے متعلق بھی ہوسکتا ہے، اسلئے کہ آیت بمعنی علامۃٌ ہے یا کائنۃٌ کے متعلق ہو کر اٰیۃ کی صفت ہے اَلْاَرْضُ المَیْتَۃُ بترکیب توصیفی مبتداء مؤخر ہے۔ قولہ : اَحْیَیْنَا ھَا بعض حضرات نے کہا کہ اَحْیَیْنَا ھَا علامت قدرت کی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے جملہ مستانفہ ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اَحْیَیْنَا جملہ ہو کر الارْضُ المیتَۃُ کی صفت ہو، مفسر علام کی عبارت سے اسی کی تائید ہوتی ہے، اس لئے کہ مبتداء کو اَحْیَیْنَا ھَا کے بعد ذکر کیا ہے، اگر مفسر علام کے نزدیک اَحْیَیْنَاھَا جملہ مستانفہ ہوتا تو مبتداء کو اَحْیینَاھا سے مقدم ذکر کرتے۔ قولہ : وجَعَلْنَا اس کا عطف اَحْیَیْنَاھَا پر ہے۔ قولہ : مِنْ نخیلٍ ، نخْلٌ اور نَخِیْلٌ دونوں کے ایک ہی معنی ہیں لیکن النخل اسم جمع ہے اس کا واحد نَخْلۃٌ ہے لفظ نخلۃ اہل حجاز کے نزدیک مؤنث ہے اور تمیم ونجد کے نزدیک مذکر ہے اور نخیل بالاتفاق مؤنث ہے (صاوی) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسر (رح) تعالیٰ کا بعد میں آنے والا مِنَ النخیل وغیرہ مناسب نہیں ہے، بلکہ بہتر وغیرھا ہے اس لئے کہ ہٖ ضمیر کا مرجع ماسبق میں مذکور نخیلٌ ہے جو کہ بالاتفاق مؤنث ہے۔ قولہ : ثمر المذکور منَ النخیل وغیرہٖ مفسر (رح) تعالیٰ کا مقصد اس عبارت کے اضافہ سے ایک اعتراض کا دفعیہ ہے، اعتراض یہ ہے کہ ثمرہ کی ضمیر نخیل اور اعناب کی طرف راجع ہے اول تو اعناب اور نخیل جمع ہیں جو کہ واحد مؤنث کے حکم میں ہیں، اس لحاظ سے من ثمرھا ہونا چاہیے اور اگر اعناب اور نخیل کو دونوع تسلیم کرلیا جائے تو پھر (ھما) ضمیر تثنیہ کی ہونی چاہیے، حالانکہ مفسرعلام نہ تو واحد مؤنث کی ضمیر لائے اور نہ تثنیہ کی، بلکہ واحد مذکر کی ضمیر لائے ہیں، جو بظاہر درست نہیں معلوم ہوتی، مذکورہ عبارت سے اسی اعتراض کا جواب دیا ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ نخیل واعناب کو مذکور کے معنی میں لیکر واحد مذکر کی ضمیر لانا درست ہے، یا ثمرہٖ ماءٌ کی طرف راجع ہے جو کہ مِنَ العُیُون سے مفہوم ہے، اس لئے کہ وجود پانی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (فتح القدیر شوکانی) سوال : الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ دونوں معرف باللام ہونے کی وجہ سے معرفہ ہیں، اور اَحْیَیْنَاھَا جملہ ہونے کی وجہ سے نکرہ کے حکم میں ہے، اس صورت میں اگر اَحْیَیْنَاھَا کو اَلْاَرْضُ المَیْتَۃُ کی صفت قرار دیا جائے تو معرفہ کی صفت کا نکرہ ہونا لازم آتا ہے، جو قاعدۂ مطابقت کے منافی ہے۔ جواب : الارض المیتۃُ پر الف لام جنس کے لئے ہے، اس لئے کہ کوئی معین ارض مراد نہیں ہے، لہٰذا مذکورہ الف لام معرفہ کا فائدہ نہیں دے گا، جس کی وجہ سے نکرہ کا صفت بننا درست ہے، اس کی نظیر شاعر کا یہ قول ہے۔ ؎ وَلَقَدْ اَمُرُّ عَلَی اللَّئِیْمِ یَسُبُّنِیْ فمَضَیْتُ ثمۃ قُلتُ لا یَعْنِیْنِیْ قولہ : اَخْرَجنا مِنْھَا حبًّا فمنہ یاکلون، حَبٌّ، حَبَّۃٌ کی جمع ہے اس غلہ کو کہتے ہیں جس کو پیسا جائے جیسے گندم جَو وغیرہ اور بَذرٌ اس غلہ کو کہتے ہیں جس سے تیل نکالا جائے، جیسے رائی، سرسوں وغیرہ۔ قولہ : فمنہُ ای من الحب۔ سوال : تقدیم صلہ سے حصر سمجھ میں آتا ہے، اصل میں اَخْرَجْنَا حَبًّا یاکلون منہ ہے، منہ کی تقدیم سے حصر مستفاد ہورہا ہے کہ اکل مذکورہ قسم کے غلوں میں منحصر ہے، حالانکہ یہ بد یہی البطلان ہے، اس لئے کہ مذکورہ دونوں قسم کے غلوں کے علاوہ بھی بہت سے غلے کھائے جاتے ہیں۔ جواب : تقدیم صلہ جنس ما کوئی کو حبوب میں منحصر کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اکثر ماکول کو حبوب میں حصر کرنے کے لئے ہے، اس لئے کہ حبوب ہی اکثریت سے کھائی جانے والی غذا ہے۔ قولہ : مِنَ العیون کی تفسیر بعضھا سے کرکے اشارہ کردیا کہ مِن تبعیضیہ ہے، بیانیہ بھی قرار دینا صحیح ہے۔ قولہ : وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیھم اس کا عطف مِن ثمرہ پر ہے ای لیا کُلُوا مِنْ ثمَرِہٖ ویَاکُلُوْا مِمَّا عَمِلَتْ ایدیھم کالعصیر والدبس ونحوھما یعنی کھجور اور انگور کے پھل کھائیں جو ان سے بناتے ہیں مثلاً عرق (جوس) شیرہ وغیرہ یہ ترجمہ اس صورت میں ہوگا جب کہ ما سے ما موصولہ مراد ہو، اور بعض حضرات نے ما کو نافیہ کہا ہے، یعنی تاکہ مذکورہ چیزوں کو کھاؤ جن کو تم نے پیدا نہیں کیا ہے، بلکہ اس کا پیدا کرنے والا خدا ہے، یعنی مذکورہ اشیاء کے پیدا کرنے میں تمہارے ہنر یا حکمت کا کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ تم تو اپنے پاس موجود کو بھی مٹی میں ملا کر بظاہر ضائع کردیتے ہو، یہ محض خدا کا فضل و کرم اور اس کی صفت وقدرت ہی ہے کہ جس دانہ کو تم نے گلنے سڑنے کے لئے مٹی میں دفن کردیا خدا نے اپنی قدرت و رحمت سے اس کی نہ صرف حفاظت فرمائی بلکہ اس کو اضعافاً مضا عدا دو گنا چوگنا کرکے تمہارے حوالہ کردیا مَا مصدر یہ بھی ہوسکتا ہے، ای لیا کلوا من عمل ایدیھم . قولہ : اَفَلاَ یَشکُرُوْنَ ہمزہ محذوف پر داخل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے أیَنْتَفِعُوْنَ بھٰذہ النعم فَلاَ یشکرونَھَا۔ قولہ : سُبحانَ الَّذِیْ ، سبحان مصدر بمعنی تسبیح ہے اس پر نصب نیز مفرد کیجانب اضافت لازم ہے مفرد خواہ اسم ظاہر ہو جیسے سُبحَانَ اللہ اور سبحانَ الَّذی یا اسم ضمیر ہو جیسے سبحانَہٗ أن یکونَ لہٗ ، سُبحانَ الَّذِی خلَقَ الازْوَاج کُلَّھَا جملہ مستانفہ ہے ترک شکر پر تنزیہہ کو بیان کرنے کیلئے لایا گیا ہے (روح المعانی) بعض حضرات نے کہا ہے کہ دونوں آیتیں یعنی اٰیۃٌ لھم الارض المیتۃُ الآیۃٌ لھمْ الَّیْلُ نسلخُ کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔ قولہ : اٰیَۃٌ لَّھُمُ الَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّھَارَ ، اٰیۃٌ خبر مقدم ہے، اور اللیلُ مبتداء مؤخر ہے، کما سَبَقَ اور نَسْلَخُ ، لیلٌ کے آیات قدرت میں سے ہونے کی کیفیت کا بیان ہے۔ قولہ : نَسْلَخُ مضارع جمع متکلم (ن، ف) سَلْخًا کھال اتارنا، مطلقاً کسی چیز کو اتارنا، زائل کرنا، یعنی ہم دن کو رات کے اوپر سے اتارلیتے ہیں، فَاِذَا ھُمْ مُظْلِمُونَ تو وہ تاریکی میں رہ جاتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ کائنات میں ظلمت اصل ہے اور نہار (روشنی) طاری ہے، جس طرح جانور کے اوپر کھال اتارنے کے بعد گوشت ظاہر ہوجاتا ہے، اسی طرح دن کو رات کے اوپر سے اتارنے کے بعد رات باقی وہ جاتی ہے، مفسر (رح) تعالیٰ نے نَسْلَخُ کی تفسیر نَفْصِلُ سے کرکے اشارہ کردیا کہ نَسْلَخُ نکشِفُ کے معنی میں نہیں ہے ورنہ تو فاِذا ھُمْ مظلِمونَ کے بجائے فاِذَاھُم مبصرون ہونا چاہیے، اس لئے کہ آیۃ کے معنی یہ ہوں گے و آیتہ اللیلُ نکشفُ ونظھرُ منہُ النھارَ نفصل (منہُ ) میں من بمعنی عن ہے، اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ لیل، نہار سے مقدم ہے، اس لئے کہ مسلوخ منہ مسلوخ سے مقدم کرتا ہے۔ (جمل) قولہ : مُظلِمُونَ. اَظْلَمَ القَوْمُ سے ماخوذ ہے ای دَخَلُوْا فی الظلام۔ قولہ : من جملۃ الآیۃ اس کا عطف الْاَرْضُ مبتداء پر ہے یعنی عطف مفرد علی المفرد ہے۔ قولہ : اَوْ اٰیۃٌ اُخریٰ یہ دوسری ترکیب کی طرف اشارہ ہے یعنی الشمس مبتداء ہے اور تجری اس کی خبر ہے، اس صورت میں عطف علی الجملہ ہوگا۔ قولہ : والقمرُ کذٰلِکَ یعنی قمر من جملہ آیات کے ایک آیۃ ہے یا دوسری مستقل آیۃ ہے، یہ ترکیب صرف اس صورت میں ہوگی جب کہ القمر مرفوع پڑھا جائے، اور اگر القمر کو منصوب پڑھیں تو فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہوگا اور اس صورت میں مااضمر عاملہ کے قبیل سے ہوگا، تقدیر عبارت یہ ہوگی قَدَّرْنَا الْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ اور اگر مرفوع پڑھیں تو سابق مبتداء یعنی الارض المیتۃ یا اللیل پر وطف ہوگا اور تقدیر عبارت اٰیۃٌ لھُمُ القمرُ ہوگی، یا القمرُ خود مبتداء ہو اور خبر قدَّرنَاہُ ہو۔ قولہ : المَنَازِلَ اس میں تین ترکیبیں ہوسکتی ہیں (1) قَدَّرْنِا کا مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے منصوب ہوسکتا ہے، اس صورت میں قَدَّرْنَا بمعنی صَیَّرنا ہوگا (2) قَدَّرْنَاہ کی ضمیر سے حال ہو، اس صورت میں منازل کے پہلے مضاف محذوف ماننا لازم ہوگا، اس لئے کہ خود قمر منازل نہیں ہے بلکہ ذومنازل ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی قَدَّرناہُذومنازلَ (3) یہ کہ مَنَازِلَ ظرف ہو، ای قدَّرنا سَیْرہٗ فی مَنازِلَ علامہ جلال الدین محلی نے اپنے قول مِنْ حیثُ سیرہٖ سے اسی ترکیب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (جمل) قولہ : العُرْجُوْنَ بروزن فُعْلُوْنَ شاخ خرما، جو خرما کانٹے کے بعد کھجور پر خشک ہو کر زرد، پتلی اور مثل ہلال ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔ قولہ : شَمَاریخَ یہ شَمْروخٌ کی جمع ہے، یہ عُرْجون ہی کی تشریح ہے اس میں تشبیہ مرکب ہے، اس لئے کہ ہلال کو عرجون کے ساتھ تین اوصاف میں تشبیہ دی گئی ہے دِقَّتْ ، تَقَوُّس اور اصفرار۔ قولہ : نُزِّلُوا مَنْزِلَۃََ العُقلاءِ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : کُلٌّ یا عموم پر دلالت کرنے کی وجہ سے یا تنوین کے مضاف الیہ کے عوض میں ہونے کی وجہ سے مبتداء ہے ای کُلُّ اَحَدٍ من الشمس والقمر والنجوم فی فلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ ، یَسْبَحُوْنَ مبتداء کی خبر ہے، مبتداء غیر ذوی العقول ہے اور اس کی خبر یسْبَحُوْنَ واؤ نون کے ساتھ لائی گئ ہے، جو کہ ذوی العقول کے ساتھ خاص ہے، لہٰذا یَسْبَحُوْنَ واؤ نون کے ساتھ معلوم نہیں ہوتا۔ جواب : یَسْبَحُوْنَ سَبحٌ سے مشتق ہے جس کے معنی تیرنے کے ہیں اور یہ ذوی العقول کی صفت ہے، چونکہ غیر ذوی العقول کی طرف ذوی العقول کے فعل کی نسبت کی گئی ہے، اس لئے غیر ذوی العقول کو ذوی العقول کے درجہ میں اتار لیا گیا جس کی وجہ سے یَسْبَحُوْنَ کو خبر لانا درست ہوگیا۔ قولہ : اٰیۃ لَّھُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَھُمْ ، اٰیَۃٌ لَّھُمْ خبر مقدم ہے اور اَنَّا حَمَلْنَا مصدر کی تاویل میں ہو کر مبتداء مؤخر ہے، ایْ حَمْلُنَا ذُرِّیَّتَھُمْ الفُلْکِ اٰیَۃٌ دَالَّۃٌ عَلیٰ بَاھِرِ قُدْرَتِنَا۔ قولہ : ای اٰبائَھُمْ الاصول اس عبارت سے اشارہ کردیا کہ ذُرِّیَّۃٌ لا اطلاق جس طرح فروع پر ہوتا ہے اصول پر بھی ہوتا ہے اس لئے کہ یہ ذَرَّۃ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی خلق کے ہیں اور فروع اصول سے مخلوق ہیں لہٰذا اب وہ اعتراض ختم ہوگیا کہ نوح (علیہ السلام) کی کشتی میں سوار ہونے والے اصول اہل مکہ تھے نہ کہ فروع، اور بعض حضرات نے مذکورہ اعتراض کا یہ جواب بھی دیا ہے، کہ فی الفلکِ میں الف لام جنس کا ہے جس سے جنس کشتی مراد ہے نہ کہ خاص کشتی نوح، اس لئے کہ اس آیت کا مقصد اہل مکہ پر احسان جتانا ہے اور ظاہر ہے مطلق کشتی مراد لینے میں امتنان بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں شامل ہیں۔ (لغات القرآن للدرویش) قولہ : کغَیرِ کُمْ ای کالمؤمنین۔ قولہ : اَعْرضُوا اس اضافہ سے اشارہ کردیا کہ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ کا جواب شرط اَعْرَضُوْا محذوف ہے۔ قولہ : وَخَلَقْنَا لَھُمْ مِنْ مِّثْلِہٖ یہ دوسرا امتنان ہے جو پہلے امتنان پر مرتب ہے، اٰیۃ کے معنی یہ ہیں جَعَلْنَا سفینَۃَ نوحٍ اٰیۃً عظیمۃً علیٰ قُدْرَتِنَا و نِعٌمَۃً للخلق و عَلَّمْنّا ھم صَنْعَۃََ السَّفِینَۃِ فعمِلُوا سُفُنًاکبارًا وصغَارًا لِینْتَفِعُوْا بِھَا۔ قولہ : وَخَلَقْنَا لَھُم مِنْ مِّثْلہٖ مایرکبونَ. من، مثلہٖ مامفعول مؤخر سے حال ہے اور مثلہٖ کی ضمیر فُلْکٌ کی طرف راجع ہے۔ قولہ : فی معتقد کم ھٰذا اے مومنو تمہارے اس اعتقاد کے باوجود کہ اللہ ہی رازق ہے وہی سب کو کھلاتا پلاتا ہے تو پھر ہم سے کیوں کھانا وغیرہ طلب کرتے ہو ؟ اس صورت میں الذین کفروا میں کافر سے مراد خدا کے وجود کا منکر (دہریہ) ہوگا اور اگر مطلب یہ ہو کہ جس کی روزی خدا نے بند کردی ہو اور خدا ہی ان کو کھلانا نہ چاہتا ہو تو ہم اس کی مرضی اور مشیئت کے خلاف کھانا کھلانے والے کون ہوتے ہیں ؟ اس صورت میں الذین کفروا میں کافر سے مراد مشرک ہے جو کہ خدا کے وجود کا قائل ہے مگر اس کے ساتھ شریک کرتا ہے، اس دوسرے مطلب کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ مسلم مساکین کو بکثرت کھانا کھلایا کرتے تھے، ایک روز ابوجہل کی حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ملاقات ہوگئی، تو کہنے لگا اے ابوبکر کیا تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کھلانے پر قادر ہے ؟ صدیق اکبر ؓ نے فرمایا ہاں ! تو پھر کیا وجہ ہے وہ ان کو نہیں کھلاتا ؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواب دیا، اللہ تعالیٰ بعض کو فقر کے ذریعہ اور بعض کو غنا کے ذریعہ آزماتا ہے، اور فقراء کو روزہ کا اور اغنیاء کو سخاوت کا حکم دیا ہے، تو ابو جہل کہنے لگا (واللہ یا ابابکر اَن انت الافی ضلال) اے ابوبکر تم تو غلط فہمی کا شکار ہو، کہ تم یہ سمجھتے ہو وہ انکو کھلانے پر قادر ہونے کے باوجود نہیں کھلانا چاہتا مگر تم کھلانا چاہتے ہو ! ! (صاوی) قولہ : موقع عظیمٌ قائلین کے کفر کی صراحت کرنے میں کفار کی تبکیت وتقیبح کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ کفار کی دو قسموں کی طرف اشارہ ہوگیا ایک وہ جو سرے سے خدا کے وجود کا منکر ہو یہاں کافر سے یہی قسم مراد ہے اور دوسرے وہ جو خدا کے وجود کا تو منکر نہ ہو مگر اس کا شریک ٹھہراتا ہو، ماسبق میں اللہ تعالیٰ کے قول اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَھُمْ مِنَ القُرُوْنِ (الآیۃ) میں دوسری قسم کے کفار مراد ہیں۔ (صاوی و جمل) قولہ : ویَقُوْلُوْنَ متیٰ ھٰذا الوعد یہ قول کفار کی قسم ثانی یعنی مشرکین کی طرف راجع ہے۔ قولہ : واُدغمت فی الصاد یعنی تا کو صاد سے بدلنے کے بعد صاد میں ادغام کردیا گیا۔ (واللہ اعلم بالصواب) تفسیر وتشریح سورة یٰسین میں زیادہ تر مضامین آیات قدرت اور اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات بیان کرکے آخرت پر استدلال اور حشر ونشر کے عقیدے کو پختہ کرنے سے متعلق ہیں، مذکورۃ الصدر آیات میں قدرت الہٰیہ کی ایسی ہی نشانیاں بیان فرمائی ہیں جو ایک طرف اس کی قدرت کاملہ کے دلائل واضحہ ہیں، تو دوسری طرف انسانوں اور عام مخلوقات پر حق تعالیٰ کے خاص انعامات و احسانات اور ان میں عجیب و غریب حکمتوں کا اثبات ہے۔ مشرکین اور بعث بعد الموت کا عقیدہ : بعث بعد الموت کا عقیدہ نہ صرف یہ کہ ان کے مشاہدے اور تجربے کے منافی تھا، بلکہ وہ اس عقیدے کو عقل کے بھی خلاف سمجھتے تھے، یہ بات کسی طرح ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی، ان کا کہنا تھا کہ انسان کے مرنے اور جسم کے گل سڑ کر ریزہ ریزہ ہوجانے کے بعد عقل اس کو باور نہیں کرتی کہ ان ذرات کو دربارہ جمع کرکے ایک مکمل انسان بنا کر کھڑا کردیا جائے گا، اور بظاہر ان کا مشاہدہ بھی اس بات کی تائید کرتا تھا اس لئے کہ ہزار ہا سال گذرنے کے بعد بھی مردوں میں سے کوئی شخص زندہ ہو کر دنیا میں نہیں آیا تھا۔ مذکورۃ الصدر آیات میں عقلی دلائل اور مشاہداتی مثالوں سے نہ صرف یہ کہ ان کے شک وتردد کو رفع کرنے کی کوشش کی گئ ہے، بلکہ یہ ثابت کیا گیا کہ بعث بعد الموت نہ صرف یہ کہ عقلی طور پر ممکن بلکہ کائناتی مثالوں سے ثابت اور واقع ہوتی ہے، ان ہی مشاہداتی ثالوں میں ایک مثال مردہ زمین کو زندہ کرنا ہے، جس کو واٰیۃ لھُمُ الْاَرْضُ المیتَۃُ (الآیۃ) سے بیان فرمایا ہے، بعث بعد الموت کے اثبات کے لئے یہ ایسی واضح اور کھلی ہوئی دلیل ہے کہ ہر انسان پر وقت اپنی نظروں سے دیکھتا ہے، اس مثال کو سمجھنے کے لئے نہ بہت زیادہ علم و دانش کی ضرورت اور نہ عقل و فلسفہ کی، ایک معمولی سمجھ رکھنے والا شخص بھی معمولی توجہ سے سمجھ سکتا ہے، موسم گرما میں زمین پر جبکہ چہار سو خاک اڑتی نظر آتی ہے کہیں ہریالی کا نام ونشان نہیں ہوتا ہے، آسمان سے بارش برستی ہے تو مردہ زمین میں ایک قسم کی زندگی پیدا ہوجاتی ہے، جس کے آثار اس میں پیدا ہونے والی نباتات اور اشجار اور ان کے ثمرات سے ظاہر ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مردہ زمین کو زندہ کرکے ہم اس سے ان کی بقائے حیات کے لئے صرف غلہ ہی نہیں اگاتے، بلکہ ان کے کام و دہن کی لذت کے لئے انواع و اقسام کے پھل بھی کثرت سے پیدا کرتے ہیں، یہاں صرف دو پھلوں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ کثیر المنافع ہونے کے ساتھ ساتھ عربوں کے لئے مرغوب تھے، نیز ان کی پیداوار بھی عرب میں زیادہ ہوتی ہے۔ وما۔۔ ایدیھم جمہور مفسرین نے آیت میں ما کو نفی کے لئے قرار دے کر یہ ترجمہ کیا ہے، کہ ان پھلوں کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا، اس جملہ کا مقصد غافل انسان کو اس پر متبہ کرنا ہے کہ ذرا تو اپنے کام اور محنت میں غور کر، تیرا کام اس باغ و بہار میں اس کے سوا کیا ہے ؟ کہ تو نے زمین کو نرم کرکے بیج کو اس میں ڈال دیا، مگر اس بیج سے درخت اگانا، اور فرض پر برگ وبار لانا، ان سب کاموں میں تیرا کیا دخل ہے ؟ یہ تو خالص قادر مطلق حکیم ودانا ہی کا فعل ہے، اس لئے تیرا فرض ہے کہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے وقت اس کے خالق ومالک کو فراموش نہ کرے، اسی مذکورہ صورت حال کی سورة واقعہ کی آیت اَفَرَأَیْتمْ تِحْرُثُوْنَ ءَ اَنْتُمْ تَزْرَ عُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ یعنی دیکھو تو جو چیز تم بولتے ہو اس کو نشو و نما دیکر تم نے بنایا ہے یا ہم نے ؟ مطلب یہ ہے کہ ان غلوں اور پھلوں کی پیداوار میں بندوں کی سعی و محنت، کدوکاوش اور تصرف کا کوئی دخل نہیں ہے، یہ پیداوار محض اللہ کا فضل و کرم ہے پھر انسان ان نعمتوں پر اس کا شکر کیوں ادا نہیں کرتے ؟ ابن جریر وغیرہ بعض مفسرین نے وَمَا عَمِلَتْہُ میں لفظ ما کو اسم موصول الذی کے معنی میں قرار دیکر یہ ترجمہ کیا ہے کہ سب چیزیں اس لئے پیدا کی گئی ہیں کہ لوگ ان کے پھل کھائیں اور ان چیزوں کو بھی کھائیں جن کو انسان ان نباتات اور پھلوں سے خود اپنے ہاتھوں کے کسب و عمل سے تیار کرتا ہے، مثلاً پھلوں سے محتلف حلوے، اچار چٹنی تیار کرتا ہے اور بعض پھلوں اور دانوں سے تیل نکالتا ہے جو انسان کے کسب و عمل کا نتیجہ ہے بغیر انسانی عمل دخل کے خدا کا اپنی قدرت سے پھلوں کو پیدا کرنا، اور انسان کو اس بات کا سلیقہ سکھانا کہ ایک پھل کو دوسری چیزوں سے مرکب کرکے طرح طرح کی خوش ذائقہ اشیاء خوردنی تیار کرے، یہ دوسری نعمت ہے، اس تفسیر کی تائید حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت سے بھی ہوتی ہے، کیونکہ ان کی قراءت میں لفظ ما کے بجائے مِمَّا آیا ہے، یعنی مِمَّا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ دنیا کے تمام حیوانات نباتات اور پھل کھاتے ہیں اور بعض حیوانات گوشت بھی کھاتے ہیں، کچھ مٹی کھاتے ہیں، لیکن ان سب جانوروں کی خوارک مفردات ہی سے ہے، گھاس کھانے والا گھاس، گوشت کھانے والا گوشت کھاتا ہے، ان چیزوں کو دیکر اشیاء کے ساتھ مرکب کرکے قسم قسم کے کھانے تیار نہیں کرتا، یہ سلیقہ اور طریقہ صرف انسان ہی کو آتا ہے، آپ نے کبھی نہ دیکھا ہوگا، آپ نے کبھی نہ دیکھا ہوگا، کہ کسی حیوان نے پھلوں کو نچوڑ کر رس نکالا ہو یا مختلف پھل فروٹوں کو ملا کر چاٹ بنائی ہو، یہ سمجھ اور عقل اللہ تعالیٰ نے صرف انسان ہی کو عطا فرمائی ہے، پھر نہ معلوم انسان اللہ کی تعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا ؟ سبحٰن۔۔ کلھا (الآیۃ) یعنی انسانوں اور حیوانوں کی طرح ہم نے ہر مخلوق میں جوڑے یعنی نرومادہ کا نظام رکھا ہے، علاوہ ازیں زمین کی گہرائیوں میں بھی جو چیزیں تمہاری نظروں سے غائب ہیں، جن کا علم تم نہیں رکھتے، ان میں بھی زوجیت (نرومادہ) کا یہ نظام ہم نے رکھا ہے، غرضیکہ ہم نے ہر چیز کو جوڑے سے پیدا کیا ہے، حتی کہ دنیا و آخرت بھی زوج ہے، اور یہ حیات آخرت کی عقلی دلیل بھی ہے، صرف ایک اللہ کی ذات ہے جو مخلوق کی اس صفت زوجیت سے اور دیگر تمام نقائص سے پاک ہے وہ وتر (فرد) ہے، زوج نہیں ہے اس لئے کہ وہ مخلوق نہیں ہے۔ واٰیۃ۔۔۔ النھار (الآیۃ) زمینی مخلوقات میں قدرت خداوندی کی نشانیاں بیان کرنے کے بعد آسمانی اور آفاقی مخلوقات میں قدرت خدا وندی کا بیان ہے، سلخ کے لفظی معنی کھال اتارنے کے ہیں، کسی چیز کے چھلکے اتارنے کو بھی مجازاً سلخ کہہ سکتے ہیں جب جانور کی کھال اتاردی جاتی ہے تو اندر کا گوشت نظر آنے لگتا ہے، اسی طرح غلاف اور چھلکا اتار دیا جائے تو اندر کی چیز ظاہر ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مثال سے اشارہ دیدیا کہ اس جہان میں اصل ظلمت ہے اور روشنی عارضی اور طاری ہے جو تاروں اور سیاروں کے ذریعہ زمین تک پہنچتی ہے، اگر روشنی کو ظلمت کے اوپر سے اتارلیا جائے تو اصل یعنی ظلمت باقی رہ جاتی ہے، اسی کو عرف میں رات کہتے ہیں۔ (معارف) والشمس۔۔۔ العلیم آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آفتاب اپنے مستقر کی طرف چلتا رہتا ہے، مستقرَّ یہ ظرف کا صیغہ ہے، جائے قرار کو بھی کہتے ہیں، اور وقت قرار کو بھی، اور لفظ مستقر منتہائے سیروسفر کے معنی میں بھی آتا ہے، بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ مستقر سے مستقر زمانی مراد لیا ہے، یعنی وہ وقت جب کہ آفتاب اپنی حرکت مقررہ پوری کرکے ختم کردے گا، اور وہ قیامت کا دن ہے اس تفسیر کے مطابق آیت کے معنی یہ ہیں کہ آفتاب اپنے مدار پر ایسے محکم اور مضبوط نظام کیساتھ حرکت کررہا ہے جس میں کبھی ایک سکینڈ کا فرق نہیں آتا، ہزارہا سال اس روش پر گذرچکے ہیں، مگر یہ حرکت دائمی نہیں، اسکا ایک خاص مستقر ہے جہاں پہنچ کر نظام شمسی کی یہ حرکت ختم ہوجائے گی اور وہ قیامت کا دن ہے، یہ تفسیر حضرت قتادہ سے منقول ہے۔ (ابن کثیر، معارف) سورۂزمر کی ایک آیت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ مستقر سے مراد مستقر زمانی یعنی قیامت کا دن ہے، آیت یہ ہے خَلَقَ السَّمٰواتِ وَالَاَرْضَ بِالحَقِّ یُکَوِّرُ اللَّیْلَ علَی النَّھَارِ وَیّکَوِّرُ النَّھَارَ عَلَی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِیْ لَاِجَلٍ مُّسَمًّی اس آیت میں بھی تقریباً وہی بیان ہے جو سورة یٰسین کی مذکورہ آیت میں ہے، اس آیت میں فرمایا کہ شمس وقمر دونوں اللہ کے حکم کے مسخر اور تابع ہیں، ان میں سے ہر ایک، ایک خاص میعاد تک کے لئے چل رہا ہے، یہاں اَجَلٌ مُّسَمّٰی کے الفاظ ہیں، جس کے معنی میعاد معین کے ہیں، اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ شمس وقمر دونوں کی حرکت دائمی نہیں، ایک میعاد معین یعنی روز قیامت پر پہنچ کر ختم اور منقطع ہوجائے گی، سورة یٰسین کی آیت مذکورہ میں بھی ظاہر یہی ہے کہ لفظ مستقر سے یہی میعاد معین یعنی مستقر زمانی مراد ہے، اس تفسیر کی رو سے نہ آیت کے مفہوم و مراد میں کوئی اشکال ہے، نہ قواعد ہئیت وریاضی کا اس پر کوئی اعتراض۔ (معارف) اور بعض حضرات مفسرین نے اس سے مراد مستقر مکانی لیا ہے، جس کی بناء ایک حدیث صحیح ہے حدیث میں ہے کہ حضرت ابوزر ؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا، جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا سورج جا کر عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے، اس کے بعد دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے جب اجازت مل جاتی ہے تو طلوع ہوتا ہے، ایک وقت آئے گا کہ اس سے کہا جائے گا، واپس لوٹ جا، یعنی جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جا۔ (صحیح بخاری، بدأالخلق، باب صفت الشمس والقمر بحسبان، مسلم کتاب الایمان بابٍ بیان الزمن الذی لا یقبل فیہ الایمان) آفتاب کے زیر عرش سجدہ کرنے کی تحقیق : مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مستقر سے مراد، مکانی مستقر ہے یعنی وہ جگہ کہ جہاں آفتاب کی حرکت کا ایک دور پورا ہوجائے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ جگہ عرش کے نیچے ہے، اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ آفتاب ہر روز ایک مستقر مکانی کی جانب چلتا ہے، پھر وہاں اللہ کے سامنے سجدہ کرکے اگلے دورے کی اجازت طلب کرتا ہے، اجازت ملنے پر دوسرا دور شروع کرتا ہے۔ لیکن واقعات ومشاہدات اور ہئیت و فلکیات کے بیان کردہ اصولوں کے بناء پر اس میں متعدد قوی اشکالات ہیں۔ پہلا اشکال : یہ کہ عرش رحمٰن کی جو کیفیت قرآن و سنت سے سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ تمام زمینوں کے اوپر محیط ہے، زمین اور آسمان مع سیارات ونجوم سب کے سب عرش کے نیچے محصور ہیں، اور عرش رحمٰن ان تمام کائنات سماویہ وارضیہ کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے، اس لحاظ سے آفتاب تو ہمیشہ اور ہرحال میں زیر عرش رہتا ہی ہے، پھر غروب کے بعد زیر عرش جانے کا کیا مطلب ہوگا ؟ دوسرا اشکال : یہ عام مشاہدہ ہے کہ آفتاب جب کسی جگہ غروب ہوتا ہے تو اسی آن دوسری جگہ طلوع ہوتا ہے اس، طرح کہ آفتاب کا طلوع و غروب ہمہ وقت ہوتا رہتا ہے، اس لحاظ سے تو ہر وقت آفتاب سجدہ ریز رہتا ہے، پھر غروب کے بعد زیر عرش سجدہ ریز ہونے کا کیا مطلب ؟ تیسرا اشکال : اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب اپنے مستقر پر پہنچ کر وقفہ کرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرکے اگلے دورے کی اجازت لیتا ہے، حالانکہ آفتاب کی حرکت میں کسی وقت بھی انقطاع نہ ہونا کھلا ہوا مشاہدہ ہے، اور پھر چونکہ طلوع و غروب مختلف مقامات کے اعتبار سے ہر وقت ہی ہوتا رہتا ہے، تو یہ وقفہ اور سکون بھی ہر وقت ہونا چاہیے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ آفتاب کسی وقت بھی حرکت میں نہ ہو، نیز اگر حالت وقفہ میں بھی حرکت میں ہو تو یہ اجتماع ضدین ہے اس لئے کہ سکون اور حرکت آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور اجتماع ضدین محال ہے۔ یہ اشکالات صرف فنون ریاضی اور فلکیات ہی کے نہیں ہیں، بلکہ مشاہداتی اور واقعاتی بھی ہیں، جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ طلوع و غروب سے متعلق فیثا غورثی نظریہ : حالیہ خلائی سفر اور چاند تک انسان کی رسائی کے واقعات نے اتنی بات تو یقینی کر ہی دی ہے کہ تمام سیارات آسمان سے نیچے کی فضا میں ہیں، آسمان کے اندر مرکوز نہیں ہیں، قرآن کریم کی آیت کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ سے بھی اسی نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے، اس نظریۂ فیثا غورثی میں یہ بھی ہے کہ روزانہ کا طلوع و غروب آفتاب کی گردش سے نہیں بلکہ زمین کی گردش سے ہے، اس نظریہ کے اعتبار سے حدیث مذکور پر ایک اعتراض کا اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کا جواب سمجھنے سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جہاں تک مذکورہ آیت پر اشکالات کا سوال ہے تو اس پر مذکورہ اشکالات میں سے کوئی بھی اشکال نہیں ہوتا، آیت کا مفہوم تو صرف اتنا ہے کہ آفتاب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی منظم اور مستحکم حرکت کا پابند بنادیا ہے کہ وہ اپنے مستقر کی طرف برابر ایک حالت پر چلتا رہتا ہے، اگر اس مستقر سے تفسیر قتادہ کے مطابق مستقر زمانی لیا جائے یعنی روز قیامت تو معنی یہ ہیں کہ آفتاب کی یہ گردش دائمی ہے اور ایک ہی حالت پر ہوتی رہے گی، آخر کار قیامت کے دن ختم ہوجائیگی، اور اگر مستقر مکانی لیا جائے تو بھی اس کا مستقر مدارشمسی کے اس نقطہ کو کہا جاسکتا ہے جہاں سے اول تخلیق کے وقت آفتاب نے گردش شروع کی اسی نقطہ پر پہنچ کر اسکا شبا نہ روز کا ایک دورہ مکمل ہوتا ہے، کیونکہ یہی نقطہ اس کا منتہائے سفر ہے اس پر پہنچ کر نئے دورے کی ابتداء ہوتی ہے۔ ماقبل میں جیتنے اشکالات ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے آیت مذکورہ کے بیان پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا البتہ حدیث مذکورہ پر جس میں یہ آیا ہے کہ آفتاب غروب کے وقت زیر عرش پہنچ کر سجدہ کرتا ہے اور اگلے دورے کی اجازت طلب کرتا ہے، یہ اشکالات وارد ہوتے ہیں اور اس آیت کے ذیل میں یہ بحث اسی طرح چھڑی کہ حدیث کے بعض الفاظ میں اس آیت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، ان اشکالات کے جوابات محدثین و مفسرین نے مختلف دیئے ہیں، مگر ان سب میں سب سے زیادہ صاف اور بےغبار بات وہ ہے جو علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی (رح) تعالیٰ نے اپنے مقالے ” سجود الشّمس “ میں اختیار فرمائی ہے، اور متعدد ائمہ تفسیر کے کلام سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اصل بات : اصل بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے چند مظاہر ذکر کرکے انسان کو توحید اور اپنی قدرت کاملہ پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے، اس میں سب سے پہلے زمین کا ذکر کیا جو ہر وقت ہمارے سامنے ہے وَآیَۃ لَّھُمُ الْاَرْضُ المَیْتَۃُ پھر اس پر پانی برسا کر درخت اور نباتات اگانے کا ذکر ہے، جس کو ہر انسان دیکھتا اور جانتا ہے اَحیَیْنَا ھَا (الآیۃ) اس کے بعد آسمان اور فضائے آسمانی سے متعلق چیزوں کا ذکر شروع کرکے پہلے لیل ونہار کے روزانہ انقلاب کا ذکر فرمایا وَآیَۃٌ لَّھُمُ اللَّیلُ (الآیۃ) اس کے بعد شمس و قمر جو سیارات اور نجوم میں سب سے بڑے ہیں، ان کا ذکر فرمایا، ان میں پہلے آفتاب کے متعلق فرمایا وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّھَا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ اس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصد یہ بتلانا ہے کہ آفتاب اپنے ارادے اور اپنی قدرت سے گردش نہیں کررہا، بلکہ یہ ایک عزیز وعلیم کے مقرر کردہ نظم کے تابع گردش کررہا ہے، آنحضرت ﷺ نے غروب آفتاب کے قریب حضرت ابوذر غفاری ؓ کو ایک سوال و جواب کے ذریعہ اسی حقیقت پر متنبہ ہونے کی ہدایت فرمائی جس میں بتلایا کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد عرش کے نیچے اللہ کو سجدہ کرتا ہے، اور پھر اگلا دورہ شروع کرنے کی اجازت طلب کرتا ہے، جب اجازت مل جاتی ہے تو حسب دستور آگے چلتا ہے اور صبح کے وقت مشرق کی جانب سے طلوع ہوتا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کے آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت عالم دنیا میں ایک نیا انقلاب آتا ہے، جس کا مدار آفتاب پر ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس القلابی وقت کو انسانی تنبیہ کے لئے موزوں سمجھ کر یہ تنبیہ فرمائی کہ آفتاب کو خودمختار، اپنی قدرت سے حرکت و گردش کرنے والا نہ سمجھو۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیئت کے تابع چل رہا ہے، اس کا ہر طلوع و غروب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے یہ اس کی اجازت کا تابع ہے اس کی اجازت اور تابع فرمان حرکت کرنے ہی کو سجدہ قرار دیا گیا، کیونکہ ہر چیز کا سجدہ اس کے مناسب حال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن نے خود تصریح فرمائی ہے کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلوٰتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ یعنی ساری مخلوق اللہ کی تسبیح اور عبادت میں مشغول ہے، مگر ہر ایک کی عبادت اور تسبیح کا طریقہ الگ الگ ہے، اور ہر مخلوق کو اس کی عبادت اور تسبیح کا طریقہ سکھلادیا جاتا ہے، مثلاً انسان کو اس کی تسبیح کا طریقہ سکھلا دیا گیا ہے، اس لئے آفتاب کے سجدے کے یہ معنی سمجھنا کہ انسان کے سجدہ کی طرح زمین پر ماتھا ٹیکنے ہی سے ہوگا صحیح نہیں۔ قرآن و سنت کی تصریحات کے مطابق عرش خداوندی تمام آسمانوں، سیاروں، زمینوں پر محیط ہے، تو یہ بات ظاہر ہے کہ آفتاب ہر وقت اور ہر جگہ زیر عرش ہی ہے اور جبکہ تجربہ شاہد ہے کہ آفتاب جس وقت ایک جگہ غروب ہورہا ہوتا ہے، اسی وقت دوسری جگہ طلوع ہورہا ہوتا ہے، اس لئے اس کا کوئی لمحہ طلوع و غروب سے خالی نہیں، تو آفتاب کا زیر عرش رہنا بھی دائمی اور ہرحال میں ہے اور غروب ہونا بھی ہرحال میں ہے، اسی دائمی زیر عرش اور تابع فرمان ہونے کو سجدہ کرنے سے تعبیر کردیا گیا ہے، گویا کہ ایک معنوی مفہوم مثال کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے، اور یہ سلسلہ روز قیامت تک جاری رہے گا، جب قیامت قریب آئے گی تو علامات قرب قیامت کے طور پر آفتاب کو واپس لوٹا دیا جائے گا، جس کی وجہ سے آفتاب مغرب کی جانب سے طلوع ہوگا، اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، اس کے بعد کسی کا ایمان اور توبہ قبول نہیں ہوگی، اس لئے کہ یہ ایمان بالغیب نہیں رہا آفتاب کے روزانہ زیر عرش جا کر سجدہ کرنے اور آئندہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرنے کا حدیث میں جو ذکر ہے یہ حکم خدا وندی کے امتثال کی ایک تمثیل ہے جس کو مجازاً سجدے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ والقمر۔۔۔ القدیم، عرجونَ کھجور کی خشک شاخ کو کہا جاتا ہے، جو مڑ کر کمان جیسی ہوجاتی ہے، قَدَّرَ تقدیر سے بنا ہے، تقدیر کے معنی کسی چیز کو زمان یا مکان یا صفات کے اعتبار سے ایک مخصوص مقدار اور پیمانہ پر رکھنے کے ہیں، لفظ مَنَازِلَ منزل کی جمع ہے جس کے معنی جائے نزول کے ہیں اللہ تعالیٰ نے شمس وقمر دونوں کی رفتار کے لئے خاص حدود مقرر فرمائی ہیں، جن میں سے ہر ایک کو منزل کہا جاتا ہے چاند چونکہ اپنا دورہ ہر مہینہ میں پورا کرلیتا ہے اس لئے اس کی منزلیں تیس ہوتی ہیں، مگر چونکہ چاند ہر مہینہ میں کم از کم ایک رات اور زیادہ سے زیادہ دو راتیں غائب رہتا ہے، اس لئے عموماً چاند کی منزلیں اٹھائیس کہی جاتی ہیں، اس غیبوبت کے زمانہ کو محاق کہتے ہیں، جس ماہ منزلیں 29 ہوں گی تو محاق ایک رات ہوگا اور جس ماہ منزلیں 28 ہوتی ہیں تو محاق کی مدت دورات ہوتی ہے، اور آفتاب کا دورہ سال بھر میں پورا ہوتا ہے، اس کی منزلیں تین سو ساٹھ یا پینسٹھ ہوتی ہیں، مذکورہ مقدار تخمینی ہے۔ قمری ماہ کی تحقیق مدت : چاند کے مدار کا طول تقریباً 13 لاکھ 74 میل ہے، یہ تین سو ساٹھ درجوں پر منقسم ہے اس لئے کہ ہر چیز میں 360 درجہ فرض کرلئے گئے ہیں چاند اس مسافت کو 27 ¼ دونوں میں طے کرتا ہے یعنی چاند زمین کے گرد اپنی گردش 27 ¼ دنوں میں پوری کرتا ہے۔ اگر زمین گردش نہ کرتی تو ایک نئے چاند سے دوسرے نئے چاند تک کی مدت یہی ہوتی، لیکن زمین مع چاند کے سورج کے گرد گردش کرتی ہے، اس لئے ایک نئے چاند سے لے کر دوسرے نئے چاند کی نمود رتک تقریباً 29 ½ دن لگتے ہیں، اگر بالکل ٹھیک حساب کریں تو یہ مدت 29 گھنٹے 14 منٹ اور 2، 8 سیکنڈ ہے، اس مدت کو ایک قمری مہینہ کہتے ہیں۔ حرکت قمر کی مقدار : چاند اپنے مدار کے 360 درجوں میں سے فی یوم 13 درجے 10 دقیقہ 35 ثانیہ، 2 ثالثہ طے کرتا ہے۔ فائدہ : ہر دائرہ میں 360 درجے اور ایک درجہ میں 60 دقیقہ اور ہر دقیقہ میں 60 ثانیہ اور ثانیہ میں 60 ثالثہ ہوتے ہیں۔ (فلکیات جدیدہ، ص 303/304، مولانا محمد موسیٰ صاحب) جعل۔۔۔ منازل (الآیۃ) قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ بضمیر مفرد استعمال کیا ہے، حالانکہ منزلیں شمس وقمر دونوں کی ہیں، بعض مفسرین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ ضمیر مفرد ہے مگر مراد کُلُّ واحد ہے، جس کے نظائر عربی زبان اور خود قرآن میں بکثرت موجود ہیں، بعض مفسرین حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ منزلیں اگرچہ شمس وقمر دونوں کے لئے ہیں مگر بیان صرف چاند کی منزل کا مقصود ہے، اس لئے قَدَّرَہٗ کی ضمیر قمر کی طرف راجع ہے، وجہ تخصیص کی یہ ہے کہ آفتاب کی منزلیں تو آلات رصدیہ اور ریاضی کے حساب کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی، اس کا طلوع و غروب سال کے تمام ایام میں ایک ہی ہیئت سے ہوتا رہتا ہے، مشاہدہ سے کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا، کہ آج آفتاب کونسی منزل میں نخلاف چاند کے کہ اس کی حالات ہر روز مختلف ہوتے ہیں، چاند کے تغیرات کے مشاہدہ سے بےعلم لوگ بھی تاریخوں کا پتہ چلا سکتے ہیں، مثلاً چاند کو دیکھ کر یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آج قمری کونسی تاریخ ہے ؟ مگر سورج کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ آج شمسی تاریخ کونسی ہے ؟ آیت مذکورہ میں چونکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان عظیم الشان نشانیوں سے انسان کا یہ فائدہ بھی وابستہ ہے کہ ان کے ذریعہ وہ سال و ماہ کا حساب کرتا ہے یہ حساب اگرچہ شمس و قمر دونوں سے معلوم ہوسکتا ہے اور دنیا میں دونوں ہی قسم کی تاریخیں قدیم زمانہ سے رائج ہیں، لیکن قمر کے ذریعہ ماہ وسال کا حساب مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے، بخلاف شمس کے کہ اس کے حسابات سوائے ریاضی دانوں کے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا، اس لئے اس آیت میں شمس و قمر کا ذکر کرنے کے بعد جب ان کی منازل مقرر کرنے کا ذکر فرمایا تو بضمیر مفرد قَدَّرہٗ فرمایا۔ احکام اسلام کا مدار قمری تاریخوں پر ہے : شریعت میں احکام کا مدار قمری تاریخوں پر اس لئے رکھا گیا ہے کہ قمری تاریخی معلوم کرنا کے لئے آسان ہے، خواہ وہ لکھا پڑھا آدمی ہو یا اَن پڑھ، شہری ہو یا دیہاتی، دین اسلام چونکہ دین یُسر، سہولتوں کا دین ہے اسی مصلحت کے پیش نظر اکثر شرعی احکام کا دارومدار قمری تاریخوں پر رکھا ہے، ایک ایسے شخص کے لئے کہ جو آبادی سے دور کہیں ریگستان یا پہاڑوں میں رہتا ہے نہ تو وہ پڑھا لکھا ہے اور نہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز کہ جس سے وہ شمسی تاریخ معلوم کرسکتے تو آپ ذرا غور فرمائیں کہ کیا وہ شخص سورج کو دیکھکر تاریخ معلوم کرسکتا ہے ؟ بخلاف تاریخ کے کہ وہ قمر کو دیکھکر تاریخ کی تعیین کرسکتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شمسی تاریخوں کے ذریعہ حساب رکھنایا استعمال کرنا ناجائز ہے، بلکہ اس کو اختیار ہے کہ اپنے روزمرہ کے حساب میں خواہ سمشی تاریخوں کا استعمال کرے یا قمری کا یعنی ان شرعی احکاموں کے علاوہ کہ جن کا مدار شریعت نے قمری تاریخوں پر رکھا ہے مثلاً روزہ، حج، عدت، اپنے روزمرہ کے حسابات شمسی تاریخوں سے رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر شرط یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمانوں میں قمری حساب جاری رہے تاکہ رمضان حج وغیرہ کے اوقات، معلوم ہوسکیں، فقہاء (رح) تعالیٰ نے قمری حساب باقی رکھنے کو مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ (معارف) لا۔۔۔ النھار سورج کے لئے یہ ممکن نہیں کہ چاند کو رفتار میں پکڑلے یعنی سورج کی سلطنت دن میں ہوتی ہے اور چاند کی رات میں، یہ نہیں ہوسکتا کہ چاند کی ضوافشانی کے وقت سورج چاند کو آدبائے، یعنی دن آگے پڑھ کر رات کا کچھ حصہ اڑالے، تا رات آگے بڑھ کر دن ختم ہونے سے پہلے آجائے، جس زمانہ اور جس وقت جس خطہ میں جو اندازہ رات دن کا قادر مطلق نے رکھ دیا ہے شمس و قمر یا لیل ونہار یا کسی بھی کرہ کی یہ مجال نہیں کہ ایک لمحہ بھی آگے یا پیچھے ہوسکیں، کیا یہ اس بات کا واضح نشان نہیں کہ یہ سب عظیم الشان کُرّات ایک زبردست دانا ہستی کے قبضۂ اقتدار میں ہیں، سب اپنا اپنا کار مفوضہ انجام دے رہے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ سرموہی مدبرکون و مکان کے حکم سے انحراف کرسکے، پھر جو ہستی رات دن اور چاند سورج کو ادل بدل کرتی ہے وہ تمہارے فنا کرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز کیوں ہوگی ؟ نکتہ : لا الشمس ینبغی لھَا اَن تُدْرِک القَمَرَ کی تعبیر اختیار فرمائی، لاَ القمرُ ینبغی لَہٗ اَنْ یُّدْرِکَ نہیں فرمایا، اس لئے کہ چاند سورج کو پکڑ لیتا ہے سورج چاند کو نہیں پکڑ سکتا، اس لئے کہ چاند کی رفتار سورج کی رفتار سے بہت زیادہ تیز ہے سورج مسافت کو ایک سال میں طے کرتا ہے چاند اس کو ایک ماہ میں طے کرلیتا ہے، البتہ بعض اوقات چاند سورج کو پکڑ سکتا ہے اس لئے کہ چاند اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے بعض اوقات آفتاب کے پاس سے گذرے تو کہا ھاسکتا ہے کہ چاند نے سورج کو پکڑلیا۔ ولا۔۔ النھار اور رات دن پر سابق نہیں ہوسکتی اس کا آسان اور سیدھا ایک مطلب تو یہ ہے کہ رات دن ختم ہونے سے پہلے نہیں آسکتی، ایک مطلب اس کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ رات درمیان میں دن کو چھوڑ کر سبقت نہیں کرسکتی، بایں طور کہ دوراتیں بغیر درمیان میں دن کے آئے ہوئے ایک ساتھ جمع ہوجائیں، اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ دن تخلیق میں رات پر سابق ہے، قال فی الروح وَاسْتَدَلَّ بالآیۃ أنَّ النَّھَارَ سابِقٌ علَی اللَّیْلِ فِی الْخَلْقِ حالانکہ مخلوقات میں اصل ظلمت ہے، نور طاری ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیل تخلیق میں نہار پر سابق ہے، مذکورہ دونوں باتوں میں تعارض ہے، نیز اگر اللہ تعالیٰ کے قول وَلَا اللیلُ سابِقُ النَّھَارِ سے نہار کا سابق ہونا معلوم ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے قول یُغْشِی اللیلَ النھارَ یَطْلُبُہٗ (سورۂ اعراف) سے رات کا سابق ہونا معلوم ہوتا ہے حالانکہ ان دونوں باتوں میں تضاد ہے مذکورہ تضاد کا بعض مفسرین نے یہ جواب دیاہی کہ لیل سے مراد آیت یعنی قمر ہے، اور نہار سے مراد یعنی شمس ہے اور قمر، شمس کو حرکت یومیہ میں نہیں پکڑ سکتا، اور ولا اللیل سابق النھار میں لیل سے مراد نفس لیل ہے اور چونکہ لیل و نہار ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں اس وجہ سے ہر ایک دوسرے کا طالب بھی ہے۔ (روح المعانی ملخصًا) وکل۔۔ یسبحون یعنی آفتاب و ماہتاب دونوں اپنے اپنے مدار میں تیرتے رہتے ہیں، فلک کے معنی اس دائرہ کے ہیں جس میں کوئی سیارہ گردش کرتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند آسمان میں مرکوز نہیں جیسا کہ بطلیموسی نظریہ میں ہے، جس کو فیثا غورث اور جدید سائنس نیز انسان کے چاند پر پہنچنے، نے غلط ثابت کردیا ہے، بلکہ آسمان کے نیچے ایک خاص مدار میں گردش کرتا ہے، چاند کے علاوہ تمام سیارے زیر آسمان فضا ہی میں گردش کناں ہیں، لہٰذا اس معجزۂ معراج پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لئے کہ معراج آسمانوں سے بھی اوپر تک رسائی کا نام ہے۔ شان نزول : واذا۔۔ اللہُ . یہ آیت مکہ کے بعض جبارین مثلاً عاص بن وائل سہمی وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، نیز اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح مشرکین مکہ نے حقوق اللہ کو ترک کیا تھا حقوق العباد کے ترک کے بھی مرتکب ہوئے تھے، اگر کوئی حاجت مند مسکین ان سے کچھ طلب کرتا تو کہہ دیتے کہ جب اللہ ہی نے تم کو محروم کردیا تو میں تم کو دینے والا کون ہوتا ہوں ؟ اور میری کیا مجال کہ میں خدا کی مشئیت میں دخل دوں، اگر اس کو کھلانا ہوتا تو وہ خود ہی تم کو کھلا دیتا، معلوم ہوا تم کو اس کے کھلانے کا ارادہ ہی نہیں ہے، اِذاقیل لَھُمْ شرط ہے، اسکا جواب محذوف ہے اور وہ اعرضوا ہے، اسکے محذوف ہونے پر آئندہ آیت کے الفاظ دال ہیں، یعنی انکے پاس انکے رب کی جو بھی آیت آتی ہے وہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں۔
Top