Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے، اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
(3 ۔ 5): ایمان کا لفظ قرآن شریف میں جہاں اعمال کے لفظ کے ساتھ آیا ہے وہاں اسکے معنی دلی یقین کے ہیں اور جہاں بغیر لفظ اعمال کے آیا ہے وہاں اکثر سلف کے نزدیک اس سے اعتقاد قلبی اور قول زبانی اور عمل مراد ہے۔ عذاب قبر۔ حشر۔ پل صراط۔ جنت و دوزخ یہ سب غیب کے معنوں میں ہیں نماز کے قائم رکھنے سے یہ مراد ہے کہ نماز کے ارکان رکوع سجدہ اچھی طرح سے ادا کیا جاوے { وَمِمَّا رَزَقْنَہُمْ یَنْفِقُوْنَ } سے فرض زکوٰۃ نفلی اور خیرات دونوں مراد ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ صلو کما رایتمونی اصل یعنی تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح سے تم نے مجھ کو نماز پڑہتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو چاہتے کہ آنحضرت ﷺ کے نماز پڑھنے کی تفصیل حدیث کی کتابوں کے اردو ترجمہ سے یاد کر لیوے اور اس کے موافق نماز پڑھا کرے۔ حاصل یہ ہے کہ جو شخص قرآن شریف کا کتاب الٰہی ہونے کا دل سے یقین جان کر اس کے حکموں کی پابندی کرے یہ قرآن شریف اس کا ہر طرح سے راہبر ہوگا اور اس کو نیک راہ پر لگا وے گا یہاں تک کہ ایسا شخص جنت میں راحت و آرام سے رہے گھا جس سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی فلاح اور کامیابی نہیں۔ آخرت سے مراد روز آخرت یعنی عقبی پر ایمان لانے اور یقین کرنے کا ذکر قرآن شریف میں جگہ جگہ اس لئے ہے کہ جب تک عقبی کا پورا یقین نہ ہو عقبیٰ کے اجر اور ثواب کے اعتقاد سے نیک عمل کوئی نہیں کرسکتا۔ اور بغیر اس کے دکھاوے اور ریاکاری سے کچھ کیا بھی تو وہ خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول اور قابل اجر نہیں ہوسکتا۔
Top