Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 7
لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤى اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
لَقَدْ حَقَّ : تحقیق ثابت ہوگئی الْقَوْلُ : بات عَلٰٓي : پر اَكْثَرِهِمْ : ان میں سے اکثر فَهُمْ : پس وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہ لائیں گے
بیشک ان میں اکثر لوگوں پر یہ بات (ان کے اعمال کے باعث) ثابت ہوچکی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے
اکثریت پر یہ بات صادق آئے گی کہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں : 7۔ انداز بیان پر غور کرو کہ وہ انداز خود پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ پہلے انبیاء کرام جن جن بستیوں ‘ قوموں اور علاقوں کی طرف بھیجے گئے ان کی بھی یہی حالت رہی کہ ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہ ہوئی بلکہ اکثریت کے مقابلہ میں اقلیت ہی نے اس نبی ورسول کی نبوت و رسالت کو تسلیم کیا اور اس طرح جو بات پیچھے ہوتی چلی آرہی تھی وہی اب بھی ہوگی کہ ان لوگوں کی اکثریت بھی ایمان لانے والی نہیں ہے اور اس طرح گزشتہ قوموں والی بات ان پر بھی صادق آئے گی اور فی الواقع وہی ہوا لیکن آخر ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ قدرت نے مقصود اصل کو اضافات سے بہت ہی کم رکھا ہے اور قانون قدرت کی خلاف ورزی ممکن ہی نہیں اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ ہر وہ فیصلہ اور ہر وہ بات جس میں صرف اور صرف اکثریت کے پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہو وہ کبھی صحیح نہیں ہو سکتا ۔ یہی وہ مقصود اصل تھا جو سمجھانے کے لئے اللہ نے انبیاء ورسل کو بھیجا اور ان کی قوموں کو ان کے مقابلہ میں کھڑا کرکے اس کی تفہیم کرائی گئی اور یہی وہ مقصود اصل تھا جس کو سمجھانے کے لئے نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا اور آپ ﷺ کی زندگی کا ایک ایک حرف لوگوں کے سامنے رکھ کر اس کا خوب مشاہدہ کرایا گیا قرآن کریم نے اس اصل عظیم کو بار بار دہرایا پھر اس پر جتنے اعتراضات وارد ہو سکتے تھے ان کو خود وارد کر کے ان کے جواب دیئے گئے اور بات کو تصریف آیات کے ذریعہ اس طرح باور کرایا گیا کہ شاید ہی کسی اور موضوع کو اس قدر مثالیں دے کر بیان کیا گیا ہو جتنا کہ اس کو بیان کیا گیا اگر اس کی تفصیل کی جائے تو اس کے لئے ایک دفتر درکار ہے لیکن اشارات کیے جاسکتے ہیں اور وہ ہم نے عروۃ الوثقی جلد سوم سورة الانعام کی آیت 116 کے زیر عنوان ص 521 سے 534 تک بیان کیا ہے ۔ اشارات کو وہاں سے دیکھ لیں اور ان آیات کی وضاحت سمجھنے کے لئے محولہ آیتوں کی تفسیر کو پڑھیں جو عروۃ الوثقی کی جلدوں میں 85 مقامات پر پھیلی ہوئی ہے ۔ لیکن افسوس کہ ہمارے مذہبی پیشواؤں نے قرآن کریم کی ان آیتوں سے بالکل ہی منہ موڑ لیا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ قوم مسلم کے سیاسی لیڈروں نے مل کر عیسائیوں اور یہودیوں کی پیروی کو قرآن کریم اور رسول مکرم ﷺ کی پیروی پر ترجیح دے دی اور قرآن ورسول کی پیروی کا پٹا اتار کر یہود ونصاری کی پیروی کا پٹا پہن لیا اور اس طرح انہوں نے اپنی سیاست کے بل بوتے پر حکومت کی باگ ڈور سنبھال کر اس سے سیاسی فوائد حاصل کرنے شروع کردیئے اور ان کے سارے سیاسی فوائد کا نچوڑ اور ماحصل دولت تھا اس پر انہوں نے کنٹرول حاصل کرلیا ‘ کسی بھی قوم کا اگر ایک طبقہ سیاسی ہوتا ہے تو دوسرا مذہبی بھی ہوتا ہے ہمارے سیاسی لیڈروں نے اس مذہبی طبقہ کے حقوق بھی فی الواقع غصب کرلیے اور ان کو اپنے اصل حق سے بھی محروم کردیا اب اس مذہبی پیشواؤں کے طبقہ نے چونکہ فرقہ بندی کی لعنت کو پہلے ہی اپنے سر اٹھا لیا ہوا تھا ان کو پورا یقین ہوگیا کہ ہمارے سروں کا یہ بوجھ ہم کو کبھی اپنا حق وصول نہیں ہونے دے گا تو انہوں نے مل کر ان سیاسی لیڈروں سے اپنا حق وصول کرنے کی بجائے ان کی پیروی کرچکے تھے جب مذہبی پیشواؤں نے ان کی پیروی شروع کی تو مطلب اور بھی واضح اور صاف ہوگیا کہ اب مذہبی پیشوا یہی چاہتے ہیں کہ وہ فوائد اسی طرح ہم بھی حاصل کریں جس طرح سیاسی لیڈروں نے حاصل کیے تو اس طرح وہ بھی اپنے اپنے مذہبی فرقے اور مذہبی گروہ بندی کے لیڈر بن گئے اور انہی سیاسی لیڈروں کے ساتھ مل بیٹھے اور اب وہی ہتھ کنڈے جو خالص سیاسی لیڈروں کے تھے ان ناخالص لیڈروں نے بھی اختیار کرلیے ہاں ! اگر یہ ناخالص کا لفظ آپ کو پسند نہ آئے تو ان کو آپ مذہب زدہ سیاسی لیڈر کہہ لیں تاکہ مذہب کا نام بھی ساتھ ساتھ رہے اس طرح اگر پہلے ایک قلندر تھے تو یہ دوسرا ڈیڑھ قلندر ہوگئے اور قوم کا محافظ ونگہبان اللہ ہی ہے اور یقینا وہی اپنا ہاتھ بڑھائے گا تو کوئی نتیجہ سامنے آئے گا لیکن اس کی حکمت کے تقاضے وہی جانتا ہے کہ کسی جرم کو کتنی مدت تک ہونے دینا ہے اور تب اس کے ہاتھ کو حرکت آنا ہے وہی اس کی مدت کو اور وہی اس کی حقیقت کو جانتا ہے ۔ ولا یظھر علی غیبہ احدا “۔
Top