Tafseer-al-Kitaab - Al-A'raaf : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں بھی) خرچ کرتے ہیں۔
[3] غیب سے مراد وہ چیزیں ہیں جو حواس اور عقل سے پوشیدہ ہیں۔ مثلاً اللہ کی ذات وصفات، ملائکہ، وحی، جنت، دوزخ وغیرہ۔ ہم ان کو صرف اللہ اور رسول ﷺ کے فرمانے سے صحیح مان لیتے ہیں۔ [4] نماز قائم کرنے کے معنی صرف یہ نہیں کہ آدمی پابندی سے نماز ادا کرے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے۔ اسلام میں نماز کا مزاج اور اس کی صحیح شکل یہی ہے۔ اگر کوئی شخص بلا عذر نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہ ہو تو رسول اللہ ﷺ کے قول کے مطابق اس کی نماز مقبول ہی نہیں ہوتی۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، دارقطنی، حاکم، بروایت عبداللہ بن عباس ؓ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب اس پر اس طرح مداومت کرتے رہے کہ گویا وہ بھی نماز کا جز اور اس کے اندر داخل ہے۔ آپ نے اپنے مرض وفات میں بھی اسے ترک نہیں فرمایا۔ آپ جماعت چھوڑنے والوں پر سخت ناراض ہوتے تھے۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو بعض نماز میں نہ دیکھا تو فرمایا کہ میں سوچتا ہوں کہ ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ نماز پڑھائے پھر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت سے پیچھے رہ جاتے ہیں پھر حکم دوں کہ لکڑیوں کو جمع کر کے ان کے گھروں کو جلا دیا جائے۔
Top